جی فواد صاحب طالبان تو حکومت کے سلیقہ سے عاری سمجھے جاتے رہے لیکن کیا ہم امریکہ کے بارے میں کچھ وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اس نے اس سلسلے میں کیا کیا افغانستان میں۔ :
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
بدقسمتی سے يہ مسلہ اس سے کہيں زيادہ پيچيدہ ہے جس کے مستقل حل کے ليے حکومت کی ہر سطح پر جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ آپ اس مسلئے کی پيچيدگی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہيں کہ سال 2006 ميں ايک عالمی تھنک ٹينک سينلسز کونسل نے ايک تفصيلی رپورٹ ميں باقاعدہ يہ سفارش کی تھی کہ افغانستان ميں پوست کی کاشت اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ اس مسلئے کا واحد حل يہ ہے کہ افغانستان ميں پوست کی کاشت کو قانونی تحفظ دے ديا جائے۔ امريکی حکومت نے اس تجويز کی شديد مخالفت کی تھی۔ سينلسز کونسل کی رپورٹ اور اس پر امريکی ردعمل کی تفصيل آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔
http://2001-2009.state.gov/p/inl/rls/rpt/80734.htm
اس وقت امريکہ اور برطانيہ افغانستان ميں آئ – ايس – اے – ايف اور اقوام متحدہ کی کئ تنظيموں کے اشتراک سے پوست کی کاشت کی روک تھام اور اس کی ترسيل کی روک تھام کے ليے ايک تفصيلی منصوبے پر کام کر رہے ہيں۔
اگر آپ افغانستان کے نقشے پر نظر ڈاليں تو آپ ديکھ سکتے ہیں کہ اس وقت پوست کی کاشت کا زيادہ کام ان علاقوں ميں ہو رہا ہے جو طالبان کے زير اثر ہيں۔ ان علاقوں ميں افغان حکومت کی جانب سے کاشتکاروں کو کاروبار کے متبادل پروگرام کے فوائد سے روشناس کرانے ميں شديد مشکلات کا سامنا ہے۔
http://upload.wikimedia.org/wikipedia/commons/c/cf/Afghan_Opium_Production_2005_2007.JPG
http://img530.imageshack.us/my.php?image=mapafghanpoppy600fa8.jpg
ماضی ميں اندس، تھائ لينڈ، برما اور بھارت ميں پوست کی کاشت کی حوالے سے چلائ جانے والی تحريکوں کے تجربے سے يہ بات واضع ہے کہ اس ضمن ميں کاميابی صرف اسی صورت ميں ممکن ہے جب اس ميں مقامی لوگوں کا اشتراک اور تعاون بھی شامل ہو۔ تاريخ شاہد ہے کہ ڈرگ کے کاروبار کی روک تھام کے ليے ضروری ہے کہ انفرادی سطح پر کاشت کاروں کو کوئ متبادل ذريعہ معاش بھی فراہم کيا جائے۔
ليکن يہ بات بھی ياد رہے کہ اس ضمن ميں مقامی ڈرگ مافيا کے خلاف بے شمار کاروائياں بھی جاری ہيں۔ ڈرگ مافيا کے خلاف کئ مقدمات امريکی اور افغان عدالتوں ميں پيش کيے گئے ہيں سال 2007 ميں ڈرگز کے کاروبار کے ضمن ميں 278 مقدمات ميں سزائيں سنائ گئ ہيں۔ سال 2006 ميں 182 مقدمات کا فيصلہ کيا گيا۔ امريکی عدالت ميں چار ايسے اہم کرداروں کے خلاف مقدمات کا فيصلہ کيا گيا جو افغانستان ميں پوست کی کاشت اور طالبان کو فنڈز کی فراہمی ميں براہراست ملوث تھے۔ ان چار افراد کے نام يہ ہيں : خان محمد، حاجی بشير نورزئ، محمد عيسی اور حاجی باز محمد۔
افغان حکومت کی مستقبل قريب کی پاليسيوں ميں ڈرگز کی ترسيل اور اس سلسلے ميں مدد فراہم کرنے والے اہم کرپٹ افسران کے خلاف کاروائ بھی شامل ہے۔ حال ہی ميں بلخ، بدگشان اور نانگرہار ميں افغان حکومت کی جانب سے ڈرگ مافيا کے خلاف بڑی کاروائياں اسی سلسلے کی اہم کڑياں ہيں۔ ان تمام صوبوں ميں سال 2008 میں پوست کی کاشت ميں خاطرخواہ کمی متوقع ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ افغانشتان کے کچھ صوبوں کے گورنرز اس مسلئے کے حل کے ليے ترجيحی بنيادوں پر کام کر رہے ہيں ليکن کچھ صوبے ايسے بھی ہيں جہاں پر امن وامان کی خراب صورت حال کے باعث اس ضمن ميں خاطر خواہ کاميابی حاصل نہيں ہو رہی۔ اس ضمن ميں امريکی حکومت مقامی انتطاميہ کو ہر ممکن امداد فراہم کر رہی ہے۔ افغانستان کے شمالی اور مشرقی پہاڑی علاقوں ميں وہ غريب کسان جو دو تين سال پہلے تک پوست کی کاشت پر گزر اوقات کرتے تھے اب امن وامان کی بہتر سہوليات اور متبادل کاروبار کے مواقعوں کے پيش نظر حکومت کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ ليکن افغانستان کے ان علاقوں ميں جہاں امن وامان کی صورت حال قابو ميں نہيں ہے وہاں پر ابھی بھی يہ کاروبار زور وشور سے جاری ہے۔ تحقيق سے يہ پتا چلتا ہے کہ افغانستان کے سب سے خوش حال صوبے ہلمند ميں سال 2007 کے دوران 41 فيصد خاندانوں کا ذريعہ معاش پوست کی کاشت سے منسلک تھا جب کہ ملکی سطح پر يہ شرع 4 فيصد ہے۔ افغان ريسرچ اور ايويلويشن يونٹ (اے – آر – ای – يو) کے مطابق ہلمند کے صوبے ميں ايک عام کسان يوميہ ايک ڈالر پر زندگی گزار رہا ہے۔
سال 2007 ميں يو – اين – او – ڈی – سی کے ايک سروے کے مطابق ان صوبوں کی تعداد 6 سے بڑھ کر 13 ہو گئ ہے جہاں پوست کی کاشت کا کاروبار يا تو ختم ہو گيا ہے يا محض برائے نام کيا جاتا ہے۔ ليکن ان مغربی صوبوں ميں پوست کی کاشت ميں اضافہ ہوا ہے جہاں سيکورٹی انتظاميہ کے کنٹرول ميں نہيں ہے۔ اس وقت پوست کی کاشت کا 70 فيصد کاروبار انھی علاقوں ميں ہو رہا ہے۔
يو – ايس – ايڈ کی جانب سے عام کسانوں کو اس کاروبار سے دور رکھنے کے ليے جو امداد دی گئ ہے اس کے اعداد وشمار کچھ يوں ہیں
اب تک 5۔1 ملين کسانوں کو کاشت کاری کے جديد اصولوں سے روشناس کرانے کے ليے ٹرينيگ دی گئ۔
مجموعی طور پر 49 ملين ڈالرز کے قرضے فراہم کيے گئے۔
معيشت کو استحکام دينے کے ليے 878 ملين ڈالرز کی امداد دی گئ۔
عام کاشت کاروں کی سہولت کے ليے قريب 1000 کلوميٹر تک سڑکيں تعمير کی گئيں۔
اسی طرح ڈی – ايف – آئ – ڈی کی جانب سے افغان حکومت کو سڑکوں کی تعمير، زراعت اور تعليم کے ضمن ميں صرف ہلمند کے صوبے کے ليے 40 ملين ڈالرز کی رقم مختص کی گئ ہے۔
يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ افغانستان ميں پوست کی کاشت کے کاروبار کی روک تھام کی اصل ذمہ داری افغان حکومت پر عائد ہوتی ہے اور اس حوالے سے کی جانے والی کاروائ افغان حکومت کے تعاون سے مشروط ہے۔
اس ميں کوئ شک نہيں ہے کہ افغانستان ميں اس کاروبار کے مکمل خاتمے کے ليے کوئ جادوئ نسخہ نہيں ہے۔ مقامی غريب کاشت کاروں اور کسانوں کو کاروبار کے متبادل ذرائع مہيا کيے بغير اس مسلئے کو ديرپا بنيادوں پر حل نہيں کيا جا سکتا۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu