امریکی مغوی اب ’پکا مسلمان‘
پال وُڈبی بی سی، مشرق وسطی
اغوا کے بہت جلد ہی پیٹر نے اسلام قبول کر لیا اور وہ عبدالرحمان کہلانے لگ گئے
پیٹر کیسگ نامی امدادی کارکن جنھیں دولت اسلامیہ نے اغوا کر لیا تھا، قید کے دوران ’پکے مسلمان‘ ہو چکے ہیں۔
پیٹر کیسگ کے ایک ساتھی قیدی کا کہنا ہے کہ پیٹر نے اپنا نام تبدیل کر لیا ہے اور وہ اب ’عبدالرحمان کیسگ‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
پیٹر کیسگ کے ساتھ قید میں رکھے جانے والے ایک قیدی کا کہنا ہے کہ وہ 26 سالہ عبدالرحمان کیسگ کو ان دنوں سے جانتے ہیں جب وہ پہلی مرتبہ شام اور ترکی کی درمیانی سرحد پر ملے تھے اور دونوں نے امدادی کام کا آغاز کیا تھا۔
ڈاکٹر انس کے بقول کیسگ کبھی بھی دنیا دار شخص نہیں تھے کیونکہ وہ کھُل کے بات کرتے تھے، دیانت دار تھے، قدرے جذباتی تھے، عام لوگوں کی مدد کر کے خوش ہوتے اور بہت جلد ہی مزاحمت کاروں کے بہکاوے میں آ جاتے تھے: ’اسی لیے بعد میں جب میں نے اُس کے والدین کو یہ کہتے سنا کہ ان کا بیٹا اس دنیا میں اپنے مقام کی تلاش میں تھا تو سچ پوچھیں مجھے کچھ زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔‘
میٹھے کا شوق
ہم 24 گھنٹے کھانے کا ہی انتظار کرتے رہتے تھے کیونکہ ہمیں کبھی بھی کافی کھانا نہیں دیا جاتا تھا۔ جہاں تک عبدالرحمان کا تعلق ہے، تو وہ اپنا تمام کھانا دوسرے مغویوں کو دے دیتا تھا اور خود میٹھی چیزوں کی تلاش میں لگا رہتا تھا۔
عبالرحمان کے ایک ساتھی
لگتا ہے پیٹر کیسگ کو جس چیز کی تلاش تھی وہ انھیں مل گئی اور انھوں نے شام سے تعلق رکھنے والے طبی اہلکاروں کو تربیت دینا شروع کر دی۔ ان کی تربیت کی بدولت شاید کئی لوگ موت کے منہ میں جانے سے بچ گئے۔
ان کا کام آسان نہیں تھا بلکہ وہ ہر وقت گولیوں، بموں، فضائی حملوں اور اغوا کیے جانے کے خطرات میں گھرے ہوئے تھے۔
ڈاکٹر انس کے بقول جب وہ آخری مرتبہ کیسگ سے ملے تو انھوں نے پوچھا: ’پیٹر، تمھیں مرنے سے ڈر نہیں لگتا، تو اس کا جواب تھا کہ تم سب کی زندگیوں کے مقابلے میں میری زندگی کی کوئی قیمت نہیں۔‘
گذشتہ برس عبدالرحمان کو اس وقت اغوا کر لیا گیا تھا جب وہ شمالی شام کے قصبے دیار ازور جا رہے تھے۔ ان کو اغوا کرنے والے گروہ دولت اسلامیہ کا کہنا تھا کہ موت کے گھاٹ اتارے جانے والے اگلے مغربی مغوی عبدالرحمان ہی ہوں گے۔
فرانسیسی صحافی نکولس ہینن اغوا کیے جانے کے چار ماہ بعد تک عبدالرحمان کے ساتھ ایک ہی کمرے میں قید رہے۔ بعد میں نکولس ہینن کو باقی فرانسیسی مغویوں کے ساتھ رہا کر دیا گیا تھا۔
نکولس نے مجھے بتایا کہ عبدالرحمان بھی شروع شروع میں باقی مغویوں کی طرح پریشان ہو گئے تھے اور ’قید نے اس پر بھی خاصے اثرات مرتب کیے تھے۔‘
عبدالرحمان کے والدین کے بقول ان کا بیٹا منزل کی تلاش میں تھا
نکولس سے میری ملاقات پیرس میں ہوئی۔ جب ہماری ٹیکسی پیرس کی اینٹوں سے بنی ہوئی گلیوں سےگزر رہی تھی تو نکولس نے مجھے قید کے دنوں کے بارے میں بتایا۔ انھوں نے بتایا کہ تمام مغوی کس طرح بھوک، اکتاہٹ اور دہشت کا نشانہ بن رہے تھے۔
’ہمار معمول یہی تھا کہ ہم 24 گھنٹے کھانے کا ہی انتظار کرتے رہتے تھے کیونکہ ہمیں کبھی بھی کافی کھانا نہیں دیا جاتا تھا۔ جہاں تک عبدالرحمان کا تعلق ہے، تو وہ اپنا تمام کھانا دوسرے مغویوں کو دے دیتا تھا اور خود میٹھی چیزوں کی تلاش میں لگا رہتا تھا۔ وہ ہر وقت اسی چکر میں ہوتا تھا کہ کہیں سے اسے مارملیڈ مل جائے۔
’اپنے اغوا کے بہت جلد ہی پیٹر نے اسلام قبول کر لیا تھا اور عبدالرحمان کہلانے لگ گیا تھا۔ جب میں اسے پہلی مرتبہ ملا تو وہ اس وقت بھی تمام پہرے داروں کو اپنا نام عبدالرحمان ہی بتا رہا تھا۔
’پیٹر نے مجھے بتایا کہ اسلام اس کے لیے کتنا اہم ہے اور اسے قید سے نمٹنے میں اسلام کتنی مدد کر رہا ہے۔ وہ بہت پکا مسلمان ہو چکا تھا۔ مجھے لگا کہ پیٹر قدرے پریشان تو ہے، لیکن اسلام اسے طاقت بخش رہا ہے۔
عقیدے سے مطمئن ہوں
یہ جانتے ہوئے کہ قید میں اکثر لوگ اس قسم کی حرکت کرتے ہیں جس میں وہ اپنے اغوا کاروں کو خوش کرنا شروع کر دیتے ہیں اور انھیں اغوا کاروں سے ہمدردی ہو جاتی ہے، میں نے نکولس سے کہا: ’مجھے لگتا ہے کہ ہم سٹاک ہوم سنڈروم کی بات کر رہے ہیں۔‘
نکولس کا جواب بالکل الٹ تھا: ’ہمیں اغوا کرنے والوں کو نفسیات کا تو کچھ زیادہ پتہ نہیں تھا، لیکن ایک بات یقینی ہے کہ وہ ہمیں سٹاک ہوم سنڈروم میں بالکل مبتلا نہیں کرنا چاہتے تھے، بلکہ انھوں نے اس سے بچاؤ کا پورا بندوبست کیا ہوا تھا۔‘
نکولس اپنے اس جواب سے دراصل اس تشدد کی جانب اشارہ کر رہے تھے جس کا نشانہ دولتِ اسلامیہ کے جنگجو اپنے مغویوں کو بناتے ہیں۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے نکولس نے کہا: ’ کچھ پہرے دار ہم میں سے ان لوگوں کی زیادہ عزت کرتے تھے جو مسلمان ہو چکے تھے، لیکن باقی اغواکاروں کی نظر میں مسلمان یا غیر مسلمان کا کوئی لحاظ نہیں تھا۔‘
میں نے نکولس سے پوچھا کہ انھوں نے وہ ویڈیو دیکھی ہے جس میں برطانوی مغوی ایلن ہیننگ کو قتل کرتے دکھایا گیا اورعبدالرحمان کیسگ کو بھی قتل کیے جانے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔
ایک بہت طویل خاموشی کے بعد نکولس کا کہنا تھا کہ انھوں نے وہ تمام ویڈیوز دیکھی ہیں:
پیٹر کیسگ کے والدین کو امید ہے کہ ان کا بیٹا زندہ واپس آجائے گا
’یہ میرے لیے نہایت ہی کربناک تجربہ تھا، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اِن ویڈیوز میں مجھے بھی قتل ہوتے دکھایا جا سکتا تھا۔‘
یاد رہے کہ عبدالرحمان قید سے اپنےگھر والوں تک ایک خط پہنچانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اس خط میں ان کا کہنا تھا: ’جہاں تک میرے ایمان کا تعلق ہے، تو ہر روز نماز پڑھتا ہوں اور اس سے لحاظ سے میں اپنی قید سے پریشان نہیں ہوں۔اگرچہ عقیدے کے لحاظ سے آج کل مجھے تھوڑی پیچیدہ صورتِ حال کا سامنا ہے، لیکن میں اپنے عقیدے سے مطمئن ہوں۔‘
عبدالرحمان کے والدین اپنے بیٹے کے ان الفاظ سے یہی مطلب لیتے ہیں کہ وہ مسلمان ہو چکا ہے۔
والدین کی شدید خواہش ہے کہ ان کے بیٹے کا مذہب اس کی جان بچانے کا سبب بن جائے۔
ان کی یہ خواہش بالکل بے جا نہیں ہے، کیونکہ لوگوں کو اغوا کرنا اور پھر انھیں سزائے موت دے دینا، یہ کام دولتِ اسلامیہ کے جنجگجوؤں کے ہر روز کے جنگی ہتھکنڈے ہیں۔
والدین کو یہ خواہش رکھنی چاہیے کہ ان کے بیٹے کا ’پیٹر کسیج‘ سے ’عبدالرحمان کسیج‘ بن جانا اس کے کام آ جائے۔
لیکن مجھے یقین ہے کہ انھیں اس دردناک حقیقت کا بھی علم ہے کہ دولتِ اسلامیہ صرف غیر مسلموں کو ہی نہیں مارتی، بلکہ اس کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارے جانے والوں کی اکثریت مسلمان ہی تھی۔
پال وُڈبی بی سی، مشرق وسطی
اغوا کے بہت جلد ہی پیٹر نے اسلام قبول کر لیا اور وہ عبدالرحمان کہلانے لگ گئے
پیٹر کیسگ نامی امدادی کارکن جنھیں دولت اسلامیہ نے اغوا کر لیا تھا، قید کے دوران ’پکے مسلمان‘ ہو چکے ہیں۔
پیٹر کیسگ کے ایک ساتھی قیدی کا کہنا ہے کہ پیٹر نے اپنا نام تبدیل کر لیا ہے اور وہ اب ’عبدالرحمان کیسگ‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
پیٹر کیسگ کے ساتھ قید میں رکھے جانے والے ایک قیدی کا کہنا ہے کہ وہ 26 سالہ عبدالرحمان کیسگ کو ان دنوں سے جانتے ہیں جب وہ پہلی مرتبہ شام اور ترکی کی درمیانی سرحد پر ملے تھے اور دونوں نے امدادی کام کا آغاز کیا تھا۔
ڈاکٹر انس کے بقول کیسگ کبھی بھی دنیا دار شخص نہیں تھے کیونکہ وہ کھُل کے بات کرتے تھے، دیانت دار تھے، قدرے جذباتی تھے، عام لوگوں کی مدد کر کے خوش ہوتے اور بہت جلد ہی مزاحمت کاروں کے بہکاوے میں آ جاتے تھے: ’اسی لیے بعد میں جب میں نے اُس کے والدین کو یہ کہتے سنا کہ ان کا بیٹا اس دنیا میں اپنے مقام کی تلاش میں تھا تو سچ پوچھیں مجھے کچھ زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔‘
میٹھے کا شوق
ہم 24 گھنٹے کھانے کا ہی انتظار کرتے رہتے تھے کیونکہ ہمیں کبھی بھی کافی کھانا نہیں دیا جاتا تھا۔ جہاں تک عبدالرحمان کا تعلق ہے، تو وہ اپنا تمام کھانا دوسرے مغویوں کو دے دیتا تھا اور خود میٹھی چیزوں کی تلاش میں لگا رہتا تھا۔
عبالرحمان کے ایک ساتھی
لگتا ہے پیٹر کیسگ کو جس چیز کی تلاش تھی وہ انھیں مل گئی اور انھوں نے شام سے تعلق رکھنے والے طبی اہلکاروں کو تربیت دینا شروع کر دی۔ ان کی تربیت کی بدولت شاید کئی لوگ موت کے منہ میں جانے سے بچ گئے۔
ان کا کام آسان نہیں تھا بلکہ وہ ہر وقت گولیوں، بموں، فضائی حملوں اور اغوا کیے جانے کے خطرات میں گھرے ہوئے تھے۔
ڈاکٹر انس کے بقول جب وہ آخری مرتبہ کیسگ سے ملے تو انھوں نے پوچھا: ’پیٹر، تمھیں مرنے سے ڈر نہیں لگتا، تو اس کا جواب تھا کہ تم سب کی زندگیوں کے مقابلے میں میری زندگی کی کوئی قیمت نہیں۔‘
گذشتہ برس عبدالرحمان کو اس وقت اغوا کر لیا گیا تھا جب وہ شمالی شام کے قصبے دیار ازور جا رہے تھے۔ ان کو اغوا کرنے والے گروہ دولت اسلامیہ کا کہنا تھا کہ موت کے گھاٹ اتارے جانے والے اگلے مغربی مغوی عبدالرحمان ہی ہوں گے۔
فرانسیسی صحافی نکولس ہینن اغوا کیے جانے کے چار ماہ بعد تک عبدالرحمان کے ساتھ ایک ہی کمرے میں قید رہے۔ بعد میں نکولس ہینن کو باقی فرانسیسی مغویوں کے ساتھ رہا کر دیا گیا تھا۔
نکولس نے مجھے بتایا کہ عبدالرحمان بھی شروع شروع میں باقی مغویوں کی طرح پریشان ہو گئے تھے اور ’قید نے اس پر بھی خاصے اثرات مرتب کیے تھے۔‘
عبدالرحمان کے والدین کے بقول ان کا بیٹا منزل کی تلاش میں تھا
نکولس سے میری ملاقات پیرس میں ہوئی۔ جب ہماری ٹیکسی پیرس کی اینٹوں سے بنی ہوئی گلیوں سےگزر رہی تھی تو نکولس نے مجھے قید کے دنوں کے بارے میں بتایا۔ انھوں نے بتایا کہ تمام مغوی کس طرح بھوک، اکتاہٹ اور دہشت کا نشانہ بن رہے تھے۔
’ہمار معمول یہی تھا کہ ہم 24 گھنٹے کھانے کا ہی انتظار کرتے رہتے تھے کیونکہ ہمیں کبھی بھی کافی کھانا نہیں دیا جاتا تھا۔ جہاں تک عبدالرحمان کا تعلق ہے، تو وہ اپنا تمام کھانا دوسرے مغویوں کو دے دیتا تھا اور خود میٹھی چیزوں کی تلاش میں لگا رہتا تھا۔ وہ ہر وقت اسی چکر میں ہوتا تھا کہ کہیں سے اسے مارملیڈ مل جائے۔
’اپنے اغوا کے بہت جلد ہی پیٹر نے اسلام قبول کر لیا تھا اور عبدالرحمان کہلانے لگ گیا تھا۔ جب میں اسے پہلی مرتبہ ملا تو وہ اس وقت بھی تمام پہرے داروں کو اپنا نام عبدالرحمان ہی بتا رہا تھا۔
’پیٹر نے مجھے بتایا کہ اسلام اس کے لیے کتنا اہم ہے اور اسے قید سے نمٹنے میں اسلام کتنی مدد کر رہا ہے۔ وہ بہت پکا مسلمان ہو چکا تھا۔ مجھے لگا کہ پیٹر قدرے پریشان تو ہے، لیکن اسلام اسے طاقت بخش رہا ہے۔
عقیدے سے مطمئن ہوں
جہاں تک میرے ایمان کا تعلق ہے، تو ہر روز نماز پڑھتا ہوں اور اس سے لحاظ سے میں اپنی قید سے پریشان نہیں ہوں۔ اگرچہ عقیدے کے لحاظ سے آج کل مجھے تھوڑی پیچیدہ صورتحال کا سامنا ہے، لیکن میں اپنے عقیدے سے مطمئن ہوں۔
عبدالرحمان
’عبدالرحمان واحد مغربی مغوی نہیں تھا جس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ ہمارے گروپ میں چند اور لوگ بھی تھے جو مسلمان ہو چکے تھے۔ یہ لوگ پانچ وقت کے نمازی تھے، بلکہ بسا اوقات یہ لوگ دو اضافی نمازیں بھی پڑھتے تھے۔ یہ لوگ پیر اور جمعرات کو روزہ بھی رکھتے تھے جو کہ فرض نہیں بلکہ اضافی ہے، جیسے، پکے مسلمان۔‘عبدالرحمان
یہ جانتے ہوئے کہ قید میں اکثر لوگ اس قسم کی حرکت کرتے ہیں جس میں وہ اپنے اغوا کاروں کو خوش کرنا شروع کر دیتے ہیں اور انھیں اغوا کاروں سے ہمدردی ہو جاتی ہے، میں نے نکولس سے کہا: ’مجھے لگتا ہے کہ ہم سٹاک ہوم سنڈروم کی بات کر رہے ہیں۔‘
نکولس کا جواب بالکل الٹ تھا: ’ہمیں اغوا کرنے والوں کو نفسیات کا تو کچھ زیادہ پتہ نہیں تھا، لیکن ایک بات یقینی ہے کہ وہ ہمیں سٹاک ہوم سنڈروم میں بالکل مبتلا نہیں کرنا چاہتے تھے، بلکہ انھوں نے اس سے بچاؤ کا پورا بندوبست کیا ہوا تھا۔‘
نکولس اپنے اس جواب سے دراصل اس تشدد کی جانب اشارہ کر رہے تھے جس کا نشانہ دولتِ اسلامیہ کے جنگجو اپنے مغویوں کو بناتے ہیں۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے نکولس نے کہا: ’ کچھ پہرے دار ہم میں سے ان لوگوں کی زیادہ عزت کرتے تھے جو مسلمان ہو چکے تھے، لیکن باقی اغواکاروں کی نظر میں مسلمان یا غیر مسلمان کا کوئی لحاظ نہیں تھا۔‘
میں نے نکولس سے پوچھا کہ انھوں نے وہ ویڈیو دیکھی ہے جس میں برطانوی مغوی ایلن ہیننگ کو قتل کرتے دکھایا گیا اورعبدالرحمان کیسگ کو بھی قتل کیے جانے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔
ایک بہت طویل خاموشی کے بعد نکولس کا کہنا تھا کہ انھوں نے وہ تمام ویڈیوز دیکھی ہیں:
پیٹر کیسگ کے والدین کو امید ہے کہ ان کا بیٹا زندہ واپس آجائے گا
’یہ میرے لیے نہایت ہی کربناک تجربہ تھا، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اِن ویڈیوز میں مجھے بھی قتل ہوتے دکھایا جا سکتا تھا۔‘
یاد رہے کہ عبدالرحمان قید سے اپنےگھر والوں تک ایک خط پہنچانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اس خط میں ان کا کہنا تھا: ’جہاں تک میرے ایمان کا تعلق ہے، تو ہر روز نماز پڑھتا ہوں اور اس سے لحاظ سے میں اپنی قید سے پریشان نہیں ہوں۔اگرچہ عقیدے کے لحاظ سے آج کل مجھے تھوڑی پیچیدہ صورتِ حال کا سامنا ہے، لیکن میں اپنے عقیدے سے مطمئن ہوں۔‘
عبدالرحمان کے والدین اپنے بیٹے کے ان الفاظ سے یہی مطلب لیتے ہیں کہ وہ مسلمان ہو چکا ہے۔
والدین کی شدید خواہش ہے کہ ان کے بیٹے کا مذہب اس کی جان بچانے کا سبب بن جائے۔
ان کی یہ خواہش بالکل بے جا نہیں ہے، کیونکہ لوگوں کو اغوا کرنا اور پھر انھیں سزائے موت دے دینا، یہ کام دولتِ اسلامیہ کے جنجگجوؤں کے ہر روز کے جنگی ہتھکنڈے ہیں۔
والدین کو یہ خواہش رکھنی چاہیے کہ ان کے بیٹے کا ’پیٹر کسیج‘ سے ’عبدالرحمان کسیج‘ بن جانا اس کے کام آ جائے۔
لیکن مجھے یقین ہے کہ انھیں اس دردناک حقیقت کا بھی علم ہے کہ دولتِ اسلامیہ صرف غیر مسلموں کو ہی نہیں مارتی، بلکہ اس کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارے جانے والوں کی اکثریت مسلمان ہی تھی۔