پ
تقریبا یہ تمام تفصیلات کہیں اور سے نہیں بلکہ خود آپ کو قادیانیوں کی آفیشل ویب سائیٹ سے مل سکتی ہیں جو جماعت احمدیہ کے نام سے موجود ہے یہاں ایک تو انجینئر محمود مجیب اور دوسری ذکریا درک کی اس شخص پر کتب موجود ہیں جو کہ لکھی تو تذکرہ فضائل کے انداز سے ہیں لیکن جا بجا ایسے انکشافات ہوتے ہیں کہ جن کو پڑھ کر اس شخص کی حقیقت کھل جاتی ہے۔
یہ عارف کے دل میں عبد السلام کے لیے اتنا درد کیوں ہے ہر کچھ دن بعد عبد السلام کی یاد بڑی شد و مد سے ان کے دل میں جاگتی ہے۔ عبد السلام اول و آخرایک قادیانی تھا اور پاکستان میں اس کا اولین فریضہ قادیانی نوازی تھی۔ یہاں رہتے ہوئے اس نے متعدد قادیانیوں کو بیرون ملک بھیجا ، وہ بالخصوص قادیانیوں کو اسکالر شپ دیا کرتا تھا اپنے ہر کام میں پہلے قادیانی خلیفہ سے وہ مشورہ کیا کرتا تھا جب قادیانیوں کے خلاف تحریک چلی تو وہ تمام سرکاری عہدوں سے احتجاجا مستعفی ہو گیا اور پھر 1974 میں اس نے خودساختہ جلاوطنی اختیار کر لی بعض رویات کے مطابق اس نے پاکستان کو ایک لعنتی ملک بھی قرار دیا تھا۔اک اٹامک کمیشن جو ایوب خان کے دور سے کام کر رہا ہے۔ اسکے شروع کرنے والے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام آج غداری و کفر کے فتوں میں لپٹے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے کسی تعلیمی نصاب میںانکا نام نہیں ہے۔ کیا یہی کافی نہیں ہے ثبوت کے طور پر کہ کرتا کوئی ہے لیکن بھرتا کوئی اور ہے!
تقریبا یہ تمام تفصیلات کہیں اور سے نہیں بلکہ خود آپ کو قادیانیوں کی آفیشل ویب سائیٹ سے مل سکتی ہیں جو جماعت احمدیہ کے نام سے موجود ہے یہاں ایک تو انجینئر محمود مجیب اور دوسری ذکریا درک کی اس شخص پر کتب موجود ہیں جو کہ لکھی تو تذکرہ فضائل کے انداز سے ہیں لیکن جا بجا ایسے انکشافات ہوتے ہیں کہ جن کو پڑھ کر اس شخص کی حقیقت کھل جاتی ہے۔