اشرف علی بستوی
محفلین
امریکی ڈرون حملوں میں مارے گءے ان معصوموں کی تعزیت کون کرے گا
اشرف علی بستوی ،نئی دہلی
گذشتہ ہفتے ایک امریکی پروفیسر مائیکل چوسو ڈووسکی نے کو ’’بیورو انویسٹی گیٹو جرنلزم‘‘ کی ایک چشم کشا رپورٹ پر بھرپور تبصرہ کیا ہے۔ چوڈو وسکی کہتے ہیں کہ دنیابھر میں امریکی ڈرون حملوں میں مارے گئے بچوں کے قاتل بارک اوباما ہیں۔امریکی ڈرون کارروائی کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ درداصل ڈرون حملوں کی کارروائی امریکی صدر اوباما جو کہ فوج کے سربراہ اعلی بھی ہیں کے حکم پر کی گئی ہے۔ لہٰذا انہی کو اصل مجرم قرار دیا جانا چاہیے ،نیزمسٹر اوباما جنگی جرائم کے مجرم ہیں ان پر بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ چلاکر سزا دی جانی چاہئے ۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ ڈرون حملوں میں اضافہ اوباما کے دور اقتدار ہی میں ہوا ہے۔ مائیکل کا یہ تبصرہ ایسے وقت منظر عام پر آیا ہے جب امریکہ اپنے ملک میں گن کلچر کو کنٹرول کرنے کیلئے تدابیر اختیار کرنے پر غور وخوض کر رہا ہے۔ اسے اپنے شہریوں خصوصاً کمسن بچوں کی جان کی فکر ستا رہی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس 14؍دسمبر کو امریکہ کے نیو ٹاؤن شہر میں ایک پرائمری اسکول میں ہونے والی فائرنگ میں بیس بچوں سمیت 28 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ ایک طرف جہاں امریکی انتظامیہ کو ملک میں پروان چڑھ رہے گن کلچر کو کنٹرول کرنے کی فکر ستانے لگی ہے اوراس پر قابو پانے کی تدابیر اختیار کرنے کے بارے میں فکرمندی کا اظہار کیاگیا ہے وہیں دوسری جانب اس سانحے پر دنیابھر سے تعزیتوں کا طویل سلسلہ جاری رہا جس کو عالمی میڈیا نے نمایاں طور پر جگہ دی ۔ باشعور حلقوں نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اس سانحے میں مارے جانے والے بچوں کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کیا، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ عراق، افغانستان ، فلسطین اورپاکستان کے اُن بچوں کی ہلاکت پر اس طرح کا افسوس کبھی نہیں ظاہر کیاگیا جنہیں امریکی ڈرون حملوں میں موت کی نیندسلا دیاگیا۔ بعض حلقوں نے تو اوباما انتظامیہ کو خط ارسال کرکے دلی رنج وغم کا اظہار کیا اورگن کلچر پر روک لگانے کیلئے امریکی انتظامیہ کو قیمتی مشوروں سے بھی نوازا۔ بیورو انویسٹی گیٹو جرنلزم کے ذریعے جاری رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ ان حملوں میں مرنے والے بچوں کی عمریں ایک تا چار برس کے درمیان ہیں۔ بعض واقعات ایسے بھی ظاہر ہوئے ہیں جن میں کئی کئی گھروں کے سبھی بچے جاں بحق ہوگئے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں2004 تا2013ء کے درمیان 271بچے امریکی ڈرون حملوں کا شکار ہوئے ۔ یمن کے بارے میں بتایاگیا ہے کہ یہاں37 بچوں کو ڈرون حملوں کا شکار ہونا پڑا ہے۔ اس کے علاوہ صومالیہ میں کئے گئے امریکی ڈرون حملوں میں چار بچوں نے جان گنوائی ہے، یہ صرف ڈرون حملوں میں جاں بحق ہونے والے بچوں کے اعداد وشمار ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی فوجی کارروائیاں جو عراق افغانستان سمیت دنیابھر میں جاری ہیں ان سے ہونے والی بچوں کی ہلاکتوں کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔ اسرائیلی جارحیت جو گزشتہ66 برس سے فلسطین میں جاری ہے اس میں بھی بڑی تعداد میں کمسن بچوں کی ہلاکتوں کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں۔ گزشتہ برس ہوئے اسرائیلی حملے میں ایک سو سے زائد خواتین اور بچوں کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی تھی، فاضل مبصر نے اپنی رپورٹ میں صرف امریکی ڈرون حملوں کو بنیاد بناکر امریکی صدر کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا ہے اس لئے یہاں ان ہی اعداد وشمار کی روشنی میں بات کی گئی ہے۔اب ذرا غور کریں کہ امریکہ کی اس مجرمانہ کارروائی پر کیا اسی طرح کا اظہار افسوس کیا گیا تھا۔ کیا دنیا کے باشعور حلقوں نے اسی انداز میں اس کا نوٹس لیا تھا اور ڈرون حملوں میں مارے گئے بچوں کے اہل خانہ اور ملک کے ساتھ اظہار تعزیت کی تھی۔ اس کا جواب نفی میں ہوگا کیونکہ مغربی میڈیا کو یہ فن بخوبی آتا ہے کہ وہ اپنی جارحانہ کارروائیوں کو دنیا کے سامنے کچھ اس طرح پیش کرتا ہے کہ وہ انسانیت نواز معلوم ہوتی ہیں اور مظلوموں کو ظالم بناکر پیش کرتا ہے اور اس مغالطے کا شکار کم وبیش سبھی حلقے ہوجاتے ہیں.