امریکی ڈرون کی نقل تیار کر لی، ایران

امریکی ڈرون کی نقل تیار کر لی، ایران
0,,17237626_303,00.jpg

ایران نے اتوار کے روز کہا ہے کہ اس نے دسمبر 2011ء میں اتار لیے جانے والے امریکی ڈرون طیارے کی نقل تیار کر لی ہے اور جلد ہی یہ بغیر پائلٹ طیارہ اپنی پہلی پرواز پر روانہ ہو گا۔
ایرانی سرکاری ٹی وی چینل پر نشر کیے جانے والے مناظر میں امریکی ڈرون طیارے کی ہوبہو نقل دکھائی گئی ہے۔ واضح رہے کہ ایک امریکی ڈرون طیارہ ایرانی حدود میں پرواز کر رہا تھا اور ایران نے اس کے نظام میں داخل ہو کر اسے خود کنٹرول کر کے بحفاظت زمین پر اتار لیا تھا۔ اس کے بعد امریکا کی طرف سے متعدد مرتبہ یہ درخواست کی گئی کہ یہ طیارہ اسے لوٹا دیا جائے، تاہم تہران حکومت نے یہ امریکی مطالبات مسترد کیے۔
اتوار کے روز ایرانی سرکاری ٹی وی چینل پر دکھائے جانے والے مناظر میں امریکی ڈرون RQ-170 Sentinel جیسا ایک طیارہ دکھایا گیا۔ ڈھائی برس قبل ایرانی حدود میں داخل ہونے والے اس ڈرون کے حوالے سے امریکی میڈیا کا کہنا تھا کہ اس طیارے کا مقصد ایرانی جوہری تنصیبات کی جاسوسی کرنا تھا۔
ایرانی ٹی وی پر نشر ہونے والی ایک فوٹیج میں ایک افسر کا کہنا تھا، ’ہمارے انجینیئرز نے کامیابی کے ساتھ اس ڈرون کے راز دریافت کیے اور پھر ان کی نقل تیار کر لی۔ یہ جلد ہی اپنی آزمائشی پرواز پر روانہ ہو گا۔‘
ایران نے امریکی ڈرون طیارے کی ہوبہو نقل تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
سرکاری میڈیا پر نشر کیے جانے والے مناظر میں دکھایا گیا کہ ایرانی رہنما آیت اللہ خامنہ ای نے ایرانی انقلابی گارڈز کے فضائی ونگ کی جانب سے منعقد کردہ اس نمائش کا دورہ بھی کیا۔ اس نمائش میں بلاسٹک میزائل اور ڈرون طیارے رکھے گئے تھے۔ اس فوٹیج میں امریکی ڈرون کے طرح کے دو طیارے دکھائی دیے۔ امریکی ڈرون کی نقل کے قریب کھڑے ہو کر ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا، ’ڈرون طیارے نگرانی کے مشنز کے لیے انتہائی اہم ہیں۔‘
واضح رہے کہ اس طیارے کے حوالے سے ایران نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے اس الٹرا ہائی ٹیکنالوجی کے حامل ڈرون کا کنٹرول اپنے قبضے میں کر کے اسے اتار لیا تھا جب کہ امریکا کا کہنا تھا کہ اس سے اس طیارے کا کنٹرول منقطع ہوا تھا، جسے کے بعد یہ طیارہ ایرانی قبضے میں چلا گیا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ ایران کے پاس ایسی ٹیکنالوجی موجود نہیں ہے، جس کی مدد سے وہ اس طیارے کی نقل تیار کر سکے۔
 

محمد امین

لائبریرین
ڈرون بنانا کوئی زیادہ بڑی بات تو نہیں ہے کہ جس کے لیے ان کو امریکی ڈرون کو ریورس انجینیئر کرنا پڑے۔ ایران ویسے ہی طیاروں پر کافی کام کرتا رہا ہے۔ اسلامی ممالک میں پاکستان اور ترکی میں اچھے خاصے ڈرون تیار ہوتے ہیں۔ زیادہ بڑا مسئلہ اس کا کنٹرول سسٹم دیزائن کرنا ہو سکتا ہے، لیکن کنٹرول سسٹم کو ریورس انجینیئر کرنا پریکٹکلی ممکن نظر نہیں آتا کہ وہ ایک فرم وئیر ہوتا ہے جو کہ ظاہر ہے اوپن سورس تو ہونے سے رہا۔۔
 

arifkarim

معطل
ڈرون بنانا کوئی زیادہ بڑی بات تو نہیں ہے کہ جس کے لیے ان کو امریکی ڈرون کو ریورس انجینیئر کرنا پڑے۔ ایران ویسے ہی طیاروں پر کافی کام کرتا رہا ہے۔ اسلامی ممالک میں پاکستان اور ترکی میں اچھے خاصے ڈرون تیار ہوتے ہیں۔ زیادہ بڑا مسئلہ اس کا کنٹرول سسٹم دیزائن کرنا ہو سکتا ہے، لیکن کنٹرول سسٹم کو ریورس انجینیئر کرنا پریکٹکلی ممکن نظر نہیں آتا کہ وہ ایک فرم وئیر ہوتا ہے جو کہ ظاہر ہے اوپن سورس تو ہونے سے رہا۔۔
ایرانی ڈرامے بازی ہے ساری۔ جب تک یہ کسی جنگ میں استعمال نہ ہوں، محض دعوے ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ڈرون بنانا کوئی زیادہ بڑی بات تو نہیں ہے کہ جس کے لیے ان کو امریکی ڈرون کو ریورس انجینیئر کرنا پڑے۔ ایران ویسے ہی طیاروں پر کافی کام کرتا رہا ہے۔ اسلامی ممالک میں پاکستان اور ترکی میں اچھے خاصے ڈرون تیار ہوتے ہیں۔ زیادہ بڑا مسئلہ اس کا کنٹرول سسٹم دیزائن کرنا ہو سکتا ہے، لیکن کنٹرول سسٹم کو ریورس انجینیئر کرنا پریکٹکلی ممکن نظر نہیں آتا کہ وہ ایک فرم وئیر ہوتا ہے جو کہ ظاہر ہے اوپن سورس تو ہونے سے رہا۔۔
ایرانی ڈرامے بازی ہے ساری۔ جب تک یہ کسی جنگ میں استعمال نہ ہوں، محض دعوے ہیں۔
اصل مسئلہ ڈرون بنا یا اسے اڑا لینا نہیں ہے۔ ان میں کنٹرول سسٹم کے علاوہ مواصلاتی سیاروں سے لے کر گراؤنڈ کنٹرول تک، سب کچھ انٹیگریٹڈ ہوتا ہے۔ محض بیرونی باڈی کاپی کر کے یا اسے اڑانے سے ہی سب کچھ نقل نہیں ہو جاتا :)
 
اصل مسئلہ ڈرون بنا یا اسے اڑا لینا نہیں ہے۔ ان میں کنٹرول سسٹم کے علاوہ مواصلاتی سیاروں سے لے کر گراؤنڈ کنٹرول تک، سب کچھ انٹیگریٹڈ ہوتا ہے۔ محض بیرونی باڈی کاپی کر کے یا اسے اڑانے سے ہی سب کچھ نقل نہیں ہو جاتا :)
میرے خیال میں کسی بھی غیر امریکی کو اور خاص طور پر ایرانیوں کو مصنوعی سیاروں کے ذریعے مواصلاتی نظام کو ذریعے ہونے والے کنٹرول کے لئے دشواری ہوگی۔ کیا امریکہ ان کو اپنا جی پی ایس نظام استعمال کرنے دے گا؟ ظاہر ہے نہیں۔ نا ہی یورپ اپنا گلیلیو نظام استعمال کرنے دے گا۔ شاید روس ان کی مدد کرے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میرے خیال میں کسی بھی غیر امریکی کو اور خاص طور پر ایرانیوں کو مصنوعی سیاروں کے ذریعے مواصلاتی نظام کو ذریعے ہونے والے کنٹرول کے لئے دشواری ہوگی۔ کیا امریکہ ان کو اپنا جی پی ایس نظام استعمال کرنے دے گا؟ ظاہر ہے نہیں۔ نا ہی یورپ اپنا گلیلیو نظام استعمال کرنے دے گا۔ شاید روس ان کی مدد کرے۔
گلوناس ابھی فائنل نہیں ہوا شاید۔ اس کے کچھ سیارے ابھی لانچ ہونے ہیں :)
 
گلوناس ابھی فائنل نہیں ہوا شاید۔ اس کے کچھ سیارے ابھی لانچ ہونے ہیں :)
جی مجھے علم ہے۔ گلوناس پراجیکٹ کو فنڈز کے مسائل ہیں لیکن ہو بھی جائے شاید ایران کے کام کبھی نا آئے سوائے گاڑیوں کی نیویگیشن کے :)
کاش مسلمان ملک مل کر کوئی ایسا نظام بنا لیں جس سے انکو دوسروں کی محتاجی نا رہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
جی مجھے علم ہے۔ گلوناس پراجیکٹ کو فنڈز کے مسائل ہیں لیکن ہو بھی جائے شاید ایران کے کام کبھی نا آئے سوائے گاڑیوں کی نیویگیشن کے :)
کاش مسلمان ملک مل کر کوئی ایسا نظام بنا لیں جس سے انکو دوسروں کی محتاجی نا رہے۔
یہ تو بہت بڑی خواہش ہے، اس کے لئے نہ صرف انفراسٹرکچر بلکہ سائنسی تعلیم بھی بہت ایڈوانس چاہیئے جو فی الوقت مسلمان ممالک مہیا کرنا ہی نہیں چاہتے :(
 

قیصرانی

لائبریرین
کیا مسلم دنیا کی یونی ورسٹیاں کا معیار واقعی اتنا برا ہے؟ :eek:
میں کسی بھی یونیورسٹی کے معیار کو اس کے تحقیقی معیار سے جانچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ آپ کے علم میں اگر کوئی ایسی یونیورسٹیاں ہیں جہاں کا تحقیقی معیار بین الاقوامی طور پر مستند ہو، تو بتائیے :)
 

arifkarim

معطل
میں کسی بھی یونیورسٹی کے معیار کو اس کے تحقیقی معیار سے جانچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ آپ کے علم میں اگر کوئی ایسی یونیورسٹیاں ہیں جہاں کا تحقیقی معیار بین الاقوامی طور پر مستند ہو، تو بتائیے :)
پتا نہیں لیکن وکی پیڈیا کے مطابق اس وہابی یونی ورسٹی کا تعلیمی معیار بہت اعلیٰ ہے:
As of 2013, QS World University Rankings rated KAUST's research record as 88.5%, which is almost the same with that of Yale University (88.8%) and the University of Michigan (88.7%).[7]
http://en.wikipedia.org/wiki/King_Abdullah_University_of_Science_and_Technology

لیکن وہاں پر زیادہ تر طلباء کا تعلق کافرین یعنی بھارت اور چین سے ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ سعودی وہابی مذہبی پولیس کا وہاں داخلہ ممنوع ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Commit..._Prevention_of_Vice_(Saudi_Arabia)#Exemptions
 

فرخ

محفلین
ڈرون بنانا کوئی زیادہ بڑی بات تو نہیں ہے کہ جس کے لیے ان کو امریکی ڈرون کو ریورس انجینیئر کرنا پڑے۔ ایران ویسے ہی طیاروں پر کافی کام کرتا رہا ہے۔ اسلامی ممالک میں پاکستان اور ترکی میں اچھے خاصے ڈرون تیار ہوتے ہیں۔ زیادہ بڑا مسئلہ اس کا کنٹرول سسٹم دیزائن کرنا ہو سکتا ہے، لیکن کنٹرول سسٹم کو ریورس انجینیئر کرنا پریکٹکلی ممکن نظر نہیں آتا کہ وہ ایک فرم وئیر ہوتا ہے جو کہ ظاہر ہے اوپن سورس تو ہونے سے رہا۔۔
اگر آپ نے کبھی سوفٹ وئیر کریک کرنے کے ٹیوٹوریل دیکھے ہوں تو مشین لییول پر جا کر کوئی شاذ و نادر ہی کوئی سوفٹ وئیر اس قابل رہتا ہے کہ اسے کریک نہ کیا جاسکے۔۔۔۔ ریورس انجینرنگ اب ایک باقاعدہ فیلڈ بنتی جا رہی ہے اور اس میں کافی کام ہو رہا ہے۔۔۔۔۔
 

فرخ

محفلین
اصل مسئلہ ڈرون بنا یا اسے اڑا لینا نہیں ہے۔ ان میں کنٹرول سسٹم کے علاوہ مواصلاتی سیاروں سے لے کر گراؤنڈ کنٹرول تک، سب کچھ انٹیگریٹڈ ہوتا ہے۔ محض بیرونی باڈی کاپی کر کے یا اسے اڑانے سے ہی سب کچھ نقل نہیں ہو جاتا :)
یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر ڈرون کو مواصلاتی سیاروں کی مدد ہی دی جائے۔۔۔ اگر محض ایرانی حدود میں اسے رہنا ہے تو اسے محض گراؤنڈ کے ذریعے بھی کنڑول کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔ محدود علاقے میں رہنے کے لئے مواصلاتی سیاروں سے ہر وقت مدد لینے کی کوئی تک نہیں بنتی، جبکہ آپ کے پاس اس محدود علاقے کے کوارڈینیٹس موجود ہوں۔۔

اور دوسری طرف ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ایران کو روس کی سپورٹ بھی حاصل ہے اور شائید چین بھی اسکو منع نہیں کریگا اپنے سیاروں کے استعمال سے۔۔۔۔
 
Top