امریکی کانگریس کے مسلمان ارکان

زیک

مسافر
امریکی کانگریس کے پہلے مسلمان رکن کیتھ ایلیسن ہیں جو 2006 میں ہاؤس آف ریپریزنٹیٹوز کے ممبر بنے۔ ان کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے اور یہ ریاست مینسوٹا میں مینیاپولس کے علاقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایلسن افریقی امریکی ہیں اور انہوں نے نوجوانی میں اسلام قبول کیا۔

کل کانگریس میں دوسرے مسلمان کا اضافہ ہو گیا جب آندرے کارسن اپنی نانی کے مرنے کے نتیجے میں خالی ہونے والی ریاست انڈیانا کی سیٹ پر کامیاب ہوئے۔ وہ اپنی نانی جولیا کارسن کی ٹرم کے آخری دس ماہ پورے کریں گے۔ نومبر میں عام انتخابات کے لئے کارسن کو پہلے ڈیموکریٹک پارٹی کی پرائمری مئی میں جیتنی ہو گی جہاں کارسن کے مقابل 7 امیدوار ہیں۔ آندرے کارسن بھی افریقی امریکی ہیں اور ایک مسلم convert۔
 

باسم

محفلین
امریکہ میں پاکستان کی طرح (مسلمان) اقلیت کیلیے نشستیں مختص ہیں یا یہ ارکان عام نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں؟؟؟
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

میں نہیں سمجھتا کہ وہاں اقلیتوں کے لیے الگ سے نشستیں مخصوص ہوں۔


محترم،

آپ کا خيال درست ہے۔ امريکی کانگريس ميں منتخب ہونے کے ليے کوٹہ سسٹم نہيں ہے۔ اسی طرح مذہب کی بھی کوئ قيد نہيں ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 
اسطرح تو اقلیتوں کے ساتھ سخت ناانصافی ہوتی ہوگی۔ وہاں‌اقلیتوں‌کی اواز سننے کے لیے ان کی نمائندگی ضروری ہے۔ امریکہ کو پاکستان سے سبق لینا چاہیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
وہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔ عورت مرد برابر کے حقوق رکھتے ہیں۔ عورتوں کے لیے الگ سے مخصوص نشستیں نہیں ہیں۔
 
اتنی بے حیائی۔
کیا عورتوں اور مردوں کے بیت الخلا بھی ایک ہی ہیں؟ اگر ایسی برابری ہے تو توبہ ہی بھلی۔
اور اسطرح تو عورتوں‌کی کو ئی اواز بھی نہ سنتا ہوگا۔ بے چاری امریکی عورت تو چکی کے پاٹوں میں‌پس رہی ہے۔ عجیب معاشرہ ہے کہ عورتوں کو پیس کر رکھ دیتا ہے۔
ویسے اب تک کتنے صدور و نائب صدور امریکہ میں عورتیں‌رہی ہیں؟
اور عورتوں‌کو ووٹ دینے کا حق کب ملا ہے؟
پھر بے چارہ اوبامہ کالے لوگو ں کے ووٹ کیوں‌ لوٹ رہا ہے۔ سخت نسل پرستی کا عالم لگتا ہے امریکہ میں۔ اللہ بچائے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

کانگريس کے پہلے مسلم رکن کيتھ ايليسن کی حلف برداری کی تقريب کے حوالے سے کچھ باتيں جو آپ کے ليے دلچسپی کا باعث ہوں گی۔

کيتھ ايليسن نے اپنی حلف برداری کی تقريب سے پہلے يہ درخواست کی تھی کہ وہ بائبل کی بجائے قرآن پاک پر حلف اٹھانا چاہتے ہيں۔ صرف يہی نہيں بلکہ انھوں نے حلف اٹھانے کے ليے قرآن پاک کے اس ناياب نسخے کا انتخاب کيا جو امريکہ کے تيسرے صدر تھامس جيفرسن کی ذاتی لائيبريری کا حصہ تھا۔ قرآن پاک کا يہ نسخہ 1764 ميں لندن سے دو جلدوں ميں شائع ہوا تھا۔ اس وقت قرآن پاک کا يہ نادر نسخہ کانگريس کی لائيبريری کا حصہ ہے۔ کانگريس لائيبريری کے ناياب کتابوں کے انچارج مارک ڈی مینيونيشن کے مطابق قرآن پاک کے اس نسخے کی حفاظت کے ليے 1919 ميں چمڑے کی خاص جلد تيار کی گئ۔ تھامس جيفرسن نے قرآن پاک کا يہ نسخہ 1815 ميں حاصل کيا تھا اور يہ انکی ذاتی لائيبريری کا حصہ رہا۔ تھامس جيفرسن کی لائيبريری ميں مجموعی طور پر 6400 کتابيں تھيں۔ 1812 کی جنگ ميں جب برطانوی فوجيوں کے ہاتھوں کانگريس لائيبريری راکھ کا ڈھير بن گئ تو اس کی ازسرنو تعمير کے ليے تھامس جيفرسن نے 24 ہزار ڈالرز کے علاوہ جن ناياب کتابوں کا عطيہ ديا اس ميں قرآن پاک کا يہ نادر نسخہ بھی شامل تھا۔

منی سوٹا سے تعلق رکھنے والے کيتھ ايليسن ڈی ٹروائٹ ميں پيدا ہوئے اور انھوں نے کالج کے زمانے ميں اسلام قبول کيا۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے حلف برداری کی تقريب کے ليے تھامس جيفرسن کے ذاتی قرآن پاک کے نسخے کا انتخاب اس ليے کيا کيونکہ وہ لوگوں کو يہ باور کروانا چاہتے تھے کہ امريکہ کے آئين کی تشکيل کے ليے جن متعدد ذرا‏ئع سے رہنمائ حاصل کی گئ اس ميں قرآن پاک بھی شامل تھا۔

اگرچہ کا نگريس لائيبريری کی عمارت کيپيٹل کی عمارت کے کافی قريب ہے ليکن اس کے باوجود لائيبريری کے اہلکاروں نے قرآن پاک کی حفاظت اور اسے گرد وغبار کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے ليے لکڑی کے ايک چوکور ڈبے کا انتظام کيا اور اسے ہاتھوں کے نشانات سے بچانے کے ليے سبز رنگ کے ايک خاص کپڑے کا انتظام کيا گيا۔ اس کے بعد قرآن پاک کے اس نادر نسخے کو زير زمين سرنگوں کے ذريعے سيکورٹی کے انتظامات کے ساتھ حلف برادری کی تقريب ميں منتقل کيا گيا۔

دلچسپ بات يہ ہے کہ کيتھ ايليسن کی والدہ کليڈا ايليسن عيسائ ہيں اور باقاعدگی سے روزانہ چرچ جاتی ہيں۔ جب ان سے اپنے بيٹے کے قرآن پاک پر حلف لينے کے فيصلے پر رائے دينے کے ليے کہا گيا تو ان کا جواب يہ تھا

"مجھے بہت خوشی ہے کہ ميرے بيٹے نے قرآن پاک پر حلف ليا ہے۔ اس بات سے بہت لوگوں کو يہ جان لينا چاہيے کہ امريکہ ميں مذہب کی مکمل آزادی ہے اور مختلف تہذيبوں کا امتزاج ہی امريکی معاشرے کا حسن ہے"۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 
کانگريس کے پہلے مسلم رکن کيتھ ايليسن کی حلف برداری کی تقريب کے حوالے سے کچھ باتيں جو آپ کے ليے دلچسپی کا باعث ہوں گی۔

کيتھ ايليسن نے اپنی حلف برداری کی تقريب سے پہلے يہ درخواست کی تھی کہ وہ بائبل کی بجائے قرآن پاک پر حلف اٹھانا چاہتے ہيں۔ صرف يہی نہيں بلکہ انھوں نے حلف اٹھانے کے ليے قرآن پاک کے اس ناياب نسخے کا انتخاب کيا جو امريکہ کے تيسرے صدر تھامس جيفرسن کی ذاتی لائيبريری کا حصہ تھا۔ قرآن پاک کا يہ نسخہ 1764 ميں لندن سے دو جلدوں ميں شائع ہوا تھا۔ اس وقت قرآن پاک کا يہ نادر نسخہ کانگريس کی لائيبريری کا حصہ ہے۔ کانگريس لائيبريری کے ناياب کتابوں کے انچارج مارک ڈی مینيونيشن کے مطابق قرآن پاک کے اس نسخے کی حفاظت کے ليے 1919 ميں چمڑے کی خاص جلد تيار کی گئ۔ تھامس جيفرسن نے قرآن پاک کا يہ نسخہ 1815 ميں حاصل کيا تھا اور يہ انکی ذاتی لائيبريری کا حصہ رہا۔ تھامس جيفرسن کی لائيبريری ميں مجموعی طور پر 6400 کتابيں تھيں۔ 1812 کی جنگ ميں جب برطانوی فوجيوں کے ہاتھوں کانگريس لائيبريری راکھ کا ڈھير بن گئ تو اس کی ازسرنو تعمير کے ليے تھامس جيفرسن نے 24 ہزار ڈالرز کے علاوہ جن ناياب کتابوں کا عطيہ ديا اس ميں قرآن پاک کا يہ نادر نسخہ بھی شامل تھا۔

منی سوٹا سے تعلق رکھنے والے کيتھ ايليسن ڈی ٹروائٹ ميں پيدا ہوئے اور انھوں نے کالج کے زمانے ميں اسلام قبول کيا۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے حلف برداری کی تقريب کے ليے تھامس جيفرسن کے ذاتی قرآن پاک کے نسخے کا انتخاب اس ليے کيا کيونکہ وہ لوگوں کو يہ باور کروانا چاہتے تھے کہ امريکہ کے آئين کی تشکيل کے ليے جن متعدد ذرا‏ئع سے رہنمائ حاصل کی گئ اس ميں قرآن پاک بھی شامل تھا۔

اگرچہ کا نگريس لائيبريری کی عمارت کيپيٹل کی عمارت کے کافی قريب ہے ليکن اس کے باوجود لائيبريری کے اہلکاروں نے قرآن پاک کی حفاظت اور اسے گرد وغبار کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے ليے لکڑی کے ايک چوکور ڈبے کا انتظام کيا اور اسے ہاتھوں کے نشانات سے بچانے کے ليے سبز رنگ کے ايک خاص کپڑے کا انتظام کيا گيا۔ اس کے بعد قرآن پاک کے اس نادر نسخے کو زير زمين سرنگوں کے ذريعے سيکورٹی کے انتظامات کے ساتھ حلف برادری کی تقريب ميں منتقل کيا گيا۔

دلچسپ بات يہ ہے کہ کيتھ ايليسن کی والدہ کليڈا ايليسن عيسائ ہيں اور باقاعدگی سے روزانہ چرچ جاتی ہيں۔ جب ان سے اپنے بيٹے کے قرآن پاک پر حلف لينے کے فيصلے پر رائے دينے کے ليے کہا گيا تو ان کا جواب يہ تھا

"مجھے بہت خوشی ہے کہ ميرے بيٹے نے قرآن پاک پر حلف ليا ہے۔ اس بات سے بہت لوگوں کو يہ جان لينا چاہيے کہ امريکہ ميں مذہب کی مکمل آزادی ہے اور مختلف تہذيبوں کا امتزاج ہی امريکی معاشرے کا حسن ہے"۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov

انشاللہ
اچھے امریکی جلد اسلام قبول کرکے قرآن شریف کو درست طور پر اپنی حقیقی زندگی میں‌داخل کرلیں گے۔امین۔
ویسے بش کو بھی قران پڑھاو۔ جسیا کہ یہاں‌ درج ہے۔
[ame="http://www.youtube.com/watch?v=2qEaRSHtH5I"]http://www.youtube.com/watch?v=2qEaRSHtH5I[/ame]
 
امریکی آئین کی تیاری کے دوران تھامس جیفرسن، بنجامن فرینکلن، جان آدم ، رچرڈ لی اور جیمز میڈیسن کی قرآن حکیم سے واقفیت اور اس کے بارے میں انہوں نے کیا لکھا۔ ان لوگوں کے قرآن آج کہاں محفوظ ہیں اسکے لنک اور امریکی آئین کے اصولوں اور قرآن کے اصولوں کے ایک بے لاگ تجزیاتی مطالعے کے لئے دیکھئے۔
http://www.openburhan.net/usconst

اور یہ بھی سوچئے کہ کیا وجہ ہے کہ انہی اصولوں پر قائم رہنے کے باعث ایک 25 لاکھ کسانوں اور گڈریوں کی ریاست، صرف 230 سالوں میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن گئی۔
 
انشاللہ
اچھے امریکی جلد اسلام قبول کرکے قرآن شریف کو درست طور پر اپنی حقیقی زندگی میں‌داخل کرلیں گے۔امین۔
بابر، ہمایوں، اکبر، جہانگیر کے ادوار میں ہندوستان میں مسلمان اور ہندوؤں کا تناسب کیا تھا؟ قانونِ حکومت اسلامی تھا لیکن زیادہ تر رعایا غیر مسلم۔ پھر اس کو اسلامی حکومت کیوں کہتے تھے؟‌ کوئی ریاست رعایا کی افراط سے اسلامی یا غیر اسلامی نہیں ہوتی، ایسا قوانین و اصولوں کی وجہ سے ہوتا ہے؟

امریکی آئین، مذہب اور سیاست کو الگ الگ رکھتا ہے۔ کہ مذہب ایک ذاتی انتخاب ہے ۔ جب کے حکومت، آئین و سیاست ایک اجتماعی انتخاب ہے، اس لئے امریکی آئین ذاتی طور پر مذہب کی پیروکاری پر کوئی پابندی نہیں لگاتا، ہر شخص آزاد ہے کہ وہ جس مذہب پر چاہے عمل پیرا ہو۔ لیکن امریکی آئین اجتماعی سیاست کے لئے کسی مذہب کا انتخاب نہٰیں کرتا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرآن بھی اسلامی ریاست میں کسی بھی مذہب کی پیروکاری پر پابندی نہیں لگاتا۔ ریفرنس کے لئے نیچے دیکھئے:


امریکی آئین کے بیشتر اصول ، قرآن کے اصولوں سے بہت قریب ہیں۔ ہر امریکی ، امریکی آئین کا وفادار ہے اور یہ وفاداری بناء‌ کسی دباؤ یا شرط کے ہر امریکی نے قائم کی ہے۔ آج امریکہ میں عورت و مرد کا معاشرہ میں قانونی مقام مساوی ہے، ہر رنگ و نسل کے انسان کا قانونی مقام مساوی ہے۔ ہر مذہب کے پیروکار کا قانونی مقام مساوی ہے ، جو مسلمان یہاں رہتے ہیں مساوی حقوق رکھتے ہیں اور چین کی زندگی گذارتے ہیں۔ محفل کے وہ اراکین جو امریکہ میں رہتے ہے ان امور کی گواہی دیں گے کہ یہ درست ہے۔ یہ مساوی مقام قرآن سے ثابت ہیں۔ جبکہ بہت سے نام نہاد مسلم ممالک میں مساوات پر مبنی یہ اصول ناپید ہیں۔

ں تمام‌مذاہب کی آزادی کے لئے درج ذیل آیات کے لنک دیکھئے:
[ayah]18:29[/ayah]
[ayah]109:4[/ayah]
[ayah]109:5[/ayah]
[ayah]109:6[/ayah]
[ayah]2:256[/ayah]
مسجد، مندر، چرچ اور سنگاگ کے تقدس و حفاظت کی مد میں:
[ayah]22:40[/ayah]
ایک دوسرے کے مذہب کی عزت کے لیے دیکھئے
[ayah]49:11[/ayah]
رنگ و نسل کی مساوات
[ayah]30:22[/ayah]

والسلام
 
الحمدللہ
اب تو صرف کلمہ پڑھنے کی دیر ہے۔
ان لوگوں‌سے کہیں کہ جلد کلمہ پڑھ کو اسلام قبول کرلیں تاکہ بندگیِ رب اور مقصد حیات کی تکمیل ہوسکے۔
اور شہادت کے بھی دو جز ہیں یعنی اللہ کی وحدانیت کا اقرار اور رسول اللہ کی رسالت کا اقرار۔ اس کو قبول کیے بغیر فلاح نصیب نہیں‌ہوسکتی۔
اپ تو وہیں‌موجود ہیں‌۔ اگر یہ کام ہوجائے تو اپ کو اور ان کی سب کی دونوں‌جہانوں‌کی حیات سدھر جائے گی انشاللہ۔
 
الحمدللہ
اب تو صرف کلمہ پڑھنے کی دیر ہے۔
ان لوگوں‌سے کہیں کہ جلد کلمہ پڑھ کو اسلام قبول کرلیں تاکہ بندگیِ رب اور مقصد حیات کی تکمیل ہوسکے۔
اور شہادت کے بھی دو جز ہیں یعنی اللہ کی وحدانیت کا اقرار اور رسول اللہ کی رسالت کا اقرار۔ اس کو قبول کیے بغیر فلاح نصیب نہیں‌ہوسکتی۔
اپ تو وہیں‌موجود ہیں‌۔ اگر یہ کام ہوجائے تو اپ کو اور ان کی سب کی دونوں‌جہانوں‌کی حیات سدھر جائے گی انشاللہ۔

افسوس کہ آپ کے روایتی خیالات قرآن سے بہت دور ہیں۔ صاحبو، جہاں اللہ تعالی مسلم یعنی ماننے والے کو پورے کا پورا اسلام میں داخل ہونے کا حکم دیتا ہے وہاں ناماننے والوں کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ بھی لازماً اس پیغام کو مانیں۔

صاحب، ایک فلاحی ریاست میں غیر مسلم کے لئے، کلمہ پڑھنا یا نہ پڑھنا، اپنی پسند کا مذہب چننا ایک ذاتی انتخاب ہے۔ آپ نہ کسی سے ڈیمانڈ کرسکتے ہیں اور نہ ہی مجبور کرسکتے ہیں، اسی لئے زکواۃ اور جزیہ الک الک ٹیکس ہیں ، خود اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ :
[AYAH]2:256[/AYAH] نہیں کوئی زبردستی دین کے معاملہ میں بیشک صاف طور پر الگ ہو چکی ہے ہدایت گمراہی سے، سو جس نے انکار کیا طاغوت کا اور ایمان لایا اللہ پر تو یقیناً اس نے تھام لیا ایک ایسا مضبوط سہارا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔ اور اللہ سب کچھ سُننے والا، ہر بات جاننے والا ہے۔
مزید دیکھئے اور غور فرمائیے، کتنےواضح الفاظ ہیں:
[AYAH]18:29[/AYAH] اور کہہ دیجیے کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے سو جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے۔ یقیناً ہم نے مہیّا کر رکھی ہے ظالموں کے لیے ایک ایسی آگ گھیر رکھا ہے ان کو جس کی لپٹوں نے۔ اور اگر پانی مانگیں گے تو پلایا جائے گا اُن کو ایسا پانی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا جو جُھلس دے گا منہ کو۔ بہت ہی بُرا ہے مشروب اور بہت بُری ہے وہ آرام گاہ۔
ہمارا کام ہےقران کا پیغام سب سے شئیر کرنا۔ تاکہ لوگ نیک کام کریں جو کہ ضابطہ قرآن کے مطابق ہیں اور بس، قرآن کے احکام پر ایمان لانا ہی سب سے بڑا ایمان ہے، جس میں‌ رسالت محمدی پر ایمان بھی شامل ہے - جو یہ ایمان نہیں لاتا تو یہ معاملہ اللہ اور بندہ کے درمیان ہے۔ جس کے لئے اللہ تعالی فرماتے ہیں :

[AYAH]2:62[/AYAH] بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے اور (جو) نصاریٰ اور صابی (تھے ان میں سے) جو (بھی) اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس نے اچھے عمل کئے، تو ان کے لئے ان کے رب کے ہاں ان کا اجر ہے، ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے

الحمد للہ، یہاں لوگوں کو ایمان کی طرف لانے کا کام بھی جاری ہے۔ اور اس میں کامیابی بھی حاصل کی ہے۔ جس آرٹیکل کا حوالہ پچھلے پیغام میں دیا وہ بھی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
 
Top