امریکی یونیورسٹیوں میں آزادی رائی کی شامت

جیسبادی

محفلین
امریکی یونیورسٹیوں میں آزادانہ سوچ رکھنے والے اساتذہ کی شامت آئی ہوئی ہے۔ مگر اس ماحول میں بھی ہارورڈ یونیورسٹی کے دو پروفیسروں نے صہیونی لابی کے امریکہ میں اثر و رسوخ پر مقالہ لکھ مارا ہے۔ پروفیسر تگڑے ہیں اس لیے ابھی تک بچے ہوئے ہیں۔ ان کو اب "نسل پسند" KKK کہا جا رہا ہے اور بڑا طوفان بدتمیزی اخبارات اور انٹرنیٹ پر برپا کر دیا گیا ہے۔ پھر بھی امریکہ میں ہونے کی وجہ سے بچے ہوئے ہیں، یورپ میں ہوتے تو جیل کی ہؤا کھانی پڑتی۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
چند سال قبل یورپی یونین کے زیر اہتمام جاری کردہ ایک رائے عامہ کا حیرت انگیز نتیجہ برآمد ہوا جب ساٹھ فیصد کے قریب رائے دہندگان نے دنیا میں دہشت گردی کا سب سے بڑا سبب اسرائیل کو قرار دیا۔ بعد میں یورپی یونین کو اسرائیل کی تنقید کی وجہ سے اس سوالنامے سے دستبردار ہونا پڑا۔ یہ صحیح ہے کہ یورپ میں اسرائیل کے خلاف بات کرنا آسان نہیں ہے لیکن اس کے باوجود یورپ امریکہ کے مقابلے میں بہت کم پرو اسرائیل ہے۔ دوسرے اسرائیل کی پالیسی بھی یہ رہی ہے کہ اسرائیل کے خلاف کی گئی کسی معمولی سی بات پر بھی شور مچا کر طوفان کھڑا کر دیا جاتا ہے اور اسرائیل کی مخالفت کو اینٹی سیمیٹزم کی بدترین صورت قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہ شور و غوغا کبھی کبھار کافی مضحکہ خیز صورت بھی اختیار کر جاتا ہے جب بات بے بات ہولوکاسٹ اور ناتزیوں کے حوالے بیچ میں گھسیٹے جاتے ہیں۔
 
میرا بھی ذاتی خیال یہی ہے کہ یورپ میں اسرائیل پر زیادہ تنقید ہوتی ہے یا ہو سکتی ہے گو کہ چند ممالک میں اسرائیل کی حمایت زیادہ ہے مگر امریکہ کی طرح اسرائیل کے حق میں کسی قرارداد کو ویٹو نہیں کیا جاتا۔
 

زیک

مسافر
اگرچہ امریکی پالیسی اسرائیل کے حق میں ہے مگر کم از کم یونیورسٹی یا intellectuals میں یہاں اسرائیل اور دوسرے مسائل پر کھل کر بحث ہوتی ہے۔
 

جیسبادی

محفلین
امریکہ میں first ammendment کی وجہ سے تگڑے لوگوں کی بچت ہو جاتی ہے۔ (اس کا یہ مطلب نہیں کہ عام لوگ محفوظ رہیں گے۔)
WARNING: Don't try it at home.

برطانیہ، جرمنی، وغیرہ میں تو سرے سے کوئی آئین ہی نہیں۔ بنیادی حقوق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پولیس والے prosecutor کی مرضی ہے پکڑ کے جس کو چاہے اندر کر دے۔ امریکہ کے برعکس عدالتی فیصلوں میں precedent کی کوئی اہمیت نہیں۔ وسطی یورپ تو بالکل ہی قانونی تحفظ سے آزاد ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
جیسبادی نے کہا:
برطانیہ، جرمنی، وغیرہ میں تو سرے سے کوئی آئین ہی نہیں۔ بنیادی حقوق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پولیس والے prosecutor کی مرضی ہے پکڑ کے جس کو چاہے اندر کر دے۔ امریکہ کے برعکس عدالتی فیصلوں میں precedence کی کوئی اہمیت نہیں۔ وسطی یورپ تو بالکل ہی قانونی تحفظ سے آزاد ہے۔

پتا نہیں آپ کس جرمنی کی بات کر رہے ہیں۔ :?
 

جیسبادی

محفلین
امریکہ سے باہر رہنے والوں کو شاید آئین اور "آئین" کا فرق واضح نہیں۔ امریکی آئین میں Bill of Rights کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ قوانین کی کتاب کو آئین نہیں کہتے۔

یہ الگ بات ہے کہ امریکی عدالتیں اپنے آئین کی حفاظت نہیں کر سکی۔ patriot قسم کے قوانین سے بہت پہلے بھی عدالتوں نے IRS قسم کی حکومتی مشینری کو شہریوں کی جائیداد ضبط کرنے کے اختیارات دے دیے تھے۔ اس کے باوجود ابھی وہ حالت نہیں ہوئی جو یورپ میں ہے۔ David Irving کو جب کتابیں لکھنے کے الزام میں آسٹریا میں ہتھکڑی ڈالی گئی، تو اس برطانوی شہری نے کسی یورپی کو مدد کے لیے فون نہیں کیا۔ فون کیا تو امریکہ میں اپنے دوستوں کو۔ یورپ میں تو کوئی کھلے عام اس کا دوست ہونے کا اقرا بھی نہیں کر سکتا۔
 

رضوان

محفلین
کافی حیرت انگیز باتیں ہیں یہ۔۔۔۔
حالیہ(گزشتہ) کارٹونس والے معاملے کا بھی اگر غیر جزباتی تجزیہ کیا جائے تو امریکہ جو اکیلا مسلمانوں کی لعن طعن جھیل رہا تھا اور یورپ میں عراق افغانستان یا مشرقِ وسطیٰ کے تناظر میں جو امریکہ مخالف جزبات زور پکڑ رہے تھے، وہ مسلمانوں کے اندھادھند احتجاج کے بعد ٹھنڈے ہوگئے۔ اب یورپ بھی یہ سوچ رہا ہے کہ جنونیوں سے جنونیوں کو ہی نمٹنا چاہیے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
ایک تو سارے انسانی حقوق اور آزادی اظہار کی تان ڈیوڈ ارونگ پر ہی آ کر ٹوٹ رہی ہے۔ کیا یہی یورپ میں آزادی اظہار کا لٹمس ٹیسٹ رہ گیا ہے؟ جرمنی میں پوری کوشش کے باوجود neo nazis زور پکڑ رہے ہیں اور ایک صوبے میں نیو ناتزی پارٹی این پی ڈی برسراقتدار آ بھی چکی ہے اور وہ اپنے انتہا پسندانہ نظریات کے اظہار میں کوئی لگی لپٹی بھی نہیں رکھتے۔

ڈیوڈ ارونگ نے اگر یورپ میں کسی سے رابطہ کرنے کی بجائے امریکہ والوں سے رابطہ کیا تھا تو اس میں امریکیوں کی تاریخ سے واقفیت کا بھی ہاتھ ہو سکتا ہے۔ ابھی بھی کئی امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ ہٹلر جرمنی کی کسی جیل میں قید ہے۔ کینیڈا کے بارے میں میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔

امریکہ کے آئین کی پہلی ترمیم کو تو جس کا دل کرتا ہے اسے توڑ مروڑ کر اس کی کوئی نہ کوئی convoluted وضاحت سامنے لے آتا ہے۔
 

جیسبادی

محفلین
زکریا نے کہا:
جیسبادی نے کہا:
امریکہ میں first ammendment کی وجہ سے تگڑے لوگوں کی بچت ہو جاتی ہے۔ (اس کا یہ مطلب نہیں کہ عام لوگ محفوظ رہیں گے۔)

کافی سارے عام لوگوں کے لئے بھی قانون صحیح کام کرتا ہے۔

یہ اہم نکتہ ہے۔ اکثریت کے لیے تو قانون کسی بھی ملک میں صحیح ہی کام کرے گا۔ اصل امتحان تو اسی وقت آتا ہے جب شامت ذدہ آدمی کے لیے بھی صحیح کام کرے۔
اگر آپ کے پاس بہت زیادہ دولت ہے تو OJ Simpson کی طرح سائنس dna کے دلائل، جو عام آدمی کو پھانسی دلا سکتے ہیں، بھی ناکام ہو جاتے ہیں۔ پھر آپ ہر آئینی شق اپنے مقصد میں استعمال کر سکتے ہو۔ غریب آدمی کے لیے تو court appointed وکیل ہو گا، وہ زیادہ سے زیادہ اسے plea bargain لے دے گا۔
 

جیسبادی

محفلین
نبیل نے کہا:
ایک تو سارے انسانی حقوق اور آزادی اظہار کی تان ڈیوڈ ارونگ پر ہی آ کر ٹوٹ رہی ہے۔ کیا یہی یورپ میں آزادی اظہار کا لٹمس ٹیسٹ رہ گیا ہے؟ جرمنی میں پوری کوشش کے باوجود neo nazis زور پکڑ رہے ہیں اور ایک صوبے میں نیو ناتزی پارٹی این پی ڈی برسراقتدار آ بھی چکی ہے اور وہ اپنے انتہا پسندانہ نظریات کے اظہار میں کوئی لگی لپٹی بھی نہیں رکھتے۔
۔
نبیل، آپ کا استدلال کچھ اس طرح کا ہے جو ایک آسٹریلوی عدالت نے اپنے فیصلہ میں ایک "دہشت" کے مقدمہ میں خواہ مخواہ سزا دینے کیلئے گھڑا ہے، کہ "وہ ایک مثال قائم کرنا چاہتے تھے"۔ Guaranteed constitutional rights کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس طرح کے عدالتی فیصلے نہ ہوں۔ ورنہ جیسا کہ میں نے اوپر لکھا کہ یہ prosecutor کی مرضی پر ہو جاتا ہے کہ جس کو چاہے سزا دلوا دے۔
 

جیسبادی

محفلین
رضوان نے کہا:
کافی حیرت انگیز باتیں ہیں یہ۔۔۔۔
حالیہ(گزشتہ) کارٹونس والے معاملے کا بھی اگر غیر جزباتی تجزیہ کیا جائے تو امریکہ جو اکیلا مسلمانوں کی لعن طعن جھیل رہا تھا اور یورپ میں عراق افغانستان یا مشرقِ وسطیٰ کے تناظر میں جو امریکہ مخالف جزبات زور پکڑ رہے تھے، وہ مسلمانوں کے اندھادھند احتجاج کے بعد ٹھنڈے ہوگئے۔ اب یورپ بھی یہ سوچ رہا ہے کہ جنونیوں سے جنونیوں کو ہی نمٹنا چاہیے۔
رضوان، ایک تو مسلمان جنونی ہو گئے۔ دوسرے کا کچھ واضح نہیں کہ آپ نے یورپیوں کو جنونی گردانا ہے یا امریکیوں کو؟
 

رضوان

محفلین
یورپ میں یہی تاثر مضبوط ہورہا ہے کہ امریکہ ہی کو شدت پسندوں سے نمٹنے دیا جائے۔
یعنی امریکہ کے خلاف ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ ٹوٹ گیاہے۔ امریکہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اندرونی اور یورپی سطح پر بڑھتے ہوئے دباؤ کو آسانی سے منعطف کردیا ہے۔ مجموعی طور پر مسلمان حکومتیں ابھی تک لابنگ اور رائے عامہ کو متحرک کرنے کی اہمیت سے متفق نہیں ہیں کیونکہ حکمرانوں سے لیکر اماموں تک آمریت کا بول بالا ہے۔ اس حقیقت کو واحد سپر پاور اپنے حق میں استعمال کرنا خوب اچھی طرح جانتی ہے۔ ہم نعرے خوبصورت لگاتے ہیں اور ان نعروں کو ہمارے حکمراں کیش کراتے ہیں۔
 

جیسبادی

محفلین
ایک تگڑا پروفیسر تو deanship ہارورڈ چھوڑ کر ایک سال کی چھٹی جانے کے چکر میں ہے۔ Robert Fisk
دوسرے پروفیسر کا تعلق شکاگو سے ہے۔ غالباً اس وجہ سے زیادہ تگڑا ہے۔ ابھی کوئی اطلاع نہیں۔
 
Top