امکانات
محفلین
سٹیٹ سبجیکٹ ‘ کالم ‘ زبیر احمد ظہیر
کیاکشمیر خریدا جا سکتا ہے؟ بھارت پورے کشمیر پر قابض ہے، پھر8 سو کنال زمین کی الاٹمنٹ منسوخ کرانی کیوں ضروی ہوگئی تھی کہ اس وجہ سے جموں اور سری نگر 3 ماہ سے فسادات اور احتجاج کی علامت بن کر رہ گے؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں مقبوضہ کشمیر کے زمینی حقائق کا جائزہ لینا ہوگا۔ جموںمیںمختلف قومیںآباد ہیں 1846میں انگریزوں اور سکھوںمیںلڑائی ہوئی ہندوڈوگرانے سکھوں سے غداری کی جس کے نتیجے میں سکھوں کوشکست ہوئی انگریز نے انعام کے طور پر معمولی قیمت میں کشمیر کی ریاست ہندوڈوگرا کے حوالے کردی اور یوں سادھؤںکی آمد ورفت میں اضافہ ہوا ، ہندو سادھواس خوصورت جنگل میں دنیا سے کنارہ کش ہو کر پوجا پاٹ کرتے اور یہیں مربھی جاتے تھے، اس طرح جموں میںسادھؤں سنیاسیوں کی یہ آماجگاہ مندروں کا شہر بن گئی اور یوں ان مندروں نے جموں کی ہزاروں ایکٹر اراضی نگل لی ۔ مقبوضہ کشمیر میں بڑے مندروں کی کل تعداد 12ہے، جن میں سے8جموں میں ہیں۔
جموں اور وادی کو آگ میںجھونکنے کا سبب بننے والی امرنا تھ یاترا ہی کو دیکھ لیں، سیاحتی مرکز پہلگام کے قریب14 ہزار فٹ بلندی پر واقع اس انتہائی دشوار گزار غار تک چند سال قبل تک سینکڑوں لوگ ہی بمشکل پہنچ پاتے تھے اوراس وقت یہ مذہبی میلہ15دن کا تھا 14ہزار فٹ کی پہاڑی پریہ کوہ پیمائی کٹرسادھو کرتے تھے یہ زور آزمائی عام آدمی کے بس میں نہ تھی اس لیے عام زائرین بہت کم جاتے تھے مگر گزشتہ 3،4برس سے اس کے یاتری لاکھوںہیں اس کادورانیہ 15دن سے 2ماہ کر دیا گیا ہے دوماہ کے دورانیے اور لاکھوں یاتریوں کی آمد کی آڑ میں شرائن بورڈ نے اس کے لیے 8 سوکنال رقبہ حاصل کر لیا ۔برسوں گزر گے کشمیر کے مندورں کوکسی بورڈ کی ضرورت نہ پڑی ہندوانتہا پسندگورنر نے شرائن بورڈ نام کی نئی بدعت ایجاد کرائی جس میں ہندو انتہاپسندوں کو اہم عہدے دلائے گئے ۔ انہیں اقتدار سے مریضانہ حد لگاؤ تھانئے گورنر ووہرا کے آنے کے باوجودجنرل سنہا سرکاری رہائش گاہ پر قابض رہے۔ امر ناتھ یاترا کی قیادت کے ایک ذمہ دار سادھو دہندر گری نے گھر کے بھید ی ہوکر لنکا ڈھادی انہوں نے سرعام احتجاجی مظاہرے میں گورنر سنہا کے کردار پر کڑی تنقید کی اور برملا کہا 15دنوں کی یاترا کو 2ماہ کرنا درست نہیں۔انہوں نے شرائن بورڈ جیسے ادارے کے تعمیرات میں ملوث ہونے کو غیر ضروری قراردیا ۔دراصل امر تاتھ یاتراجموں کے انتہاپسندوں کے روزگار کا سوال ہے لہذا انکااس تجارت کوسارے موسم گرما تک لے جانے کا منصوبہ ہے۔۔ہندوانتہا پسندبنیئے کی اس کاروباری ذہنیت نے کشمیر کا امن غارت کردیا ۔ محکمہ جنگلات کی8 سو کنال یہ زمین یاتریوں کی رہائش ،ہوٹل ،قہوہ خانوںاور ریسٹ ہاوس کے لیے استعمال ہونی تھی۔ہندو احتجاجی تحریک میں شامل22 تنظیموں کے لیڈروں کو اس تعمیر کے ٹھیکے ملنے تھے اس موسمی تجارت کی جب یہ امید پوری ہوتی دکھائی نہ دی تو انہوں جموں کا واحد راستہ بند کر دیا اور کشمیر کی معاشی ناکہ بندی کر ڈالی ،مندورں کی آڑ میں زمین ہتھیانے کے اس انتہا پسند منصوبے میںاصل رکاوٹ کیا بنی اور وہ کشمیری خاموشی جن کی عادت ثانیہ بن چکی ہے انہوں نے یک زبان اس خاموشی کوکیسے توڑڈالا ،آخر کیا وجہ تھی صرف 8سوکنال زمین پر کشمیر آگ اور خون میں نہا گیا۔
اصل میں کشمیر میں زمین کا معاملہ صدیوں سے حساس چلاآرہا ہے یہ خوبصورت تفریحی مقام تھا خوبصورتی بذات خود بہت اچھی ہوتی ہے لیکن اس پر جب کسی کی نظر پڑتی ہے ہمیشہ بری نظر پڑتی ہے ہر ایک اسے حاصل کر نے کی کوشش کرتا ہے خوبصورت شئی پر پڑنے والی یہ بری او رلالچ میں ڈوبی نگاہ اسے کسی ایک کا رہنے نہیں دیتی۔کشمیر کی خوبصورت زمین پر بھی ہمیشہ جب کسی کی نگاہ پڑی بری ہی پڑی۔ اس بد نظر ی اور لالچ سے اسے بچانے کے لیے ہندو ڈوگراشاہی نے دور اندیشی سے کا م لیا اور ‘‘ سٹیٹ سبجیکٹ‘‘ نامی قانون بنا لیا جو کشمیر کی زمین کی خریدوفروخت میں اہم رکاوٹ ہے یہ قانون ڈوگرا راج میں نافذ ہوا تھا جس کے تحت کوئی غیر ریاستی باشندہ کشمیر کی زمین نہ خرید سکتا ہے اور نہ ہی الاٹ کرواسکتا ہے یہ قانون چونکہ سماجی رواج سے لیا گیا تھا اس لیے اس پر آج تک عمل درآمد ہوتا آرہا ہے مقبوضہ کشمیر ہو یا آزاد کشمیر ‘‘ سٹیٹ سبجیکٹ‘‘ ایک اہم قانون ہے جس کے لازمی تقاضوں پر سختی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے آزاد کشمیر میں اس قانون کے تحت ڈومیسائل حاصل کرنا خاصا دشوار ہوتا ہے ڈومیسائل کے لئے پہلے پشتینی سرٹیفکیٹ حاصل کرنا پڑتا ہے اس کے لیے محکمہ مال سے ریکارڈ حاصل کیا جاتا ہے اس میں پہلے زمین( کھیوٹ) کی نقل لی جاتی ہے اور دوسرا شجرہ نسب کی نقل لی جاتی ہے‘‘ سٹیٹ سبجیکٹ‘‘ کے ان تقاضوں نے کشمیریوں کا شجرہ نسب محفوظ کر دیا ہے آپ کشمیر کے کسی حصے میں جائیں آپ پٹواری کو صرف نام اور کھیوٹ نمبر بتائیں وہ اس نام کا پورا شجرہ آپ کو بتادے گا اور وہ کھیوٹ نمبر باپ داد ا سے لیکر اور جس جس کے نام رہی ہو وہ آپ کو بتادے گا ۔پٹواری سے کھیوٹ نمبر اور شجرہ نسب کی ان دو نقول کو لے کر محکمہ مال میں درخواست دی جاتی ہے زمین جس کے نام ہو عام طور پر یہ دادا کے نام ہوتی ہے اس کا والد کے نام انتقال کروالیا جاتا ہے اور والد اور دادا کا بیان حلفی اسسٹنٹ کمشنر لیتا ہے درخواست گزار ا کی شخصی شناخت کے لئے اسسٹنٹ کمشنر کے سامنے دو گواہوں کو ذاتی تعارف کی گواہی دنیا پڑتی ہے ان گواہوں کو درخواست گزار کے شجرہ نسب کو رٹا لگانا پڑتا ہے اسٹیٹ سبجیکٹ کا یہ قانون اتنا اہم ہے کہ ریاستی باشندے کی اس ہی شناخت کی بنیاد پر آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی آمدورفت ممکن ہوئی ان کاغذات پر مقبوضہ کشمیر کے محکمہ مال یا آزاد کشمیر کے محکمہ مال کو ذرا سابھی شبہ ہوجائے تو درخواست گزار آجا نہیں سکتا ۔اب تک دونوںجانب کے 54 ہزار کشمیریوں کی آمدورفت ہوئی ہے ‘‘ سٹیٹ سبجیکٹ‘‘ کے تحت بننے والا ڈومیسائل کشمیری شہریت کا ضامن ہوتا ہے اسٹیٹ سبجیکٹ 54 ہزار کشمیریوں کی آمدورفت کا ضامن ہے اسٹیٹ سبجیکٹ کا اگر یہ قانون نہ ہوتا تو بھارت کے سرمایہ دارانتہا پسند ہندو کشمیر خرید کر کھاجاتے لہذا جس کی کشمیری شہریت نہ ہو وہ زمین نہیں خرید سکتا۔ مظفرآباد کی درجنوں رہائشی عمارتوں کے اصل مالکان غیر ریاستی باشندے ہیں مگر زمین اور مکان کا قانونی انتقال ریاستی باشندوں کے نام ہے
26 مئی کو گورنر کی ایک سازش کے تحت زمین تو شرائن بورڈ کو منتقل ہوگئی مگر ‘‘ سٹیٹ سبجیکٹ‘‘ پر کشمیریوں نے سمجھوتہ نہ کیا اور پھر یکم جولائی کو یہ واپس کرنا پڑی مگر دیر ہوگئی۔ وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد کی حکومت بھی چلی گئی اور گورنر سنہاکی جگہ گورنردوہرا بھی آگئے۔ہندو کی 8 سوکنال اراضی ہتھیانے کی لالچ بھارت کو اتنی مہنگی پڑی کہ تحریک آزادی ایک بار پھرزندہ ہوگئی ہے بھارت مخالف نعروں نے ماضی کی یاد تازہ کردی ۔مقبوضہ کشمیر کی زنگ آلود بندوق ایک بار پھر بارود بن گئی ہے عوامی بیداری کا جو جذبہ جہادی تنظیمیں پیدا نہ کرسکیں اس جذبے کو8سو کنال زمین جوان کرگئی ،حریت کانفریس کے اختلافات طے ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے ‘‘ سٹیٹ سبجیکٹ‘‘ انہیں قریب کر گیا ۔معاشی ناکہ بندی نے کشمیریوں کی پاکستان سے محبت میں اضافہ کردیا ،فروٹ کے تاجروں سمیت لاکھوں کا قافلہ مظفرآباد کی طرف چل پڑا، مظفر آباد کی طرف بڑھنا بھارت سے غداری تھی اوریہ بھی ڈنکے کی چوٹ پر تھی علانیہ یہ جرات ساری عمر نہ ہوپاتی مگر معاشی ناکہ بندی نے وہ کردکھلایا جس کا بھارتی حکمرانوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا ،شیخ عبدالعزیز کی پاکستان سے محبت پہلے ہی کم نہ تھی انہوںایک لاکھ قافلے کا رخ پاکستان کی طرف موڑ کر جان دی اورشہید ہونے کے بعد اڑھائی لاکھ کو پاکستان کی جانب روانہ کر دیا شیخ عبدالعزیز نے مظفر آباد کی جانب بڑھتے ہوئے جان دی اور پاکستان کو اپنا احسان مند بنالیا ہے اڑھائی لاکھ قافلے کو روک کربھارت نے اپنی جمہوریت کی قلعی کھول دی اور یوںاس کی جمہوریت ساری دنیا میںننگی ہوگئی۔ اڑھائی لاکھ کا پاکستان کی جانب بڑھنا یہ بھی جمہوریت تھا لیکن اس جمہوریت کا بھارت نے جس طرح مذاق اڑایا ہے اس نے بھارت کے کالی ماتا والے کالے چہرے پر کالک مل دی ہے تاریخ جب کسی چہرے پر کالک مل دیتی ہے نسلیں اسے صدیوں میں دھو نہیں سکتیں10 اگست کو شیخ عبدالعزیز نے بھارت کے ماتھے پر جو کالک مل دی ہے وہ بھی دھل نہیں سکتی ۔ محض8سو کنال زمیں پر جموں کے ہندؤں نے جو اودھم مچا یا اس کی حقیقت سے سار ابھارت واقف ہے ۔مذہبی تعلیمات اوررسومات ٹھوس اور اٹل ہوا کرتی ہیں ان کا دورانیہ کسی گورنر سنہا کی خواہش اور اقتدار کے ساتھ ساتھ گھٹتا بڑھتا نہیں ۔مذہب کی جب آڑ لی جاتی یہ ہمیشہ مشکل وقت میں لی جاتی ہے بات امن ناتھ یاترا کی نہیںآتک واد یاترا (حریت پسند) کی ہے ۔اصل معاملہ کچھ اور ہے وہ یہ ہے کہ صدر مشرف رخصت ہونے کو ہیں ان کے دور اقتدار میں بھارت کی ساڑھے سات لاکھ فوج نے خوب آرام کیا حریت پسندوں کے جن قدموں کو بھارت کی ساڑے سات لاکھ فوج کے30 لاکھ ہاتھ پاوں نہ روک سکے صدر مشرف نے انہیں لائن آف کنٹرول عبور کرنے سے روک دیا جس کی وجہ سے بھارت نے 17سال بعد سکھ کا سانس لیا لھذاآج بھارت کے مشرف نہیں جارہے 17سال بعدملنے والا وہ سُکھ سکون جارہاہے یہ ہی وجہ ہے کہ صدر مشرف کے مواخذے کا سب سے زیادہ دکھ اگر کسی ملک کو ہے وہ انڈیا کے علاوہ کو ئی دوسرا نہیں ، بھارت کی سلامتی کے مشیر ایل کے نارائن نے واضح لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ مشرف کے جانے سے انتہاپسندوں کو کھلی چھوٹ ملے گی ۔بھارت کو یوں دکھائی دے رہا ہے کہ صدرمشرف کے جاتے ہی انکی کشمیر پالیسی بھی رخصت ہوجائے گی اس لیے بھارت نے پیش بندی کے طور پر قبل از وقت درانداری کا واویلا شروع کر دیا ہے ۔ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کوالگ کرنے والی لائن آف کنٹرول 7 سو43کلومیٹر ہے سات سو کلو میٹر اس حد بندی لکیرسے اس پار بھارت کی ساڑے سات لاکھ فوج تعینات ہے اس ساری فوج کاجواز در اندادی ہے اس فوجی تعداد کا مطلب یہ ہوا کہ بھارت نے عملا سو کلو میٹر پر ایک لاکھ فوجی تعینات کر رکھا ہے ایک سوکلو میٹر پر ایک لاکھ فوجی اگر ہاتھ ملا کر پہرہ دیں تو در اندازی دور کی بات ہے مچھر پر نہیں سکتا۔پاکستان کی جانب سے پالیسی کا بدلا جانا بہت دور کی بات ہے ۔بھارت نے اس سے پہلے ہی فساد بپاکر وادیا مگر یہ بھاری پڑ گیا ،اس تنازعے سے بھارت کے مفادات کو سخت دہچکا لگا ہے اس تحریک کے دوران عام لوگوں نے کشمیری سیاست دانوں کی بھی مٹی خوب پلید کردی ہے اس مشکل میںکشمیری تاجروںاورعوام کا اگر کسی نے ساتھ دیا توحریت کانفرنس تھی اس تحریک میں علیحدگی پسند حریت کانفرنس نے قیادت کی اوربھارت نواز سیاست تماشہ دیکھتے رہے اس کا اثر ا س سال کے آخر میں ہونے والے الیکشن پر پڑے گا اور نیشنل کانفرس ،پی ڈی پی سے کانگریس جیسی بھارت نوازجماعتوں میں سے کوئی بھی تن تنہا حکومت نہیں بنا سکے گی۔جب تک اسٹیٹ سبجیکٹ ہے پاکستان کی کشمیر پالیسی بدلے یا نہ بدلے ہندو لاکھ کوشش کر لیں کشمیر کی زمین پر قبضہ نہیں کر سکتے یہ قانون کسی علی گیلانی کا بنایا ہوا نہیں بلکہ بھارت کے اس محسن ہندوڈوگرا کے باپ دادا ڈوگراشاہی کا بنایا ہوا ہے جس نے1947 ء کشمیر بھارت کو پلیٹ میں رکھ کر دے دیا تھا اس قانون کی رو سے کسی عام شہری کی زمین غیر ریاستی باشندہ خریدنہیں سکتا وہ 8سو کنال تو سر کار کی تھی یہ کیسے ہتھیائی جاسکتی تھی
[
کیاکشمیر خریدا جا سکتا ہے؟ بھارت پورے کشمیر پر قابض ہے، پھر8 سو کنال زمین کی الاٹمنٹ منسوخ کرانی کیوں ضروی ہوگئی تھی کہ اس وجہ سے جموں اور سری نگر 3 ماہ سے فسادات اور احتجاج کی علامت بن کر رہ گے؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں مقبوضہ کشمیر کے زمینی حقائق کا جائزہ لینا ہوگا۔ جموںمیںمختلف قومیںآباد ہیں 1846میں انگریزوں اور سکھوںمیںلڑائی ہوئی ہندوڈوگرانے سکھوں سے غداری کی جس کے نتیجے میں سکھوں کوشکست ہوئی انگریز نے انعام کے طور پر معمولی قیمت میں کشمیر کی ریاست ہندوڈوگرا کے حوالے کردی اور یوں سادھؤںکی آمد ورفت میں اضافہ ہوا ، ہندو سادھواس خوصورت جنگل میں دنیا سے کنارہ کش ہو کر پوجا پاٹ کرتے اور یہیں مربھی جاتے تھے، اس طرح جموں میںسادھؤں سنیاسیوں کی یہ آماجگاہ مندروں کا شہر بن گئی اور یوں ان مندروں نے جموں کی ہزاروں ایکٹر اراضی نگل لی ۔ مقبوضہ کشمیر میں بڑے مندروں کی کل تعداد 12ہے، جن میں سے8جموں میں ہیں۔
جموں اور وادی کو آگ میںجھونکنے کا سبب بننے والی امرنا تھ یاترا ہی کو دیکھ لیں، سیاحتی مرکز پہلگام کے قریب14 ہزار فٹ بلندی پر واقع اس انتہائی دشوار گزار غار تک چند سال قبل تک سینکڑوں لوگ ہی بمشکل پہنچ پاتے تھے اوراس وقت یہ مذہبی میلہ15دن کا تھا 14ہزار فٹ کی پہاڑی پریہ کوہ پیمائی کٹرسادھو کرتے تھے یہ زور آزمائی عام آدمی کے بس میں نہ تھی اس لیے عام زائرین بہت کم جاتے تھے مگر گزشتہ 3،4برس سے اس کے یاتری لاکھوںہیں اس کادورانیہ 15دن سے 2ماہ کر دیا گیا ہے دوماہ کے دورانیے اور لاکھوں یاتریوں کی آمد کی آڑ میں شرائن بورڈ نے اس کے لیے 8 سوکنال رقبہ حاصل کر لیا ۔برسوں گزر گے کشمیر کے مندورں کوکسی بورڈ کی ضرورت نہ پڑی ہندوانتہا پسندگورنر نے شرائن بورڈ نام کی نئی بدعت ایجاد کرائی جس میں ہندو انتہاپسندوں کو اہم عہدے دلائے گئے ۔ انہیں اقتدار سے مریضانہ حد لگاؤ تھانئے گورنر ووہرا کے آنے کے باوجودجنرل سنہا سرکاری رہائش گاہ پر قابض رہے۔ امر ناتھ یاترا کی قیادت کے ایک ذمہ دار سادھو دہندر گری نے گھر کے بھید ی ہوکر لنکا ڈھادی انہوں نے سرعام احتجاجی مظاہرے میں گورنر سنہا کے کردار پر کڑی تنقید کی اور برملا کہا 15دنوں کی یاترا کو 2ماہ کرنا درست نہیں۔انہوں نے شرائن بورڈ جیسے ادارے کے تعمیرات میں ملوث ہونے کو غیر ضروری قراردیا ۔دراصل امر تاتھ یاتراجموں کے انتہاپسندوں کے روزگار کا سوال ہے لہذا انکااس تجارت کوسارے موسم گرما تک لے جانے کا منصوبہ ہے۔۔ہندوانتہا پسندبنیئے کی اس کاروباری ذہنیت نے کشمیر کا امن غارت کردیا ۔ محکمہ جنگلات کی8 سو کنال یہ زمین یاتریوں کی رہائش ،ہوٹل ،قہوہ خانوںاور ریسٹ ہاوس کے لیے استعمال ہونی تھی۔ہندو احتجاجی تحریک میں شامل22 تنظیموں کے لیڈروں کو اس تعمیر کے ٹھیکے ملنے تھے اس موسمی تجارت کی جب یہ امید پوری ہوتی دکھائی نہ دی تو انہوں جموں کا واحد راستہ بند کر دیا اور کشمیر کی معاشی ناکہ بندی کر ڈالی ،مندورں کی آڑ میں زمین ہتھیانے کے اس انتہا پسند منصوبے میںاصل رکاوٹ کیا بنی اور وہ کشمیری خاموشی جن کی عادت ثانیہ بن چکی ہے انہوں نے یک زبان اس خاموشی کوکیسے توڑڈالا ،آخر کیا وجہ تھی صرف 8سوکنال زمین پر کشمیر آگ اور خون میں نہا گیا۔
اصل میں کشمیر میں زمین کا معاملہ صدیوں سے حساس چلاآرہا ہے یہ خوبصورت تفریحی مقام تھا خوبصورتی بذات خود بہت اچھی ہوتی ہے لیکن اس پر جب کسی کی نظر پڑتی ہے ہمیشہ بری نظر پڑتی ہے ہر ایک اسے حاصل کر نے کی کوشش کرتا ہے خوبصورت شئی پر پڑنے والی یہ بری او رلالچ میں ڈوبی نگاہ اسے کسی ایک کا رہنے نہیں دیتی۔کشمیر کی خوبصورت زمین پر بھی ہمیشہ جب کسی کی نگاہ پڑی بری ہی پڑی۔ اس بد نظر ی اور لالچ سے اسے بچانے کے لیے ہندو ڈوگراشاہی نے دور اندیشی سے کا م لیا اور ‘‘ سٹیٹ سبجیکٹ‘‘ نامی قانون بنا لیا جو کشمیر کی زمین کی خریدوفروخت میں اہم رکاوٹ ہے یہ قانون ڈوگرا راج میں نافذ ہوا تھا جس کے تحت کوئی غیر ریاستی باشندہ کشمیر کی زمین نہ خرید سکتا ہے اور نہ ہی الاٹ کرواسکتا ہے یہ قانون چونکہ سماجی رواج سے لیا گیا تھا اس لیے اس پر آج تک عمل درآمد ہوتا آرہا ہے مقبوضہ کشمیر ہو یا آزاد کشمیر ‘‘ سٹیٹ سبجیکٹ‘‘ ایک اہم قانون ہے جس کے لازمی تقاضوں پر سختی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے آزاد کشمیر میں اس قانون کے تحت ڈومیسائل حاصل کرنا خاصا دشوار ہوتا ہے ڈومیسائل کے لئے پہلے پشتینی سرٹیفکیٹ حاصل کرنا پڑتا ہے اس کے لیے محکمہ مال سے ریکارڈ حاصل کیا جاتا ہے اس میں پہلے زمین( کھیوٹ) کی نقل لی جاتی ہے اور دوسرا شجرہ نسب کی نقل لی جاتی ہے‘‘ سٹیٹ سبجیکٹ‘‘ کے ان تقاضوں نے کشمیریوں کا شجرہ نسب محفوظ کر دیا ہے آپ کشمیر کے کسی حصے میں جائیں آپ پٹواری کو صرف نام اور کھیوٹ نمبر بتائیں وہ اس نام کا پورا شجرہ آپ کو بتادے گا اور وہ کھیوٹ نمبر باپ داد ا سے لیکر اور جس جس کے نام رہی ہو وہ آپ کو بتادے گا ۔پٹواری سے کھیوٹ نمبر اور شجرہ نسب کی ان دو نقول کو لے کر محکمہ مال میں درخواست دی جاتی ہے زمین جس کے نام ہو عام طور پر یہ دادا کے نام ہوتی ہے اس کا والد کے نام انتقال کروالیا جاتا ہے اور والد اور دادا کا بیان حلفی اسسٹنٹ کمشنر لیتا ہے درخواست گزار ا کی شخصی شناخت کے لئے اسسٹنٹ کمشنر کے سامنے دو گواہوں کو ذاتی تعارف کی گواہی دنیا پڑتی ہے ان گواہوں کو درخواست گزار کے شجرہ نسب کو رٹا لگانا پڑتا ہے اسٹیٹ سبجیکٹ کا یہ قانون اتنا اہم ہے کہ ریاستی باشندے کی اس ہی شناخت کی بنیاد پر آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی آمدورفت ممکن ہوئی ان کاغذات پر مقبوضہ کشمیر کے محکمہ مال یا آزاد کشمیر کے محکمہ مال کو ذرا سابھی شبہ ہوجائے تو درخواست گزار آجا نہیں سکتا ۔اب تک دونوںجانب کے 54 ہزار کشمیریوں کی آمدورفت ہوئی ہے ‘‘ سٹیٹ سبجیکٹ‘‘ کے تحت بننے والا ڈومیسائل کشمیری شہریت کا ضامن ہوتا ہے اسٹیٹ سبجیکٹ 54 ہزار کشمیریوں کی آمدورفت کا ضامن ہے اسٹیٹ سبجیکٹ کا اگر یہ قانون نہ ہوتا تو بھارت کے سرمایہ دارانتہا پسند ہندو کشمیر خرید کر کھاجاتے لہذا جس کی کشمیری شہریت نہ ہو وہ زمین نہیں خرید سکتا۔ مظفرآباد کی درجنوں رہائشی عمارتوں کے اصل مالکان غیر ریاستی باشندے ہیں مگر زمین اور مکان کا قانونی انتقال ریاستی باشندوں کے نام ہے
26 مئی کو گورنر کی ایک سازش کے تحت زمین تو شرائن بورڈ کو منتقل ہوگئی مگر ‘‘ سٹیٹ سبجیکٹ‘‘ پر کشمیریوں نے سمجھوتہ نہ کیا اور پھر یکم جولائی کو یہ واپس کرنا پڑی مگر دیر ہوگئی۔ وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد کی حکومت بھی چلی گئی اور گورنر سنہاکی جگہ گورنردوہرا بھی آگئے۔ہندو کی 8 سوکنال اراضی ہتھیانے کی لالچ بھارت کو اتنی مہنگی پڑی کہ تحریک آزادی ایک بار پھرزندہ ہوگئی ہے بھارت مخالف نعروں نے ماضی کی یاد تازہ کردی ۔مقبوضہ کشمیر کی زنگ آلود بندوق ایک بار پھر بارود بن گئی ہے عوامی بیداری کا جو جذبہ جہادی تنظیمیں پیدا نہ کرسکیں اس جذبے کو8سو کنال زمین جوان کرگئی ،حریت کانفریس کے اختلافات طے ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے ‘‘ سٹیٹ سبجیکٹ‘‘ انہیں قریب کر گیا ۔معاشی ناکہ بندی نے کشمیریوں کی پاکستان سے محبت میں اضافہ کردیا ،فروٹ کے تاجروں سمیت لاکھوں کا قافلہ مظفرآباد کی طرف چل پڑا، مظفر آباد کی طرف بڑھنا بھارت سے غداری تھی اوریہ بھی ڈنکے کی چوٹ پر تھی علانیہ یہ جرات ساری عمر نہ ہوپاتی مگر معاشی ناکہ بندی نے وہ کردکھلایا جس کا بھارتی حکمرانوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا ،شیخ عبدالعزیز کی پاکستان سے محبت پہلے ہی کم نہ تھی انہوںایک لاکھ قافلے کا رخ پاکستان کی طرف موڑ کر جان دی اورشہید ہونے کے بعد اڑھائی لاکھ کو پاکستان کی جانب روانہ کر دیا شیخ عبدالعزیز نے مظفر آباد کی جانب بڑھتے ہوئے جان دی اور پاکستان کو اپنا احسان مند بنالیا ہے اڑھائی لاکھ قافلے کو روک کربھارت نے اپنی جمہوریت کی قلعی کھول دی اور یوںاس کی جمہوریت ساری دنیا میںننگی ہوگئی۔ اڑھائی لاکھ کا پاکستان کی جانب بڑھنا یہ بھی جمہوریت تھا لیکن اس جمہوریت کا بھارت نے جس طرح مذاق اڑایا ہے اس نے بھارت کے کالی ماتا والے کالے چہرے پر کالک مل دی ہے تاریخ جب کسی چہرے پر کالک مل دیتی ہے نسلیں اسے صدیوں میں دھو نہیں سکتیں10 اگست کو شیخ عبدالعزیز نے بھارت کے ماتھے پر جو کالک مل دی ہے وہ بھی دھل نہیں سکتی ۔ محض8سو کنال زمیں پر جموں کے ہندؤں نے جو اودھم مچا یا اس کی حقیقت سے سار ابھارت واقف ہے ۔مذہبی تعلیمات اوررسومات ٹھوس اور اٹل ہوا کرتی ہیں ان کا دورانیہ کسی گورنر سنہا کی خواہش اور اقتدار کے ساتھ ساتھ گھٹتا بڑھتا نہیں ۔مذہب کی جب آڑ لی جاتی یہ ہمیشہ مشکل وقت میں لی جاتی ہے بات امن ناتھ یاترا کی نہیںآتک واد یاترا (حریت پسند) کی ہے ۔اصل معاملہ کچھ اور ہے وہ یہ ہے کہ صدر مشرف رخصت ہونے کو ہیں ان کے دور اقتدار میں بھارت کی ساڑھے سات لاکھ فوج نے خوب آرام کیا حریت پسندوں کے جن قدموں کو بھارت کی ساڑے سات لاکھ فوج کے30 لاکھ ہاتھ پاوں نہ روک سکے صدر مشرف نے انہیں لائن آف کنٹرول عبور کرنے سے روک دیا جس کی وجہ سے بھارت نے 17سال بعد سکھ کا سانس لیا لھذاآج بھارت کے مشرف نہیں جارہے 17سال بعدملنے والا وہ سُکھ سکون جارہاہے یہ ہی وجہ ہے کہ صدر مشرف کے مواخذے کا سب سے زیادہ دکھ اگر کسی ملک کو ہے وہ انڈیا کے علاوہ کو ئی دوسرا نہیں ، بھارت کی سلامتی کے مشیر ایل کے نارائن نے واضح لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ مشرف کے جانے سے انتہاپسندوں کو کھلی چھوٹ ملے گی ۔بھارت کو یوں دکھائی دے رہا ہے کہ صدرمشرف کے جاتے ہی انکی کشمیر پالیسی بھی رخصت ہوجائے گی اس لیے بھارت نے پیش بندی کے طور پر قبل از وقت درانداری کا واویلا شروع کر دیا ہے ۔ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کوالگ کرنے والی لائن آف کنٹرول 7 سو43کلومیٹر ہے سات سو کلو میٹر اس حد بندی لکیرسے اس پار بھارت کی ساڑے سات لاکھ فوج تعینات ہے اس ساری فوج کاجواز در اندادی ہے اس فوجی تعداد کا مطلب یہ ہوا کہ بھارت نے عملا سو کلو میٹر پر ایک لاکھ فوجی تعینات کر رکھا ہے ایک سوکلو میٹر پر ایک لاکھ فوجی اگر ہاتھ ملا کر پہرہ دیں تو در اندازی دور کی بات ہے مچھر پر نہیں سکتا۔پاکستان کی جانب سے پالیسی کا بدلا جانا بہت دور کی بات ہے ۔بھارت نے اس سے پہلے ہی فساد بپاکر وادیا مگر یہ بھاری پڑ گیا ،اس تنازعے سے بھارت کے مفادات کو سخت دہچکا لگا ہے اس تحریک کے دوران عام لوگوں نے کشمیری سیاست دانوں کی بھی مٹی خوب پلید کردی ہے اس مشکل میںکشمیری تاجروںاورعوام کا اگر کسی نے ساتھ دیا توحریت کانفرنس تھی اس تحریک میں علیحدگی پسند حریت کانفرنس نے قیادت کی اوربھارت نواز سیاست تماشہ دیکھتے رہے اس کا اثر ا س سال کے آخر میں ہونے والے الیکشن پر پڑے گا اور نیشنل کانفرس ،پی ڈی پی سے کانگریس جیسی بھارت نوازجماعتوں میں سے کوئی بھی تن تنہا حکومت نہیں بنا سکے گی۔جب تک اسٹیٹ سبجیکٹ ہے پاکستان کی کشمیر پالیسی بدلے یا نہ بدلے ہندو لاکھ کوشش کر لیں کشمیر کی زمین پر قبضہ نہیں کر سکتے یہ قانون کسی علی گیلانی کا بنایا ہوا نہیں بلکہ بھارت کے اس محسن ہندوڈوگرا کے باپ دادا ڈوگراشاہی کا بنایا ہوا ہے جس نے1947 ء کشمیر بھارت کو پلیٹ میں رکھ کر دے دیا تھا اس قانون کی رو سے کسی عام شہری کی زمین غیر ریاستی باشندہ خریدنہیں سکتا وہ 8سو کنال تو سر کار کی تھی یہ کیسے ہتھیائی جاسکتی تھی
[