امریکی ایجنڈا، دیسی اینکر
(عبد اللہ طارق سہیل، نئی بات 25 ستمبر 2012)
پشاور میں چرچ پر دہشت گردوں کا حملہ المیوں کی اسی لڑی کا دانہ ہے جو بابائے دہشت گردی مشرف نے پاکستان کے لئے پروئی تھی۔ اس ایک شخص کی وجہ سے پاکستان میں ہزاروں بم دھماکے ہو چکے ہیں۔ اور ان میں کتنے ہی ایسے تھے کہ جن میں سو، سو سے بھی زیادہ افراد مارے گئے۔ پشاور کے سانحے کی سنگینی اس لئے کچھ زیادہ ہوگئیکہ پہلی بار مسیحی اقلیت کو نشانہ بنایا گیا۔ اس سے پہلے پنجاب اور سندھ میں جائیدادوں پر قبضے کے لئے شر پسند عناصر مسیحی آبادیوں پر حملے کرتے رہے ہیں لیکن وہ دہشت گردی سے زیادہ دوسری قسم کے مجرمانہ واقعات تھے۔
پاکستانی قوم کا ردّعمل جو ہونا چاہئے تھا، وہی ہوا۔ یعنی یہ پتہ چل گیا کہ پاکستانی قوم اس قتل عام پر دکھی ہے اور اپنے مسیحی ہم وطن بھائیوں کے ساتھ ہے۔ مسلمانوں نے مظلوم مسیحی برادری کے لئے خون بھی دیا اور دوسری مدد بھی کی۔ پاکستانی معاشرہ بھارت کا سیکولر معاشرہ نہیں ہے جہاں اقلیتوں کا قتل عام کرکے کہا جاتا ہے کہ ایسا تو ہوتا ہی رہتا ہے۔
لیکن شاید میڈیا کے کچھ دانشور پاکستانی قوم کا حصہ نہیں ہیں یا انہیں پاکستانی معاشرے کا مذاق اڑانا اچھا لگتا ہے یا پھر وہ اسی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں جو چرچ پر حملہ کرنے والوں کا ہے۔ ایک چینل نے تبصرہ کیا کہ ثابت ہوگیا،پاکستان میں اقلیتوں کو برابر کا شہری نہیں سمجھا جا رہا۔ گویا یہ حملہ پاکستانی قوم نے ایک اقلّیت پر کیا ہے۔ دہشت گردی کے سینکڑوں واقعات میں ہزاروں بریلوی، شیعہ، دیو بندی مارے گئے تو کیا پھر یہ ثابت ہوگیا کہ وہ بھی برابر کے شہری نہیں تھے؟ اس چینل کو سیدھا جواب تو یہ بنتا ہے کہ پاکستان میں مسلمانوں اور عیسائیوں، سب کے ساتھ ایک ہی سلوک ہو رہاہے، برابری نہ ہونے کا شکوہ غلط ہے لیکن اس دردناک سانحے پر بات کرتے ہوئے یہ کچھ غیر سنجیدہ ہے۔ہاں، مذکورہ چینل اپنے زہریلے تبصرے میں ضرور سنجیدہ رہا ہوگا اگرچہ اس کے اناڑی پن سے وار خالی گیا۔ دہشت گردوں کے کسی بھی حملے کا ذمّہ دار پاکستان ہے نہ پاکستانی قوم۔موت کا یہ رقص ڈالروں کے اس سودے کا نتیجہ ہے جو سابق فوجی حکومت نے ریاستِ پاکستان کے خلاف امریکہ سے کیا اور یہی نہیں، سابق فوجی حکومت نے پاکستان کی سرزمین ہر قسم کے دشمن کے لئے کھول دی چنانچہ آج کسی کو سمجھ میں نہیں آرہا کہ دہشت گردوں کے کتنے گروہ پاکستان پر موت کی بارش کر رہے ہیں۔
______________________________
ملک کو دہشت گرد مشرف کی پالیسیوں سے نکالنے کے لئے نواز شریف کے خلوص میں کوئی شک نہیں لیکن ان کی حیثیت اس مخلص لیکن اکیلے چوکیدار جیسی ہے جو ایک پرانی بندوق لے کر اپنے مالک کو ڈاکوؤں کے ٹولے سے بچانے کی کوشش کر رہا ہو۔ مالک سے مراد پاکستان ہے، جسے امن دینے کا ایجنڈا لے کر انہوں نے انتخابات جیتے ۔انہیں اندازہ نہیں تھا کہ مشرف کا ورثہ کتنا طاقتور ہے۔(یہ اندازہ عمران خاں کو بھی نہیں تھا) وہ وزیراعظم بنتے ہی چین گئے تو چینی سیاح قتل کر دیئے گئے، امریکہ روانہ ہوئے تو سو سے کچھ کم مسیحی مار دیئے گئے۔
اس سانحے کی ذمہ داری جنود الحفصہ نامی کسی تنظیم نے قبول کی ہے جبکہ طالبان نے اس واقعے سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔ یہ جنود الحفصہ کون ہے؟ نام سے لگتا ہے شاید جامعہ حفصہ سے کوئی تعلق ہوگا لیکن جامعہ حفصہ (اور لال مسجد) کے سانحے سے عیسائیوں کاکیا لینا دینا ہے؟ جامعہ حفصہ کو چنڈالمشرف کی چوکڑی نے تاراج کیا تھا۔ لال مسجد کے فاتحین میں جو ہزاروں بچیوں کو زندہ جلا کر اگلے روز دارالحکومت کی سڑکوں پر وکٹری کے نشان لہراتے دیکھے گئے ، ایک بھی عیسائی نہیں تھا۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا یہ بیان بہت اہم ہے کہ ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم کا پاکستان میں وجود ہی نہیں ہے اور یہ کہ دھماکہ کرنے والوں کی کوئی کال ٹریس نہیں ہوئی۔ ایسا کون سا گروپ اتنا پربندھی ہو سکتا ہے کہ جس کی ہی کال ٹریس نہ ہو سکے۔ پاکستان میں امریکہ کے ہزاروں دہشت گردچنڈال مشرف کی چوکڑی نے درآمد کئے تھے پھر مزید ہزاروں زرداری رحمن ملک اور حسین حقانی کی تگڑم نے منگوائے۔ بے شمار بھارتی اہلکار بھی سرگرم ہیں اور ان سب کے پاس ایسی ٹیکنالوجی ہے کہ ان کی کال ٹریس ہو سکتی ہے نہ وہ خود۔ نواز حکومت میں جرأت اور طاقت ہے تو اسلام آباد کے بنی گالہ کی جنت شداد والی سب جیل عرف فارم ہاؤس میں موجود بابائے دہشت گردی سے تھرڈ ڈگری تفتیش کرے کہ یہ ہزاروں امریکی دہشت گرد جو اس نے اور اس کے این آر او یعنی زرداری حقانی نیٹ ورک نے درآمد کئے، کہاں کہاں کام پر لگے ہوئے ہیں، ان کے نام پتے کیا ہیں۔ ہمارے ہاں کے عاشقانِ امریکہ وزیرستان والے حقانی نیٹ ورک کے خلاف آپریشن کا مطالبہ کرتے نہیں تھکتے جس نے پاکستان کے مفادات پر ایک گولی نہیں چلائی۔ یہ عاشقان ذرا بھی پاکستان کے حامی ہوتے تو اسلام آباد کے حقانی نیٹ ورک پر ہاتھ ڈالنے کا مطالبہ کرتے جس میں، اڑتی اڑتی سی غیرمعتبر خبروں کے مطابق، صرف زرداری، رحمن ملک اور حسین حقانی ہی نہیں تھے، ایک قد آور بالشتیا بھی تھا جو بعد میں ڈالروں کی تقسیم پر جھگڑا کرکے الگ ہو کر ’’حب الوطنی ‘‘ کی دہائی دینے لگا۔مزید سنا ہے کہ آج کل یہ قد آور بالشتیا متحدہ عرب امارات میں ڈالر وصول و حلال کر رہا ہے۔
ہوسکتا ہے یہ حملہ پاکستانی طالبان ہی نے کیا ہو لیکن یہ سوال توپھر بھی اٹھے گا کہ طالبان کا نشانہ تو ہمیشہ ’’اکثریت‘‘ ہی رہی، آخر ایسے موقع پر جب مذاکرات کی بات چل رہی ہے، راتوں رات انہیں ہدف بدلنے کی کیا ضرورت پیش آگئی کہ اکثریت کے بجائے اقلیت پر بم چلا دیئے؟
زیادہ درست بات وہی ہے جو چوہدری نثار نے کی اور پھرعمران خان اور مولانا فضل الرحمن کی جو یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ امریکی ایجنڈا ہے کہ مذاکرات نہ ہو سکیں اور اگر ہو جائیں تو ناکام رہیں اور امریکی ایجنڈا آپریشن ہے۔ امریکی ایجنڈا ٹی وی کے ان دیسی اینکر پرسنز کے منہ اور انگریزی اخبارات کے ان کالم نویسوں کے قلم سے ٹپکا پڑتا ہے جن کی ’’امریکیت‘‘ اتنی ’’سائیٹفک ‘‘ہے کہ جب غصّے میں آتے ہیں تو پورا چہرہ سرخ نہیں ہوتا، بلکہ سرخی بائیں سے دائیں سرخ پٹیوں کی شکل میں پھیلتی جاتی ہے۔ یعنی چہرے جیتے جاگتے امریکی پرچم بن جاتے ہیں۔ اگر قومی مفاد کا فیصلہ انہی ’’اِن ڈالر وی بی لیو‘‘ میڈیا پرسنز نے کرنا ہے تو کوئی ہرج نہیں، ایک اور آپریشن کر ڈالئے، چڑھ جا بیٹا سولی، ڈالر بھلی کرے گا۔ایک فارمولا تو سیدھاسوال ہے کہ امن سے کس کا فائدہ اور امن نہ ہونے سے کس کا نقصان ہے۔ مذاکرات ہوگئے تو امن کا امکان ہے اور امن ہوگیا تو امریکہ اور بھارت دونوں کا نقصان ہے۔ ان دونوں کا فائدہ ہے کہ امن نہ ہو، پاکستان اسی طرح برباد ہو تا رہے، پاک فوج اندر ہی الجھی رہے اور اتنی سی بات یہ بات سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ وہ لوگ جو مذاکرات کو سرنڈر کہہ رہے ہیں، آپریشن کے لئے اتنے بے چین کیوں ہیں۔ اتنی بے چینی تو شاید امریکہ اور بھارت کو بھی نہیں ہوتی۔ شاید اس لئے کہ امریکہ اور بھارت تو مایوس ہو کر کوئی اور راہ لیں گے، یہ بے چارے تو ’’بے روزگار‘‘ ہی ہو جائیں گے۔کہ ان کی اصل تنخواہ وہ کب ہے جو ان کے اداروں سے انہیں ملتی ہے۔
(بات سے بات:مذاکرات کے حوالے سے جے یو آئی کے ایک رہنما کو ٹی وی پر حدیث رسولؐ کا حوالہ دیتے ہوئے سنا جس کا مفہوم ہے کہ صلح اچھی چیز ہے۔ کیا وہ یہ بات مولانا فضل الرحمن کو بتا سکتے ہیں ؟شاید عمران خاں سے صلح میں مدد مل سکے۔ مولانا کا ’’منصب‘‘ بڑا ہے، اس لئے صلح کے لئے پہل انہی کو جچتی ہے۔ دونوں کا ایجنڈا ایک ہے یعنی اسلام امن اور پاکستان لیکن یہ ایجنڈا ایک دوسرے پر یہودی ایجنٹ اور منافق ہونے کے الزماات میں ڈوبتا جا رہا ہے۔)