کاشفی

محفلین
امن کا نوبل انعام آج ملالہ کو ہی ملے، علم کی شمع کیلیے پوری قوم دعاگو
Pakistan-nation-pray-Malala-NobelPeacePrize-girl_10-11-2013_121981_l.jpg

کراچی…امن کا نوبیل انعام آج ملالہ کو ہی ملے ۔علم کی شمع کیلیے پوری قوم دعاگو ہے ، ملالہ نے نوبیل انعام کے اعلان سے صرف ایک دن پہلے یورپی یونین کا انسانی حقوق کا سخاروف ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ ملالہ یوسف زئی دنیا بھر میں اس ملک کی پہچان بن چکی ہے، کون ملالہ یوسف زئی، وہی جس نے جہالت کے اندھیرے کو علم کی روشنی سے شکست دی، ایک سال پہلے گولی کی زبان سے خاموش کرنے کی کوشش بھی اسے اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹاسکی، روشن آنکھوں والی ملالہ جس کی ہمت کے آگے مصیبتوں کے پہاڑ بھی رائی بن گئے، جو مستقبل کی رہنما بن کر اس ملک کی نوجوان نسل کو ستاروں سے آگے لے جانے کے لیے پرعزم ہے،انسانیت پر یقین رکھنے والی ملالہ نے آج یورپی یونین کا انسانی حقوق کا سخاروف ایوارڈ اپنے نام کرلیا،اس کی ہمت اور جرات کا یہ پہلا اعتراف نہیں، ایک سال پہلے سر پر گولی لگی تو حکومت پاکستان نے ستارہ شجاعت ملالہ کی جھولی میں ڈال دیا، ستمبر 2013 میں بچوں کا بین الاقوامی امن کا انعام ملا، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ضمیر کا سفیر بنادیا، اردن کی ملکہ رانیا نے گلوبل سٹیزن ایوارڈ ملالہ کے نام کیا، ہارورڈ یونیورسٹی نے بھی انسانیت کے نام ایک اور اعزاز ہومینیٹیرین ایوارڈ پاکستان کی بیٹی کو دے دیااور اب امن کا نوبیل انعام ملالہ کی راہ دیکھ رہا ہے، ہر پاکستانی ملالہ کی کامیابی کے لیے دعا گو ہے، یہ ایوارڈ ملالہ کو ملے نہ ملے لیکن اس ملک کے لیے ملالہ نے امن،محبت اور عزت کے جو ایوارڈ حاصل کرلیے وہ اس سے کوئی نہیں لے سکتا،کوئی بھی نہیں۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
چلو اللہ کرئے جی معصوم بچی ہے عالمی سیاسی چالوں کا حصہ بن چکی ہے قربانی بھی اس نے دی ہے اگر یہ بے وقوف قوم نام نہاد امن ایوراڈ کو اسکی اور ملک پاکستان کی پذیرائی سمجھتی ہے تو یوں ہی سہی ۔۔والسلام
 

آبی ٹوکول

محفلین
کیا تم یہ سب کہہ سکو گی ملالہ؟...لاؤڈ اسپیکر۔۔۔۔۔ڈاکٹرعامرلیاقت حسین
shim.gif

dot.jpg

shim.gif

اِس میں کوئی شک نہیں کہ سوات کی بہادر بیٹی کے ساتھ بدترین سلوک کا دردناک باب تاریخ کے صفحات سے کبھی مٹایا نہیں جاسکتااوریہ بھی درست ہے کہ اُس نے اپنے عزم،حوصلے اور ثابت قدمی سے ظلم وجبر کے مکروہ چہرے پر ایک زناٹے دار طمانچامارا ہے…
ایک لکھی پڑھی نہتی لڑکی پر اُجڈ، وحشی اور انسان نما درندوں کامسلح حملہ’’مردانگی‘‘ کے دعوے داروں کو شرمسار کرنے کیلئے کافی ہے اور پھر دُعاؤں کے نتیجے میں اُسی لڑکی کا بچ جاناانسانیت کے دشمنوں کو یہ لِلّٰہی پیغام ہے کہ جس کے ساتھ اُس کا رب ہواُسے سرکشوں کی ایذا رسانیاں مِٹا نہیں سکتیں پھر چاہے کوئی وین میں گھس کر سر پہ گولی مارے یا اِسی جنونیت کاباربار اظہار کرے، بالفرض خون کے پیاسے کسی کو مار بھی ڈالیں لیکن اللہ اُسے شہید اُٹھاتا ہے اور یہ تو وہ موت ہے جس کی ہر زندہ کو تمنا ہے …
قاتل سمجھتا ہے کہ وہ کامیاب ہوگیالیکن فرشتے اُس کی ناکامی پر افسوس کرتے ہیں کہ ایک ہی لمحے نے مارنے والے کو جہنم کی گھاٹیوں اور مرنے والے کو مغفرت کی چھایا میں پہنچادیا،ہوسکتا تھا کہ بہادر ملالہ مزید سانسیں نہ لے پاتی یا یہ بھی ممکن تھا کہ وہ ’’نفرت گروں‘‘ کے اِس ستم کی تاب نہ لاکر عمر بھر کے لئے مفلوج ہوجاتی مگر یہ تو ہم جیسے محدود نظر ہی سوچ سکتے ہیں پَر جس کی نگاہ میں پوری کائنات ہو اور جوکُل مختار،واحد مالک اور اکیلا خالق ہو اُس کے حکم سے قلم نے تقدیر کے پرچے پر کیا لکھا ، کب لکھا اور کیوں لکھا اِس کا علم ’’علیم(جَلَّ جَلاَ لُہُ)‘‘کے سوا کسی کو نہیں، سو اِسی سبب ملالہ بچ گئی،زندگی نے اسپتال کے بستر پر اُس کا دوبارہ دیدار کیا اور وحدہٗ لاشریک کے حکم سے سانسوں نے اُسے پھر اپنالیا،وہ صحت یاب ہوگئی،چلنے پھرنے لگی،سب کو پہچان بھی لیا اورکچھ ہی عرصے بعدوہ پہلے جیسی ہوگئی،وہی ملالہ جو سوات کے اسکولوں میں علم کی شمع تھامے اُجالے بکھیرا کرتی تھی،اللہ نے اُسے ایک نئی زندگی ہی نہیں دی بلکہ اُس کے والدین اور بھائی کو بھی ’’حفاظت کے حصار‘‘ میں اُسی کے ساتھ رکھا،ملالہ کے سر پہ لگنے والی ایک گولی نے بُہتوں کی حیات کو نئے معنی فراہم کردئیے والد نے ماشاء اللہ ہائی کمیشن میں ملازمت حاصل کرلی، بھائی بھی اعلیٰ تعلیم کیلئے کوشاں ہے، وین میں اُس کے ساتھ موجود اُس کی دو سہیلیاں بھی برطانیہ جاچکی ہیں، ادارئیے، کتابیں، ایوارڈز، تمغے، ستارے، نشانات، انعامات، اعزازات، استقبالئے، شہرت، دولت سب ہی کچھ اُس کے تعاقب میں ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اِن سے ’’بھاگ ‘‘نہیں رہی بلکہ اِن ’’سُریلے راگوں‘‘ سے آہستہ آہستہ ’’جاگ‘‘ رہی ہے …
میں اِس وقت مکۃ المکرمہ کی جانب عازمِ سفر ہوں تاکہ ایک سچے غلام کی طرح اپنے مالک کو یوں پکار سکوں کہ ’’حاضر ہوں! اے اللہ میں حاضر ہوں‘‘ اِس لئے نہیں جانتا کہ دنیا میں ’’بے امنی پھیلانے والوں‘‘ کی جانب سے امن کے نوبل انعام کا اعلان ہوا یا نہیں مگر غالباً اِن سطور کی اشاعت تک اُسے ’’نوبل انعام‘‘ کا مستحق بھی قرار دے دیا جائے…اچھاہے …یقینا بہت اچھا ہے …سب ہی کچھ اچھا ہے …مجھے تو اِس لئے بھی زیادہ خوش ہونا چاہئے کہ پاکستانی میڈیا میں ، یہ بندۂ عاجز وہ واحد شخص تھا جس نے اِس حملے کے بعد ملٹری اسپتال کے باہر سے بہادر ملالہ کیلئے سب سے پہلے دعائیہ پروگرام کیا اور پوری قوم نے ایک ساتھ پیاری ملالہ کی صحت اور تندرستی کے لئے گڑگڑا کر دعائیں مانگیں…
اسپتال کے باہر ننھے بچوں نے علم کی مشعلیں جلا کراسپتال کے اندر موت سے لڑتی ملالہ کو یہ روحانی پیغام دیا کہ ’’تم اِس راہ پر اکیلی نہیں ہم سب ملالہ بننے کیلئے تیار ہیں‘‘…اُسی دوران اندھیروں کے سوداگروں نے مجھے جان سے ماردینے کی دھمکی دی جو میں نے اُسی وقت ناظرین کو یہ کہتے ہوئے بتادی کہ’’میں یہیں پر موجود ہوں،ملالہ کیلئے دعا کررہا ہوں، آؤ اور مجھے مار سکتے ہو تو ماردو‘‘ … مگر … میں آج ملالہ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ’’غیروں‘‘ کی اِس کُھلی پذیرائی نے کیا تمہیں ایک بار بھی چونکنے پر آمادہ نہیں کیا؟تم کون ہو ملالہ؟ ایک ’’مسلمان لڑکی‘‘…دنیا میں کوئی بھی تمہیں ’’لڑکی مسلمان‘‘ نہیں کہے گا بلکہ ’’مسلمان لڑکی‘‘ کہہ کر ہی مخاطب کیا جائے گاسو اِس طرح ’’مسلمان‘‘ پہلے آتا ہے اور ’’لڑکی‘‘ بعد میں، تو پھر تمہیں حیرت نہیں ہوتی کہ ایک ’’مسلمان‘‘ پر یہ’’اَن گنت مہربانیاں‘‘کیونکر؟
قرآن تو کہتا ہے کہ ’’یہود و نصاریٰ تم سے اُس وقت تک راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ تم اُن کی ملت کا حصہ نہ بن جاؤ‘‘…تم یقینا نہیں بنیں لیکن اُنہوں نے ’’بَنالیا‘‘،ایک ’’مسلمان لڑکی‘‘ کو تونوبل انعام دینے کیلئے پورا عالم تیار ہے لیکن اُسی مسلمان لڑکی کے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی (معاذ اللہ) توہین سے یہ امن کے خود ساختہ ٹھیکیدار باز بھی نہیں آتے، اِن کی بنائی ہوئی شدادی دنیا میں ختمی مرتبت،اُن کے صحابہ اور اہل بیت اطہار کے لئے کوئی گنجائش نہیں، اِنہوں نے امن کے سب سے بڑ ے پیامبر،سراپا رحمت اور انبیا کے امام کی (معاذ اللہ) تضحیک کیلئے سیکڑوں ویب سائٹس اور صفحات تخلیق کر رکھے ہیں لیکن تمہاری حمایت میں بلاگز لکھوائے جارہے ہیں،صفحات چھاپے جارہے ہیں،تمہیں علم اور امن کی علامت قرار دیا جارہا ہے ، کیا یہ سب تمہیں اچھا لگ رہا ہے؟ ملالہ بیٹی ! تم ہی بتاؤ کہ جب علم کے شہر کے خاکے بنائے جائیں،امن کی’’ لاشریک علامت‘‘ کے سینہ اطہر پر اُترے قرآن کو جلایا جائے اور سورۃ قلم والے قلم کے سچے امین کی شان میں جہلا کے قلم زہر اگلیں تو تمہیں کیا کرنا چاہیے؟
میں نے اور مجھ جیسے لاکھوں پاکستانیوں نے تم پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف اِس لئے آواز بَلندنہیں کی تھی کہ ہم برطانیہ سے میڈیا کے دوش پر اغیار کے لہجے میں تمہارا یہ انداز گوارا کریں گے کہ ’’میں سیاست میں آنا چاہتی ہوں‘‘، بھول گئیں کہ تمہیں سیاست سے بچانے کیلئے ہی تو سب آگے بڑھے تھے،کون سی سیاست؟ کس کی سیاست؟ کیا تعلیم سے وابستہ تمہاری ساری ذمہ داریاں پوری ہوگئیں؟یہ ساری تکالیف کیا تم نے اِسی دن کیلئے اُٹھائی تھیں؟
بیٹی! یہ سب تم نہیں کہہ رہی ہو تم سے کہلوایا جارہا ہے، ہمدردی ،سہارے اور چکاچوند سے تمہیں بہکایا جارہا ہے، تم اپنا راستہ نہ چھوڑو، تم نے اِتنا درد صرف علم کیلئے برداشت کیا ہے ،اب اِسے کسی نئی جنگ کا سبب نہ بننے دو…نوبل انعام دینے والوں سے ایک بار تو پوچھ لو کہ ’’میرے نبی کیلئے آپ کے دل میں کیا ہے؟
اگر آپ اُن کا احترام کرتے ہیں،اور فتنوں کے خاتمے کیلئے یہ اعلان کرتے ہیں کہ انبیا کی توہین کر نے والا بھی ایسا ہی مجرم قرار پائے گا جس طرح ہم سب کی نگاہ میں اللہ کی زمین پر فساد پھیلانے والے مجرم ہیں تو میں یہ انعام چوم کر لوں گی مگر میرے لئے معیار کچھ اور اور میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے احترام کے زاویئے جُدا؟… توپھر مجھے بھی ’’اظہارِ رائے‘‘ کی آزادی دیجئے اور یہ کہنے دیجئے کہ ’’کسی بھی کھرے مسلمان کے لئے دنیا کا کوئی بھی اعزاز اُس کے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اور ناموس سے بڑھ کر نہیں، ہماری تو عزت ہی اُن کے سبب سے ہے ، اجی عزت کی بات تو رہنے دیجئے اللہ کی قسم! رگوں میں یہ لہو بھی اُن ہی کی بدولت ہے ، یہ سب تمغے یہیں رہ جائیں گے ، سارے ایوارڈ شیشے کے پیچھے سجے رہ جائیں گے ، قبر میں ساتھ تو صرف اُن کی غلامی کا اعزاز جائے گامیں یقینا جرأت مند ہوں مگراِتنی بے ادب نہیں کہ اِس دائمی اعزاز سے منہ موڑنے کی جرأت کروں، مجھے آپ کا نوبل انعام قبول ہے، آپ کی تمام باتیں بھلی ہیں اور نیت پر بھی کوئی سوال نہیں…
بس صرف اِتنا کہہ دیجئے کہ آپ کو میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیار ہے، ہم نے تاریکیوں کو دُور کرنے کی قسم کھائی ہے نا! تو چلئے آج مل کر اُسی شمع کو تھام لیتے ہیں جس سے ظلمت دور بھاگتی ہے اور روشنیاں زیارت کو بے تاب ہوجاتی ہیں،آپ میرے نبی کی تکریم کا اقرار کیجئے، میں آپ کے ایوارڈز کی تعظیم کا وعدہ کرتی ہوں‘‘…کیا تم یہ سب کہہ سکو گی ملالہ؟؟؟؟…!!!

ربط
 
سب خوش ہو جائیں، ملالہ کو نوبل انعام نہیں ملا۔ امید ہے اب اس کو جاسوس نہیں کہا جائے گا۔
ملالہ کو نوبل پرائز تو نہیں ملا لیکن ملالہ کے مخالفین کو ذلالتوں اور بے غیرتیوں کا سب سے بڑاکلنک کا ٹیکہ مل چکا ہے۔۔۔
 

سید ذیشان

محفلین
ملالہ کو نوبل پرائز تو نہیں ملا لیکن ملالہ کے مخالفین کو ذلالتوں اور بے غیرتیوں کا سب سے بڑاکلنک کا ٹیکہ مل چکا ہے۔۔۔

افتخار عارف سے معذرت کیساتھ

"طالب" کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
:twisted:
 

آبی ٹوکول

محفلین
ملالہ کو نوبل پرائز تو نہیں ملا لیکن ملالہ کے مخالفین کو ذلالتوں اور بے غیرتیوں کا سب سے بڑاکلنک کا ٹیکہ مل چکا ہے۔۔۔
غزنوی بھائی میرے خیال میں آپ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی جذباتی ہے ہوگئے ملالہ کا مخالف تو کوئی بھی نہیں ہوگا خاص طور پر وہ کہ جسے بھی اللہ پاک نے بیٹی جیسی نعمت سے نوازا ہوگا، میں تو جب بھی اسے دیکھتا ہوں بیٹی جیسی ہی دکھتی ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ ملالہ کی عالمی میڈیا میں بے جا پذیرائی اور یہود و نصارٰی کا اس کو ہاتھوں ہاتھ لینا لوگوں کھٹکتا ہے لہذا وہ یہود و ہنود و نصارٰی کے تعصب میں ملالہ کو بھی رگڑ جاتے ہیں یا تاثر ایسا ملتا ہے کہ جیسے وہ لوگ ملالہ کہ خلاف ہوں باقی واللہ اعلم ورسولہ ۔
 
غزنوی بھائی میرے خیال میں آپ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی جذباتی ہے ہوگئے ملالہ کا مخالف تو کوئی بھی نہیں ہوگا خاص طور پر وہ کہ جسے بھی اللہ پاک نے بیٹی جیسی نعمت سے نوازا ہوگا، میں تو جب بھی اسے دیکھتا ہوں بیٹی جیسی ہی دکھتی ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ ملالہ کی عالمی میڈیا میں بے جا پذیرائی اور یہود و نصارٰی کا اس کو ہاتھوں ہاتھ لینا لوگوں کھٹکتا ہے لہذا وہ یہود و ہنود و نصارٰی کے تعصب میں ملالہ کو بھی رگڑ جاتے ہیں یا تاثر ایسا ملتا ہے کہ جیسے وہ لوگ ملالہ کہ خلاف ہوں باقی واللہ اعلم ورسولہ ۔
عابد بھائی، اگر یہود و نصاری کا ہاتھوں ہاتھ لینا ہی صحیح یا غلط کا معیار ٹھہرا لیا جائے ؎تو پھر ان لوگوں کو افغان مجاہدین سے بھی بیزاری کا اظہار کرنا چاہئیے جنہیں ایک زمانے میں یہود و نصاری نے بہت ہاتھوں ہاتھ لیا اور فل سپورٹ دی تاکہ روس کا ستیا ناس کیا جاسکے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے ۔ یہود و نصاری تو سعودی شاہی خاندان کی بھی بہت سپورٹ کرتے ہیں، لیکن یہ لوگ اس شد و مد سےسعودیہ کی مذمت کرتے تو کبھی نظر نہیں آتے۔۔۔میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں یہود و نصاری سے کہیں زیادہ خطرہ ہماری اپنی غلط سوچ اور غلط ترجیحات سے ہے ۔۔۔۔آپ بخوبی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ حق کو اشخاص کے ذریعے نہیں بلکہ اشخاص کو حق کے ذریعے پہچانا جاتا ہے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
عابد بھائی، اگر یہود و نصاری کا ہاتھوں ہاتھ لینا ہی صحیح یا غلط کا معیار ٹھہرا لیا جائے ؎تو پھر ان لوگوں کو افغان مجاہدین سے بھی بیزاری کا اظہار کرنا چاہئیے جنہیں ایک زمانے میں یہود و نصاری نے بہت ہاتھوں ہاتھ لیا اور فل سپورٹ دی تاکہ روس کا ستیا ناس کیا جاسکے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے ۔ یہود و نصاری تو سعودی شاہی خاندان کی بھی بہت سپورٹ کرتے ہیں، لیکن یہ لوگ اس شد و مد سےسعودیہ کی مذمت کرتے تو کبھی نظر نہیں آتے۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں یہود و نصاری سے کہیں زیادہ خطرہ ہماری اپنی غلط سوچ اور غلط ترجیحات سے ہے ۔۔۔ ۔آپ بخوبی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ حق کو اشخاص کے ذریعے نہیں بلکہ اشخاص کو حق کے ذریعے پہچانا جاتا ہے۔
آپ نے بالکل درست فرمایا غزنوی بھائی ۔۔۔ یہود و نصارٰی کا کسی کو ہاتھوں ہاتھ لینا کسی بھی شخصیت کے صحیح یا غلط ہونے کا کوئی پیمانہ یا معیار ہرگزنہیں ہے مگر ان کا ایسا کرنا کسی بھی کار یا شخصیت کو مشکوک ضرور ٹھرا دیتا ہے سو یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگوں کو ملالہ کے لیے یورپ اور امریکہ کی تڑپ کھٹک رہی ہے ۔باقی واللہ اعلم ورسولہ
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ



ميں نہيں سمجھ سکا کہ کس بنياد پر بعض رائے دہندگان ملالہ کو امريکی کٹھ پتلی قرار دينے پر بضد ہيں کيونکہ انھيں تو خطے ميں کمسن بچيوں کے حقوق کے ليے کاوشيں کرنے پر حکومت پاکستان کی جانب سے سول ايوارڈ بھی مل چکا ہے۔ اور انھيں يہ اعزاز اس حملے سے پہلے ديا گيا تھا جس کے بعد ان کا نام عالمی سطح پر پہچان بن گيا۔


http://tribune.com.pk/story/422566/...bingers-of-hope-recognised-for-their-efforts/

يہ نہيں بھولنا چاہيے کہ يہ پاکستان کے عوام ہی تھے جنھوں نے سکول کی کمسن بچی پر بے رحم حملے کے بعد اپنے شديد جذبات کا اظہار کيا اور ملالہ کے حق ميں آواز بلند کی تھی۔ ملالہ کے واقعے کے بعد امريکی حکومت کا موقف اس عالمی ردعمل کا حصہ تھا جو ملالہ اور دنيا بھر ميں اس جيسی ديگر بچيوں کو درپيش بے پناہ مشکلات کے حوالے سے تھا جس کی بنياد وہ دقيانوسی سوچ ہے جسے صرف امريکہ ہی نے نہيں بلکہ تمام مہذب دنيا نے بتدريج مسترد کر ديا ہے۔


ملالہ کيس کوئ پہلا واقعہ نہيں ہے جب دہشت گردوں نے دانستہ اور جانتے بوجھتے ہوئے نہتے بے گناہ شہری کو نشانہ بنايا۔ گزشتہ ايک دہائ سے وہ پاکستان ميں بے گناہ عورتوں، مردوں اور بچوں کو اپنی بربريت کا نشانہ بنا رہے ہيں۔ ان کی جانب سے سکولوں کو تباہ کرنے اور معصوم بچوں کو خودکش بمبار بنانے کی مہم سے کوئ بھی ذی شعور شخص انکار نہيں کر سکتا۔ وہ خود اپنے تشہيری مواد ميں برملا اس سوچ کا اعتراف کر رہے ہيں۔


امريکہ حکومت کا ہميشہ يہ موقف رہا ہے کہ پاکستانی عوام سميت تمام فريقين کی مشترکہ کاوشيں اس متشدد سوچ کے سدباب کے ليے کليدی کردار ادا کريں گی جس نے برسابرس سے ملک ميں ايک وبا کی سی حيثيت اختيار کر لی ہے۔ يہ کوئ ايسی گمنام حقيقت نہيں ہے جو ملالہ پر حملے کے بعد اچانک سب کے سامنے آشکار ہو گئ ہے۔ امريکی حکومت کے اہم ترين عہديداروں کی جانب سے ايسے سينکڑوں بيانات ريکارڈ پر موجود ہيں جو پاکستان ميں دہشت گردی کے ہر اہم واقعے کے بعد ہماری جانب سے نا صرف يہ کہ پرزور مذمت کے جذبات کی عکاسی کرتے ہيں بلکہ اس ضرورت کو بھی اجاگر کرتے رہے ہيں کہ ان مجرموں کی جانب سے بچوں کو خودکش ببمار کے طور پر استعمال کر کے دہشت گردی کی جس مہم کو جاری کيا گيا ہے وہ کوئ آزادی کی جانب راغب مقدس جدوجہد ہرگز نہيں ہے۔ اس کے برعکس يہ اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے ليے طاقت کے حصول کی کوشش ہے جس کی بنياد دہشت اور خوف پر رکھی گئ ہے۔ ايک ايسے غلط نظريے اور نقطہ نظر کے ذريعے دماغوں کو پراگندہ کيا جا رہا ہے جسے قريب تمام مذہبی سکالرز، اداروں اور مسلک سے تعلق رکھنے والے علماء نے يکطرفہ طور پر نہ صرف مسترد کر ديا ہے بلکہ اس کی مذمت بھی کی ہے۔


يہ تاثر دينا انتہائ لغو اور بے بنیاد ہے کہ امريکی حکومت ملالہ پر حملے کے واقعے کو "استعمال" کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ہمارا مضبوط، واضح اور مستقل موقف پاکستان سميت ہمارے تمام اتحاديوں اور شراکت داروں پر ہميشہ سے واضح رہا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
Top