ایم اسلم اوڈ
محفلین
پاکستان میں گزشتہ کئی سال سے قومی روزنامہ اور بھارتی ادارے ٹائمز آف انڈیا کے زیراہتمام ’’امن کی آشا‘‘ کے نام پر مسلسل کام جاری ہے۔ جس وقت یہ سطریں تحریر کی جا رہی ہیں اس وقت ان دونوں اداروں کے زیراہتمام بھارت سے ایک بہت بڑا تجارتی وفد لاہور میں موجود ہے جس نے سب سے پہلے نواز شریف سے ملاقات کی۔ تجارتی کانفرنس سے وزیراعظم نے خطاب کیا۔ شہباز شریف بھی شریک و مخاطب ہوئے تاکہ تجارت کو فروغ دیا جائے۔ جس وقت ’’امن کی آشا‘‘ مشن شروع کیا تھا اس وقت اس کابنیادی مقصد یہ بیان کیا گیا تھا کہ اس سے خطے میں روزنامہ جنگ نے تمام امکانات کو ختم کر کے آپس میں پیار و محبت کے ساتھ رہنے کا ماحول پیدا کیا جائے گا۔ اس کے لئے دونوں طرف ان اداروں نے مختلف قسم کے وفود کے مسلسل تبادلے کئے۔ اس مشن پر بلامبالغہ اب تک اربوں روپے خرچ کئے جا چکے ہیں۔ حیرانی اس بات سے ہوتی ہے کہ پاکستان میں ملک کے صرف ایک ابلاغی ادارے جسے سب سے موثر اور بڑا ادارہ ہونے کا بھی ز عم ہے نے یہ سلسلہ کیوں شروع کر رکھا ہے اور اسے اس سے کیا ملے گا…؟ دنیا کا کوئی ملک و مذہب جنگ کو اچھا نہیں سمجھتا، اسلام بھی جنگ کا مخالف ہے لیکن جنگ اگر امن کے لئے ناگزیر ہو تو اس کی اجازت ہے۔ ہمیں اس بات پر حیرانی ہوتی ہے کہ پاکستان جس کے بھارت کے ساتھ ایک یا دو نہیں ان گنت تنازعات چل رہے ہیں اور تمام تنازعات ایسے ہیں کہ جو پاکستان کی موت و حیات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں کیسے امن قائم ہو گا؟ کیا ہم کشمیر کو بھول جائیں گے…؟ کیا ہم اپنے دریائوں اور پانی کو بھول جائیں کہ جس پر بھارت قبضہ کر چکا ہے؟ کیا ہم سیاچن کو بھول جائیں کہ جس پر 1984ء سے بھارت قابض ہے؟ کیا ہم سرکریک کو بھول جائیں…؟ کیا ہم سمجھوتہ ایکسپریس کو بھول جائیں…؟ کیا ہم مشرقی پاکستان کا حادثہ بھول جائیں…؟ کیا ہم ہزاروں شہریوں کو بھول جائیں کہ جو بھارت کی دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ ہمیں ’’امن کی آشا‘‘ کے نام پر جو سبق پڑھانے کی کوشش ہو رہی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم بھارت کی بالادستی کو مکمل طور پر قبول کر کے اس کے غلام بن جائیں۔ افسوس کی بات ہے کہ بھارت ایسے - - دشمن کی دشمنی کو بھول کر پیپلزپارٹی، مسلم لیگ سمیت تقریباً تمام اہم سیاسی جماعتیں بھارت سے دوستی کے حق میں ہیں، تجارت کرنا چاہتی ہیں۔ دوسری طرف بھارت سے اب تک جتنی دوستی یا تجارت ہوئی اس کانتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بھارت ہمیں بات چیت اور مذاکرات اور امن کے نام پر کشمیر دے دے، سیاچن دے دے، ہمارا پانی چھوڑ دے، سرکریک سے ہٹ جائے۔ ہم پہلے بھی کئی بار قوم کو یاد دلا چکے ہیں کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کا حصہ اور متنازعہ علاقہ کارگل کی ایک چوٹی جس پر پاکستان نے اپنا پرچم لہرا دیا تھا، اس کو قبول نہ کیا اور ہزاروں فوجی مروا اور اربوں ڈالر پھونک کر بھی اس نے اس وقت سانس لیا جب کارگل کا ایک معمولی سا متنازعہ علاقہ اس کے پاس دوبارہ چلا گیا۔ یہ تو ہم ہی ہیں کہ اس سے نہ کشمیر لے سکے، نہ مشرقی پاکستان کا بدلہ لے سکے، نہ سیاچن لے سکے کہ جس پر اس نے چوروں کی طرح قبضہ کیا تھا۔ قوم کو اب دو ٹوک فیصلہ کر کے میدان میں نکلنا چاہئے کہ اس نے بھارت کی مکمل غلامی اختیار کر کے بھارتی مسلمانوں کی سی بے بسی اور غلامی کی انتہائی گھٹیا زندگی بسر کرنی ہے یا آزادی کے ساتھ سر اٹھا کر جینا ہے۔ ’’امن کی آشا‘‘ کا ڈرامہ دراصل ہمیں بھارت کی غلامی کی لعنت میں دھکیلنے اور ہمارے ملک و معاشرے پر ہندو رسوم و رواج کو غالب کرنے بلکہ ہمیں مکمل طور پر بھارت اور ہندو کے حوالے کرنے کا مشن ہے۔ دوسری طرف کون نہیں جانتا کہ بھارت نے آج تک مذاکرات کے ساتھ ہمیں کیا دیا کہ اب وہ مزید کیا کچھ دے گا۔ مذاکرات تو برابری کی سطح پر ہوتے ہیں۔ بھارت کیا ہمیں اپنے برابر سمجھتا ہے؟ ہرگز نہیں تو ہمیں کس بات کی جلدی ہے… خدارا ملک و قوم کے حال پر رحم کیا جائے اور بھارت کے ساتھ یہ تماشے اور ڈرامے ختم کئے جائیں۔
بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام،،،،علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام،،،،علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput