الجواب بعون اللہ الوہاب:
أزواج نبي صلی اللہ علیہ وسلم/ أمهات مؤمنين رضي الله عنہن
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے درج ذیل خواتین سے عقد کیا جن کے نام درج ذیل ہیں:
۱- خديجہ بنت خويلد رَضِيَ اللَّهُ عَنْها :
آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پہلی زوجہ ہیں، آپ کی زندگی میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور خاتون سے نکاح نہ کیا، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولادیں سوائے ابراہیم علیہ السلام کے انہی سے ہوئیں۔
عقد البخاري رحمه الله باباً في صحيحه فقال : بَاب تَزْوِيجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَدِيجَةَ وَفَضْلِهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، وروى فيه حديثا عن عائشة رضي الله قَالَتْ : ( مَا غِرْتُ عَلَى امْرَأَةٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ ، هَلَكَتْ ( أي : ماتت ) قَبْلَ أَنْ يَتَزَوَّجَنِي لِمَا كُنْتُ أَسْمَعُهُ يَذْكُرُهَا ) رواه البخاري ( 3815 )
اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں ایک باب باندھا ہے جس کا عنوان یہ ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بی بی خدیجہ سے نکاح اور آپ رضی اللہ عنہا کی فضیلت۔
اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ مجھے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجہ سے اتنی غیرت نہ آئی جتنی خدیجہ رضی اللہ عنہا پر کہ آپ کی وفات کے بعدبھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم آپ کا تذکرۂ خیر کیا کرتے تھے۔
2- سودة بنت زمعة بن قيس رضی اللہ عنہا:
آپ سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا عقد دسویں سن نبوت کو ہوا(طبقات ابن سعد من طريق الواقدي 8/52-53 ، وابن كثير في البداية والنهاية 3/149 )
3- عائشہ بنت أبي بكر الصديق رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُما :
آپ سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح دسویں سن نبوت کو ہوا، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں اکلوتی غیر شادی شدہ بیوی تھیں۔ (ابن سعد 8/58-59 . رواه البخاري ( 3894 ) ومسلم ( 1422 ) البخاري ( 5077 )
4- حفصہ بنت عمر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُما :
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے کہ : جب حفصہ رضی اللہ عنہا کے شوہر خُنَيْسِ بْنِ حُذَافَةَ السَّهْمِيِّ جو کہ بدری صحابی تھے، کا انتقال ہوگیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنی بیٹی کا رشتہ دیا تو آپ نے منع فرمادیا۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا تو آپ نے بھی توقف فرمایا حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کرلیا۔ رواه البخاري ( 4005 )
قربان جائیے صحابۂ کرام کی عظمت پر کہ خود ہی نیک صالحین کو اپنی بیٹی کا رشتہ دینے چلے گئے اور انکار پر ناراض تک نہ ہوئے جبھی تو اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ہوکر جنتوں کے مستحق بن گئے۔
5- زينب بنت خزيمة رَضِيَ اللَّهُ عَنْها :
آپ سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا عقد ہجرت کے اکتیسویں مہینے رمضان المبارک میں منعقد ہوا۔(طبقات ابن سعد 8/115 . )
6- أم سلمہ بنت أبي أمية رَضِيَ اللَّهُ عَنْها :
روى مسلم (918 ) عن أُمَّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُا قالت : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ( مَا مِنْ عَبْدٍ تُصِيبُهُ مُصِيبَةٌ فَيَقُولُ : إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ، اللَّهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي ، وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا ، إِلا أَجَرَهُ اللَّهُ فِي مُصِيبَتِهِ ، وَأَخْلَفَ لَهُ خَيْرًا مِنْهَا ) . قَالَتْ : فَلَمَّا تُوُفِّيَ أَبُو سَلَمَةَ قُلْتُ كَمَا أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَخْلَفَ اللَّهُ لِي خَيْرًا مِنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . وفي رواية : ( فَلَمَّا تُوُفِّيَ أَبُو سَلَمَةَ قُلْتُ : مَنْ خَيْرٌ مِنْ أَبِي سَلَمَةَ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟! ثُمَّ عَزَمَ اللَّهُ لِي فَقُلْتُهَا ، قَالَتْ : فَتَزَوَّجْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ) .
آپ بذات خود روایت فرماتی ہیں کہ میں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنا تھا کہ اگر کسی مسلمان کو کوئی مصیبت پہنچے اور وہ یہ کلمات ادا کرے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ، اللَّهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي ، وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا(بےشک ہم اللہ کے لئے ہیں اور بلاشبہ ہم اسی کی جانب لوٹنے والے ہیں، اے اللہ مجھے میری مصیبت میں اجر عطا فرما،اور اس سے بہتر بدل نصیب فرمادے) تو اللہ اس کو اس سے بہتر صلہ عطا فرماتا ہے ،لہذا جب میرے شوہر ابو سلمہ کا انتقال ہوا تو میں نے یہ دعا پڑھی تو اللہ نے مجھے ابو سلمہ سے بہتر شخصیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں عطا فرمادی۔ (مسلم 918 )
7- جويرة بنت الحارث رضي الله عنها :
آپ غزوہ بنی مصطلق میں قید ہو کر لائی گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کرکے ان سے نکاح فرما لیا۔ ( رواه ابن إسحاق بإسناد حسن ، سيرة ابن هشام 3/408-409 . )
8- زينب بنت جحش رَضِيَ اللَّهُ عَنْها .
اپ کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی : ( فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ) الأحزاب/37 .
اس آیت میں اللہ نے خود ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی کہا ہے جس پر وہ سب ازواج پر فخر کیا کرتی تھیں۔ رواه البخاري (7420)
9- أم حبيبہ بنت أبي سفيان رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُما :
روى أبو داود ( 2107 ) عَنْ عُرْوَةَ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْها أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ جَحْشٍ ، فَمَاتَ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ ، فَزَوَّجَهَا النَّجَاشِيُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَمْهَرَهَا عَنْهُ أَرْبَعَةَ آلافٍ ، وَبَعَثَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ شُرَحْبِيلَ ابْنِ حَسَنَةَ . صححه الألباني .
سنن ابی داؤد (2107)میں ہے کہ آپ کے شوہر کا انتقال ارض حبشہ میں ہوگیا تو شاہ نجاشی نے ان کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کردیا۔
10- ميمونہ بنت الحارث رَضِيَ اللَّهُ عَنْها :
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث جو کہ صحیح بخاری (1837) اور مسلم (1410) میں ہے سے آپ کی نبی باک صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کا ثبوت ملتا ہے۔ "زاد العاد" (1/113) ، "فتح الباري" حديث رقم (5114)
11- صفیہ بنت حيي بن أخطب رَضِيَ اللَّهُ عَنْها :
غزوۂ خیبر کے بعد آپ کی شادی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی۔ رواه البخاري (371)
یہ وہ تمام خواتین ہیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی۔ ان میں سے دو خواتین خديجہ اور زينب بنت خزيمہ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُما کا انتقال پرملال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا۔ اور دیگر کا انتقال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد ہوا۔ اس معاملے میں اہل علم کا اتفاق ہے۔دیکھئے: "زاد المعاد" (1/105-114)
ان کے علاوہ ريحانہ بنت عمرو النضريہ یا القرظيہ نامی ایک اور خاتون کے بارے میں روایت ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ تھیں جن کو غزوہ بنی قريظہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے چنا، آزاد کیا اور شادی بھی کی لیکن بعد میں طلاق واقع ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے رجوع بھی کیا۔(یہ روایت طبقات ابن سعد 8/130 میں ہے مگر مجھے اس کی صحت کا علم نہیں لیکن چونکہ یہ تاریخ کا ایک حصہ ہے اس لئے کتمان علم کے گناہ سے بچنے کے لئے بیان کردی ہے باقی اللہ رب العزت بہتر جاننے والا اور معاف فرمانے والا ہے )
بعض نے ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت گار بیان کیا ہے۔ اس کو علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں راجح قرار دیا ہے۔
(نوٹ: یہ سارا مواد میں نے عربی سے اردو ترجمہ کیا ہے اگر اس میں کوئی نقص ہو تو اہل علم تصحیح فرمادیں۔ اس میں اگر کوئی اچھائی ہے تو خاص اللہ کی توفیق سے ہے اور اگر کوئی کوتاہی ہے تو میری کم علمی اور شیطان کی طرف سے ہے۔ میں اللہ رب العزت کے حضور ثواب کی امید رکھتا ہوں)