فراز امیرِ شہر غریبوں کو لُوٹ لیتا ہے۔۔۔۔۔ احمد فراز

بہت خوب انتخاب اپیا۔ کیا کہنے آپ کے ذوق سلیم کے۔ :)

اب اگر یہ بھی پرمزاح ہوگیا۔ تو میرا اعتبار اٹھ جائے گا ان شاعروں سے بھی
پُر مزاح لکھ کر کہتے ہیں کہ اب بندہ ہنسے بھی نہیں :)
ویسے ریٹینگ پُرمزاح دینے پر شاعر بچارے کا کیا قصور ہے بھئی اُس نے کیا بگاڑا ہے آپ کا :)
انتخاب کی پذیرائی پر ممنون ہیں ۔ :) سلامت رہیں ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
پُر مزاح لکھ کر کہتے ہیں کہ اب بندہ ہنسے بھی نہیں :)
ویسے ریٹینگ پُرمزاح دینے پر شاعر بچارے کا کیا قصور ہے بھئی اُس نے کیا بگاڑا ہے آپ کا :)
انتخاب کی پذیرائی پر ممنون ہیں ۔ :) سلامت رہیں ۔
بھئی اپیا ایک شاعر نے یوں دوسرے شاعر کو داد دے رکھی ہے یہاں محفل پر۔۔۔۔ اور آپ نے اسے بھی پرمزاح کر دیا۔۔۔ :(
 
بھئی اپیا ایک شاعر نے یوں دوسرے شاعر کو داد دے رکھی ہے یہاں محفل پر۔۔۔ ۔ اور آپ نے اسے بھی پرمزاح کر دیا۔۔۔ :(
ہائیں !! کون سے شاعر نے کس شاعر کو داد دے رکھی ہے بھئی :)
ویسے یہ بھئی اپیا کی اصطلاح بھی خاصی پر مزاح ہے واہ !! خوب ہی حظ اُٹھایا ہم نے تو :)
اچھا اچھا آپ اداس شکل نہ بنائیں ہم آئندہ بھی یہی کار خیر انجام دیتے رہیں گے :heehee:
اب خوش !!!:battingeyelashes:
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہائیں !! کون سے شاعر نے کس شاعر کو داد دے رکھی ہے بھئی :)
ویسے یہ بھئی اپیا کی اصطلاح بھی خاصی پر مزاح ہے واہ !! خوب ہی حظ اُٹھایا ہم نے تو :)
اچھا اچھا آپ اداس شکل نہ بنائیں ہم آئندہ بھی یہی کار خیر انجام دیتے رہیں گے :heehee:
اب خوش !!!:battingeyelashes:
اس دن یہ داد چوری کی تھی کہیں سے دیکھ کر۔۔۔۔ :p
ہی ہی ہی۔۔۔۔ :)
ہاہاہاہاہااااا۔۔۔۔ ہم بھی اپنی ہٹ نہ چھوڑیں گے۔۔۔ :D
 

عبدالحسیب

محفلین
نہ انتظار کی لذت نہ آرزو کی تھکن
بجھی ہیں درد کی شمعیں کہ سو گیا بدن

سُلگ رہی ہیں نہ جانے کس آنچ سے آنکھیں
نہ آنسوؤں کی طلب ہے نہ رتجگوں کی جلن

دلِ فریب زدہ! دعوتِ نظر پہ نہ جا
یہ آج کے قد و گیسو ہیں کل کہ دار و رسن

غریبِ شہر کسی سایۂ شجر میں نہ بیٹھ
کہ اپنی چھاؤں میں خود جل رہے ہیں سرو و سمن

بہارِ قرب سے پہلے اجاڑ دیتی ہیں
جدائیوں کی ہوائیں محبتوں کے چمن

وہ ایک رات گزر بھی گئی مگر اب تک
وصالِ یار کی لذت سے ٹوٹتا ہے بدن

پھر آج شب ترے قدموں کی چاپ کے ہمراہ
سنائی دی ہے دلِ نامراد کی دھڑکن

یہ ظلم دیکھ کہ تُو جانِ شاعری ہے مگر
مری غزل میں ترا نام بھی ہے جرمِ سخن

امیرِ شہر غریبوں کو لُوٹ لیتا ہے
کبھی بہ حیلۂ مذہب کبھی بنامِ وطن

ہوائے دہر سے دل کا چراغ کیا بجھتا
مگر فرازؔؔ سلامت ہے یار کا دامن​
 
Top