عمراعظم
محفلین
امیری کا نشہ
ہمیں ہے یاد اب تک وہ لڑکپن کا زمانہ تھا
ہمارے بھائی بہنوں کے بچپن کا زمانہ تھا
بہت چھوٹا سا اک کمرہ تھا جس کی چھت ٹپکتی تھی
بڑی مشکل سے برساتوں کی ہر اک رات کٹتی تھی
سلاتی تھی کبھی بہنوں کو ماں آنچل کے چلمن میں
کبھی ابّو چُھپاتے لیتے تھے ہم کو اپنے دامن میں
کبھی یوں بھی ہُوا باندھے سبھی نے پیٹ پر پتھر
کبھی سب نےگزارہ کر لیا دو چار لقموں پر
مگر سب کو محبت کے اثر نے باندھ رکھا تھا
ہمیں مٹی کے اُس چھوٹے سے گھر نے باندھ رکھا تھا
سبھی اک دوسرے کی چاہتوں میں گھُل کے رہتے تھے
غریبی تھی مگر ہم لوگ سب مِل جُل کے رہتے تھے
----------------------------------
امیری آئی خوشحالی نے سب چہرے بدل ڈالے
فقط چہرے نہیں دِل ذہن اور جذبے بدل ڈالے
مکاں سب نے بنائے اور سب یوں گھر میں جا بیٹھے
مکانوں کی چمک میں خون کے رشتے بُھلا بیٹھے
پڑوسی غیر ہے یہ سوچ کر مسرور رہتے ہیں
بہت خوش ہیں کہ اپنے بھائیوں سےدور رہتے ہیں
غرور و تمکنت کی جھیل میں اُترے ہوئے ہیں ہم
امیری کے نشے میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں ہم
کہ جُھوٹی شان کے شعلوں میں سب رشتے جلاتے ہیں
اگر ہے بھائی مفلس تو اُسے نوکر بتاتے ہیں
---------------------------------
ہمارے دیدہء پُر نم نے وہ منظر بھی دیکھا ہے
جواں ہوتے ہوئے بیٹوں کا دِل پتھر بھی دیکھا ہے
جواں ہوتے ہی اپنی الگ دنیا بنا ڈالی
سبھی بیٹوں نے اپنی جنت خود سجا ڈالی
نمایاں جن میں جنت ہے بُھلا کر ایسے قدموں کو
نئے گھر کی طرف لے کر چلے سب اپنے بچوں کو
مگر جب بوڑھی امی اور ابّو کا سوال آیا
کسی نے باپ کو رکھا کسی نے ماں کو اپنایا
کسی نےبھی نہ سوچا باپ ماں کو ساتھ رکھا جائے
اِنہیں اس عمر کی دہلیز پر تنہا نہ چھوڑا جائے
بہت پُر درد و پُر نم تھا سماں ماں باپ کی خاطر
بہت ہی سخت تھا وہ امتحاں ماں باپ کی خاطر
بہت مشکل تھا یہ لیکن الگ رہنا پڑا اُن کو
بُڑھاپے میں بھی بچھڑنے کا غم سہنا پڑا اُن کو
-----------------------------
یہ منظر دیکھ کر آنکھیں ہماری ڈُبڈبائی ہیں
وہ لکھنا چاہتے ہیں ذہن میں باتیں جو آئی ہیں
جو اب دِل کہہ رہا ہے ہم اُسے تحریر کرتے ہیں
قلم کو تیغ کرتے ہیں زباں کو تیر کرتے ہیں
وہ بیٹے کثرتِ دولت سے جن کے جسم اینٹھے ہیں
جو اپنا فرض اپنی ذمہ داری بھول بیٹھے ہیں
سبھی اُن بے حِسوں کا بُرا انجام ہونا ہے
اُنہیں تو زندگی میں ایک دن ناکام ہونا ہے
جو فطرت اُن کی ہےاُولاد میں بھی پائی جائے گی
کہانی ظلم کی اک بار پھر دہرائی جائے گی
حیا سے اُس گھڑی وہ لوگ اپنا سر جُھکا لیں گے
کہ جب اُن کے جواں بیٹے اُنہیں گھر سے نکالیں گے
طاہر فراز
ہمیں ہے یاد اب تک وہ لڑکپن کا زمانہ تھا
ہمارے بھائی بہنوں کے بچپن کا زمانہ تھا
بہت چھوٹا سا اک کمرہ تھا جس کی چھت ٹپکتی تھی
بڑی مشکل سے برساتوں کی ہر اک رات کٹتی تھی
سلاتی تھی کبھی بہنوں کو ماں آنچل کے چلمن میں
کبھی ابّو چُھپاتے لیتے تھے ہم کو اپنے دامن میں
کبھی یوں بھی ہُوا باندھے سبھی نے پیٹ پر پتھر
کبھی سب نےگزارہ کر لیا دو چار لقموں پر
مگر سب کو محبت کے اثر نے باندھ رکھا تھا
ہمیں مٹی کے اُس چھوٹے سے گھر نے باندھ رکھا تھا
سبھی اک دوسرے کی چاہتوں میں گھُل کے رہتے تھے
غریبی تھی مگر ہم لوگ سب مِل جُل کے رہتے تھے
----------------------------------
امیری آئی خوشحالی نے سب چہرے بدل ڈالے
فقط چہرے نہیں دِل ذہن اور جذبے بدل ڈالے
مکاں سب نے بنائے اور سب یوں گھر میں جا بیٹھے
مکانوں کی چمک میں خون کے رشتے بُھلا بیٹھے
پڑوسی غیر ہے یہ سوچ کر مسرور رہتے ہیں
بہت خوش ہیں کہ اپنے بھائیوں سےدور رہتے ہیں
غرور و تمکنت کی جھیل میں اُترے ہوئے ہیں ہم
امیری کے نشے میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں ہم
کہ جُھوٹی شان کے شعلوں میں سب رشتے جلاتے ہیں
اگر ہے بھائی مفلس تو اُسے نوکر بتاتے ہیں
---------------------------------
ہمارے دیدہء پُر نم نے وہ منظر بھی دیکھا ہے
جواں ہوتے ہوئے بیٹوں کا دِل پتھر بھی دیکھا ہے
جواں ہوتے ہی اپنی الگ دنیا بنا ڈالی
سبھی بیٹوں نے اپنی جنت خود سجا ڈالی
نمایاں جن میں جنت ہے بُھلا کر ایسے قدموں کو
نئے گھر کی طرف لے کر چلے سب اپنے بچوں کو
مگر جب بوڑھی امی اور ابّو کا سوال آیا
کسی نے باپ کو رکھا کسی نے ماں کو اپنایا
کسی نےبھی نہ سوچا باپ ماں کو ساتھ رکھا جائے
اِنہیں اس عمر کی دہلیز پر تنہا نہ چھوڑا جائے
بہت پُر درد و پُر نم تھا سماں ماں باپ کی خاطر
بہت ہی سخت تھا وہ امتحاں ماں باپ کی خاطر
بہت مشکل تھا یہ لیکن الگ رہنا پڑا اُن کو
بُڑھاپے میں بھی بچھڑنے کا غم سہنا پڑا اُن کو
-----------------------------
یہ منظر دیکھ کر آنکھیں ہماری ڈُبڈبائی ہیں
وہ لکھنا چاہتے ہیں ذہن میں باتیں جو آئی ہیں
جو اب دِل کہہ رہا ہے ہم اُسے تحریر کرتے ہیں
قلم کو تیغ کرتے ہیں زباں کو تیر کرتے ہیں
وہ بیٹے کثرتِ دولت سے جن کے جسم اینٹھے ہیں
جو اپنا فرض اپنی ذمہ داری بھول بیٹھے ہیں
سبھی اُن بے حِسوں کا بُرا انجام ہونا ہے
اُنہیں تو زندگی میں ایک دن ناکام ہونا ہے
جو فطرت اُن کی ہےاُولاد میں بھی پائی جائے گی
کہانی ظلم کی اک بار پھر دہرائی جائے گی
حیا سے اُس گھڑی وہ لوگ اپنا سر جُھکا لیں گے
کہ جب اُن کے جواں بیٹے اُنہیں گھر سے نکالیں گے
طاہر فراز