حسان خان
لائبریرین
نوائی کی ادبی میراث
نظام الدین علی شیر نوائی نے زبانِ فارسی میں اکتسابِ علم و دانش کیا تھا، اور ساتھ ہی وہ زبانِ عربی کو بھی بخوبی جانتے تھے۔ وہ حیرت انگیز قابلیت و استعداد کے حامل تھے۔ مختلف علوم میں تبحر اور بہت سے فارسی گو شاعروں کے ابیات کے گہرے مطالعے نے نوائی کی آنکھیں شعر و شاعری کی شاہراہ کی جانب کھول دی تھیں۔ علاو بریں، وہ عبدالرحمٰن جامی جیسا استاد رکھتے تھے، جنہوں نے نوائی کی تخلیقی پیشرفت میں قیمتی حصہ ڈالا۔ نوائی نے عہدِ طفولیت ہی سے شعر گوئی کا آغاز کر دیا تھا۔ وہ فارسی اور ترکی دونوں زبانوں میں اشعار کہتے تھے۔ انہوں نے اپنی فارسی شاعری میں 'فانی' جبکہ ترکی شاعری میں 'نوائی' کا تخلص منتخب کیا۔ چونکہ وہ دو زبانوں میں شعر گوئی اور تصنیفات کی انشا کرتے تھے، اس لیے اُن کے ہم عصروں نے اُنہیں 'ذواللسانین' یعنی صاحبِ دو زبان کا اضافی لقب دے رکھا تھا۔
علی شیر نوائی نے اپنی اکثر تصنیفات اپنی مادری زبان ترکی میں تحریر فرمائی تھیں۔ نوائی کے زمانے تک ترکی-ازبکی زبان میں بڑے حجم کی فلسفیانہ، اخلاقی، اور عشقی داستانوں کی تخلیق ناممکن سمجھی جاتی تھی۔ نوائی وہ اولین شخص تھے جنہوں نے اس نظریے کو نادرست شمار کیا، اور اس بات کے اثبات کے لیے وہ ترکی زبان میں پانچ منظوم داستانیں رشتۂ تحریر میں لے کر آئے۔ نوائی نے وہ پانچ داستانیں نظامی گنجوی اور امیر خسرو دہلوی کے 'خمسوں' اور عبدالرحمٰن جامی کی 'ہفت اورنگ' کی پیروی میں انشا کی تھیں۔ اس بارے میں خود نوائی اپنی مثنوی 'حیرت الابرار' میں یہ کہتے ہیں:
(ترکی متن)
فارسی اولدی چو آلارغا ادا
ترکی ایله قیلسَم آنی ابتدا
فارسی ایل تاپتی چو خورسندلیق
ترک داغی تاپسه برومندلیق
من که طلب یولیده قویدُم قدم
باردُر امیدیم که چو توتسَم قلم
یولداسه، بو یولده نظامی یولُم
قولداسه، خسرو بیله جامی قولُم
(منظوم فارسی ترجمہ)
فارسی چون گشت بر ایشان ادا
ترکی کنم، نیست عجب ابتدا
فارس چو خورسند شد از آن گهر
ترک هم ار شاد شود، خوبتر
من، که در این راه نهادم قدم
هست امیدم، چو بگیرم قلم
راهبری کرده نظامی مرا
یار شود خسرو و جامی مرا
اردو ترجمہ: (یہ داستانیں) جب لوگوں کے سامنے فارسی میں کہی جا چکیں تو میں نے انہیں ترکی میں کہنا شروع کیا، تاکہ جس طرح فارسی گو حضرات اُنہیں پڑھ کر شاد ہوئے تھے اُسی طرح ترک بھی ان داستانوں سے تمتع حاصل کریں۔ میری ذات کو، کہ جو اس راہ میں قدم رکھ چکی ہے، امید ہے کہ جب میں ہاتھ میں قلم پکڑوں گا تو اس راہ پر میری راہبری نظامی کریں گے جبکہ خسرو اور جامی میری دست گیری فرمائیں گے۔
خمسۂ نوائی میں شامل مثنویوں کے نام:
۱. حیرت الابرار، ۱۴۸۳ء
۲. لیلی و مجنون، ۱۴۸۳ء
۳. فرہاد و شیرین، ۱۴۸۴ء
۴. سبعۂ سیارہ، ۱۴۸۴ء
۵. سدِّ اسکندری، ۱۴۸۵ء
'خمسہ' کے کُل ابیات کی تعداد ستائیس ہزار سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ، چوبیس ہزار ابیات پر مشتمل اُن کے چار ترکی-ازبکی دیوان ہیں جن میں شاعر کے تمام غنائی اشعار جمع کیے گئے ہیں۔ لسان الطیر، پندنامہ، چہل حدیث اور محبوب القلوب نامی مثنویاں بھی ان کے قلم سے تعلق رکھتی ہیں۔ اسی طرح، نوائی نے اپنی مادری زبان میں اپنے معاصر ادیبوں کی حیات اور تالیفات کے بارے میں 'مجالس النفائس' اور عروضی قواعد و قوانین سے متعلق 'میزان الاوزان' نامی کتابیں بھی تخلیق کی ہیں۔
(وزارتِ معارفِ تاجکستان کی شائع کردہ نصابی کتاب 'ادبیاتِ تاجک: کتابِ درسی برائے صنفِ نہم' سے اقتباس اور ترجمہ)
نظام الدین علی شیر نوائی نے زبانِ فارسی میں اکتسابِ علم و دانش کیا تھا، اور ساتھ ہی وہ زبانِ عربی کو بھی بخوبی جانتے تھے۔ وہ حیرت انگیز قابلیت و استعداد کے حامل تھے۔ مختلف علوم میں تبحر اور بہت سے فارسی گو شاعروں کے ابیات کے گہرے مطالعے نے نوائی کی آنکھیں شعر و شاعری کی شاہراہ کی جانب کھول دی تھیں۔ علاو بریں، وہ عبدالرحمٰن جامی جیسا استاد رکھتے تھے، جنہوں نے نوائی کی تخلیقی پیشرفت میں قیمتی حصہ ڈالا۔ نوائی نے عہدِ طفولیت ہی سے شعر گوئی کا آغاز کر دیا تھا۔ وہ فارسی اور ترکی دونوں زبانوں میں اشعار کہتے تھے۔ انہوں نے اپنی فارسی شاعری میں 'فانی' جبکہ ترکی شاعری میں 'نوائی' کا تخلص منتخب کیا۔ چونکہ وہ دو زبانوں میں شعر گوئی اور تصنیفات کی انشا کرتے تھے، اس لیے اُن کے ہم عصروں نے اُنہیں 'ذواللسانین' یعنی صاحبِ دو زبان کا اضافی لقب دے رکھا تھا۔
علی شیر نوائی نے اپنی اکثر تصنیفات اپنی مادری زبان ترکی میں تحریر فرمائی تھیں۔ نوائی کے زمانے تک ترکی-ازبکی زبان میں بڑے حجم کی فلسفیانہ، اخلاقی، اور عشقی داستانوں کی تخلیق ناممکن سمجھی جاتی تھی۔ نوائی وہ اولین شخص تھے جنہوں نے اس نظریے کو نادرست شمار کیا، اور اس بات کے اثبات کے لیے وہ ترکی زبان میں پانچ منظوم داستانیں رشتۂ تحریر میں لے کر آئے۔ نوائی نے وہ پانچ داستانیں نظامی گنجوی اور امیر خسرو دہلوی کے 'خمسوں' اور عبدالرحمٰن جامی کی 'ہفت اورنگ' کی پیروی میں انشا کی تھیں۔ اس بارے میں خود نوائی اپنی مثنوی 'حیرت الابرار' میں یہ کہتے ہیں:
(ترکی متن)
فارسی اولدی چو آلارغا ادا
ترکی ایله قیلسَم آنی ابتدا
فارسی ایل تاپتی چو خورسندلیق
ترک داغی تاپسه برومندلیق
من که طلب یولیده قویدُم قدم
باردُر امیدیم که چو توتسَم قلم
یولداسه، بو یولده نظامی یولُم
قولداسه، خسرو بیله جامی قولُم
(منظوم فارسی ترجمہ)
فارسی چون گشت بر ایشان ادا
ترکی کنم، نیست عجب ابتدا
فارس چو خورسند شد از آن گهر
ترک هم ار شاد شود، خوبتر
من، که در این راه نهادم قدم
هست امیدم، چو بگیرم قلم
راهبری کرده نظامی مرا
یار شود خسرو و جامی مرا
اردو ترجمہ: (یہ داستانیں) جب لوگوں کے سامنے فارسی میں کہی جا چکیں تو میں نے انہیں ترکی میں کہنا شروع کیا، تاکہ جس طرح فارسی گو حضرات اُنہیں پڑھ کر شاد ہوئے تھے اُسی طرح ترک بھی ان داستانوں سے تمتع حاصل کریں۔ میری ذات کو، کہ جو اس راہ میں قدم رکھ چکی ہے، امید ہے کہ جب میں ہاتھ میں قلم پکڑوں گا تو اس راہ پر میری راہبری نظامی کریں گے جبکہ خسرو اور جامی میری دست گیری فرمائیں گے۔
خمسۂ نوائی میں شامل مثنویوں کے نام:
۱. حیرت الابرار، ۱۴۸۳ء
۲. لیلی و مجنون، ۱۴۸۳ء
۳. فرہاد و شیرین، ۱۴۸۴ء
۴. سبعۂ سیارہ، ۱۴۸۴ء
۵. سدِّ اسکندری، ۱۴۸۵ء
'خمسہ' کے کُل ابیات کی تعداد ستائیس ہزار سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ، چوبیس ہزار ابیات پر مشتمل اُن کے چار ترکی-ازبکی دیوان ہیں جن میں شاعر کے تمام غنائی اشعار جمع کیے گئے ہیں۔ لسان الطیر، پندنامہ، چہل حدیث اور محبوب القلوب نامی مثنویاں بھی ان کے قلم سے تعلق رکھتی ہیں۔ اسی طرح، نوائی نے اپنی مادری زبان میں اپنے معاصر ادیبوں کی حیات اور تالیفات کے بارے میں 'مجالس النفائس' اور عروضی قواعد و قوانین سے متعلق 'میزان الاوزان' نامی کتابیں بھی تخلیق کی ہیں۔
(وزارتِ معارفِ تاجکستان کی شائع کردہ نصابی کتاب 'ادبیاتِ تاجک: کتابِ درسی برائے صنفِ نہم' سے اقتباس اور ترجمہ)