امیر مینائی امیر مینائی کی نعتیہ رباعیات

حسان خان

لائبریرین
گذرے سرِ عرش جب جنابِ والا
اللہ رے شوقِ دیدِ قدِ بالا
طوبیٰ نے یہ سر اٹھا کے حسرت سے کہا
مضمونِ قیامت گیا بالا بالا

دل بزمِ محبت میں ادیب اپنا ہے
عشاق میں کیا خوب نصیب اپنا ہے
سب عشق مجازی ہیں حقیقی ہے یہ عشق
اللہ کا محبوب حبیب اپنا ہے

ہوں دل سے فدائے رخِ نیکوئے نبی
یا رب مری آنکھوں کو دکھا روئے نبی
سجدے بھی کروں سند شفاعت کی بھی لوں
سر پاؤں پہ ہو ہاتھ میں گیسوئے نبی

احمد کو شرف خدائے سرمد سے ملا
اعزاز سب انبیا کو احمد سے ملا
جاں بخشیِ عیسیٰ، یدِ بیضائے کلیم
جو کچھ جس کو ملا محمد سے ملا

ہیں زیرِ مزار خوابِ راحت میں حضور
اب بھی ہے مگر فیض سے عالم معمور
یہ سرِ خفی ہے عین اعلان و ظہور
فانوس میں شمع ساری محفل میں ہے نور

عیش آپ کی الفت میں فراواں پایا
بند آنکھ ہوئی روضۂ رضواں پایا
کیونکر نہ ہمیں داغِ محبت ہو عزیز
اِس پھول کے فیض سے گلستاں پایا

لکھا ہے مدینے کو محبت نامہ
آ جائے گا آج کل عنایت نامہ
مر جاؤں اگر میں اُس کے آتے آتے
رکھ دو وہ مزار میں شہادت نامہ

ہے مدحتِ شہ وردِ زبانِ خامہ
ہے اور سے اور اب تو شانِ خامہ
برگِ شجرِ طور ضیا سے ہے ورق
ہے طور کا شعلہ کہ لسانِ خامہ

اعجاز بھری آنکھوں کا جلوہ دیکھوں
یا ناز بھرا قامتِ زیبا دیکھوں
سر تا بقدم حُسن میں تو یکتا ہے
حیراں ہوں کہ دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں

اِس عشق سے خنداں گلِ امید ہوا
مرقد بھی مجھے روضۂ جاوید ہوا
اللہ رے یادِ روئے حضرت کا اثر
ہر ذرہ مری خاک کا خورشید ہوا

مجرم جو مجھے حشر میں پائیں گے نبی
لب حرفِ شفاعت میں ہلائیں گے نبی
عاشق کہلا کے میں جلوں دوزخ میں
بخشا ہے شرف تو بخشوائیں گے نبی

جاؤں گا میں مجرم جو سوئے باغِ جناں
سب میری طرف دیکھ کے ہوں گے حیراں
پوچھیں گے جو قدسی تو کہے گا رضواں
بھیجا ہوا احمد کا یہ آیا ہے مہماں

کیا عشقِ نبی میں ہم نے پایہ پایا
رحمت کا خطِ جبیں کو آیہ پایا
راحت ہوئی مرگ و زندگی میں حاصل
خورشید یہاں عدم میں سایہ پایا

صد شکر کہ نزع میں بھی آئے حضرت
تشریف جنازے پہ بھی لائے حضرت
محفوظ عذابِ قبر سے ہوں میں کہ ہے
تعویذ لحد کا نقشِ پائے حضرت

جاری ہے زباں پر صفتِ شاہِ امم
لکھتا ہے قلم بھی یہی مدحت ہر دم
خالق نے کیا ہے فیضِ حضرت سے مجھے
اقلیمِ سخن میں صاحبِ سیف و قلم

مقصود نہیں ہے چترِ شاہی میرا
مطلوب نہیں ہے کج کلاہی میرا
یا ختمِ رسل زباں پہ ہو وقتِ اخیر
ہو خاتمہ بالخیر الٰہی میرا

اے راہ رَوِ مرحلۂ صدق و صفا
یثرب کو رواں ہو خواہ سوئے بطحا
کعبہ ہے وہی روضۂ حضرت ہے وہی
رستہ ہے ایک کچھ ہے نیچا اونچا

اعزازِ مدینہ شرفِ عرشِ علا
دانش کی ترازو میں جو اک دن تولا
پلہ تو مدینے کا رہا روئے زمیں
اور پلۂ عرش آسمان سے اونچا

مجرم ہوں گناہگار ہوں خاطی ہوں
کس منہ سے کہے امیر میں ناجی ہوں
ہاں ایک خیال ہے کہ خالق ہے کریم
تم شافعِ عاصیاں ہو میں عاصی ہوں

(امیر مینائی)
 
آخری تدوین:
Top