امین، بدعنوان اور بدصورت


السٹریشن — خدا بخش ابڑو –.

پاکستان اپنے قیام سے لیکر ابتک “امین” (دیانتدار) سیاستدانوں کی تلاش میں ہے- اقتدار کے ایوانوں میں فرشتوں کو چلتے پھرتے دیکھنے (معاف کیجئے اڑتے دیکھنے) کی خواہش بدستور جاری ہے- آپ ان نیک خواہشات سے ہمدردی کئے بغیر نہیں رہ سکتے- لیکن پیشتر اس کے کہ آپ اس تلاش میں شامل ہوجائیں میں آپ کی توجہ چند چھوٹی چھوٹی باتوں کی جانب دلانا چاہونگا-
ملک کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیجئے تو آپ کو ہر دوسرے صفحے پر سیاستدانوں کی بدعنوانیوں کا ذکر ملیگا اور اگلے ہی صفحے پر آپ کو یہ بھی بتایا جائیگا کہ ان پر قابو پانے، ان کی اصلاح کرنے یا ان کا خاتمہ کرنے کیلئے کس قسم کی کوششوں کی ضروت ہے-​
اگرآپ پورے متن کو پڑھ لیں تو آپ محسوس کرینگے کہ یہ کشمکش اور جھگڑوں کی ایسی داستان ہے جو بحرانوں، سازشوں اور جبر و استبداد کی مطلق العنان کارروائیوں سے بھری ہوئی ہے- لیکن خوش قسمتی سے ہم ہمیشہ ایسے ریاستی اداروں کے حامل رہے ہیں جو لالچی طالع آزما سیاستدانوں کی زیادتیوں کے خلاف ہمارے عظیم تر قومی مفادات کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دیتے آئے ہیں-​
ان محترم اور حسّاس سیاسی اداروں کا پسندیدہ طریقہء کار یہی رہا ہے کہ سیاستدانوں سے لاحق خطرے پر قابو پانے کیلئے نااہلیت کا نظریہ استعمال کیا جائے- اس کی ابتدا 1949 سے ہی ہوچکی تھی جبکہ قانون ساز اسمبلی نے پبلک اینڈ ریپریزنٹیٹو آفیسر ڈسکوالیفکیشن ایکٹ منظور کیا جسے ہم پیار سے “پروڈا” کہتے ہیں-​
مسلم لیگ کی نیم جمہوری حکومت کو جس کے وزیر اعظم لیاقت علی خان تھے ایک طرف تو براہ راست انتخاب کے خطرے کا سامنا تھا تو دوسری طرف “صوبائیت” کے طاقتور چیلنج سے نمٹنے کا- اسے ایک ایسے ہتھیار کی ضرورت تھی جس کے ذریعہ سازشی عناصر کو قابو کیا جا سکے- چنانچہ “پروڈا” کا بے دریغ استعمال کیا گیا-​
اس قانون کے ذریعہ سیاستدانوں کو دس برس کیلئے نااہل قرار دیا جاسکتا تھا- لیکن غالباً حکمرانوں میں اس ہتھیار کو پراثر طور پر استعمال کرنے کی صلاحیت موجود نہ تھی چنانچہ یہ خرابی بدستور جاری رہی- اس ہتھیار کو موثر طور پر استعمال نہ کرنے کی دوسری وجہ غالباً یہ تھی کہ اس وقت تک عظیم تر قومی مفادات کے نظریے نے اتنی اہمیت اختیار نہ کی تھی، کیونکہ وہ ابھی اپنے ابتدائی مرحلے میں تھا-​
جیسے جیسے ابتدائی مسائل پر قابو پا لیا گیا ایک زیا دہ مہلک ہتھیار کی ضرورت محسوس کی جانے لگی- چنانچہ جنرل ایوب نے ایلیکٹو باڈیز ڈسکوالیفکیشن آرڈر کا قانون نافذ کر دیا جسے ایبڈو کہا جاتا ہے اور اسکا مقصد یہ تھا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق سیاستدانوں کو نااہل قرار دے سکیں-​
1959 میں ایبڈو ٹریبونل قائم کئے گئے جس کے ذریعہ سیاستدانوں پر دسمبر 1966 تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی عاید کر دی گئی- اس تاریخ کا تعین کسی غورو فکر پر مبنی نہ تھا- لیکن سیاسی منصوبہ بنانے والے ہمارے فوجی دانشوروں کا خیال تھا کہ ایبڈو زدہ سیاستدان اس تاریخ تک بہرحال اپنی افادیت کھو بیٹھیں گے-​
اس کے علاوہ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ خود انکے ڈربوں میں “امین” سیاستدانوں کا ایک پورا غول تیار ہو جائیگا جو سابقہ بد نیت سیاستدانوں کی جگہ لیگا- اوربلا شبہ ان ڈربوں میں نئی قسم کا ایک پورا غول تیار ہوگیا- ابتدا میں تو یہ بڑی حد تک “امین” نظر آتے تھے لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وہ بھی تنگ ظرف ثابت ہوئے اور مزید ستم ظریفی یہ ہوئی کہ اب ان کے درمیان ایک بدصورت بطخ کا بچہ بھی پیدا ہوگیا-​
چنانچہ، پہلا تجربہ تلخ ثابت ہوا- لیکن اس خواہش سے دستبردار ہونا مشکل تھا کہ ملک پر فرشتوں کی حکومت قائم ہو- جنرل ضیاء نے اس کام کو زیادہ پیشہ ورانہ طور پر انجام دینے کا فیصلہ کیا- اس نے ایسے ماہرین کثیر تعداد میں بھرتی کئے جو نہ صرف اخلاقی اقدار کو متعین کرنے کے فن میں یکتا تھے بلکہ ہر شخص کے اخلاقیات کے ریکارڈ کو جمع کرنے کے کام میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے-​
یہ اپنے فن کے ایسے ماہر تھے کہ کسی مرد کی داڑھی کے سائز کو یا کسی عورت کے “ڈوپٹہ” کو دیکھ کر کہ وہ کس حد تک اس کے جسم کو چھپاتا ہے ان کے کردار پر رائے زنی کر سکتے تھے- اسے اب “احتساب” کا نام دیا گیا اور جنرل اور اس کے ماہرین نے قانونی ہتھیاروں کا ایک ایسا پورا صندوقچہ تیار کر لیا جو اس کام کو انتہائی صحت کے ساتھ انجام دے سکتا تھا- ان میں شق 62 اور 63 بھی شامل ہے جس پر پڑی ہوئی گرد کو حال ہی میں صاف کیا گیا ہے-​
علاوہ ازیں اس قانون کے تحت سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی- عوام کے سامنے بد عنوان سیاستدانوں کو کوڑے ما رنے کی سزا رکھی گئی تھی اور انتخابات پر پابندی عائد کردی گئی تھی- اسنے اس بدصورت بطخ کے بچے کو بھی پھانسی کی سزا لگوادی تاکہ دنیا کو پتہ چل جائے کہ وہ اپنے عزم پر کس حد تک قائم تھا-​
لیکن بد قسمتی سے یہ تجربہ بھی کچھ مختلف ثابت نہ ہوا- ابتدا میں تو ان کے طور طریقے درست تھے لیکن بعد میں انہوں نے بھی اپنے رنگ بدلے اور اب ایک سے بھی زیادہ بدصورت چوزے پیدا ہوچکے تھے- لیکن اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا عظیم تر قومی مفاد ان بظاہر ناکام کوششوں کے سامنے پسپا ہو چکا تھا تو آپ غلطی پر ہیں- اخلاق کے داڑھی والے آقاؤں کی جگہ بغیر داڑھی والے عزت و حرمت کے علم برداروں نے لے لی-​
آج علم سیاست کے شعبے میں بھی نمایاں ترقی رونما ہوچکی ہے اور اب ہم اس لائق ہوچکے ہیں کہ سیاسی پارٹیوں کا ڈی این اے تیار کریں، بد عنوان جینز کی نشان دہی کریں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اب ہم کہیں اور سے “امین” جینز حاصل کرکے ان پارٹیوں میں ٹرانسپلانٹ کر سکتے ہیں- اگر کسی پارٹی کا خودکار حفاظتی نظام انہیں قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے تو اس “امین حصے” کی ایک علیحدہ نسل بنائی جاسکتی ہے- سو اب اسے جواب دہی (اکاونٹیبلیٹی) کا نام دیا گیا-​
تاہم ، سیاسی تھیٹر کا یہ سائنسی ڈرامہ 2002 ہی تک جاری رہ سکا- جینیٹک انجینئرنگ بری طرح ناکام ہوگئی اور وہ پارٹیاں بھی جن میں “امین” جینز ٹرانسپلانٹ کئے گئے تھے کم ظرف نکلیں بلکہ ان میں مزید بدصورت باغی نمودار ہونے لگے-​
اب کیا ہو؟ پینسٹھ سال کا طویل عرصہ انتہائی تھکا دینے والا ثابت ہوچکا ہے- لیکن یہ سمجھنا آپ کی بڑی غلطی ہوگی کہ قومی مفاد کا ہتھیاراب کمزور پڑ چکا ہے- یہ بات الگ ہے کہ اب اسے بڑی عجیب و غریب صورت حال کا سامنا ہے لیکن کوششیں جاری رہینگی-​
قادری ان لوگوں کی راہ میں بہت بڑا کانٹا تھا جن کی زندگی کا گراف بصورت دیگراعلیٰ اخلاقی اقدار کا حامل تھا- انتخابات سے پہلے ہمیں اس قسم کے مزید اعلیٰ ڈرامائی مثالوں کو دیکھنے کا موقع ملیگا-​
عوام کے نمائندوں کی چھان پھٹک اعلیٰ معیارات کی کسوٹی پر ہونی چاہئے- اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں- تاہم، مسئلہ یہ ہے کہ آخر ہم کیوں عوام کو اس بات کا موقع نہیں دے سکتے کہ وہ اپنے ووٹ کے ذریعہ اس کا فیصلہ کریں- آخر بعض ریاستی اداروں نے عوام کے نام پر یہ ذمہ داری کیوں اٹھالی ہے اور وہ کیوں انتخاب سے پہلے منتخب کرنے کی راہ پر گامزن ہیں؟​
کیا جمہوریت کا مطلب یہ نہیں کہ عوام اپنے رہنماؤں کوخود اپنے مقرر کردہ معیارات کی کسوٹی پر پرکھیں؟ اگر عوام ایسے فرد کو منتخب کرتے ہیں جو دوسروں کو نظر میں انکے مطلوبہ اخلاقی معیارات کے مطابق نہیں ہے تو پھر مجھے ایسے معیارات قبول نہیں ہیں اور نہ ہی وہ افراد جنہوں نے ان معیارات کا تعین کیا ہے-​
میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ان معیاروں کو متعین کرنے والوں کا تعلق اہل ایمان سے نہیں ہے اور ہماری ساری تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس ٹولے کو جمہوری عمل کے راستے میں روڑے اٹکانے کیلئے استعمال کیا گیا-​
اخلاقی لحاظ سے باکردار امیدواروں کے سلسلے میں جو شور و غوغا بلند ہو رہا ہے اور جمہوری عمل کو کمزور کرنے کی کوششیں ایک دوسرے سے مربوط ہیں- پہلی قانون سازاسمبلی کا انتخاب براہ راست نہیں ہوا تھا اور اس کے تحت جو حکومت قائم ہوئی تھی اسے جمہوریت سے کوئی لگاؤ نہ تھا- اور اسی نے سیاست کو شفاف بنانے کیلئے پروڈا کا قانون بنایا تھا-​
ایوب خان سمجھتے تھے کہ ناخواندہ اور غریب عوام کو ووٹ دینے کا حق نہیں ملنا چاہئے اور انہوں نے ایبڈو کا قانون بنا کر سیاستدانوں کو نشانہ بنایا تھا- ضیاء نے احتساب کا قانون بنایا اور ان کے دور میں 1985 میں ہونے والےغیر جماعتی انتخابات جمہوریت کے چہرے پر ایک وار تھے- جواب دہی کے نعرے کو مشرف نے بھی بےدریغ استعمال کیا اور سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی- سمجھ لیجئے اب جو ہورہا ہے محض اتفاق نہیں ہے-​
اب چونکہ متوقع انتخابات کی نگرانی کیلئے کوئی اعلیٰ محافظ موجود نہیں لہٰذا شق 62 اور 63 کو ہتھیار کے طور پر عظیم تر قومی مفاد کی سیاسی راہ متعین کرنے کے لئے لہرایا جا رہا ہے- ریاست کو فوجیانے (ملٹرائیزیشن) سے لے کر جمہوریت کو اخلاقی لبادہ پہنانے کی کوشش —— کیا یہی وہ مجموعی فاصلہ ہے جو اس ملک کی سیاست نے طے کیا ہے؟​
تحریر:طاہر مہدی​
ترجمہ:سیدہ صالحہ​
 

قیصرانی

لائبریرین
کافی جذباتی لیکن بے مغز لگی تحریر۔ فوج پر تو چلیئے تبرا بھیج دیا، سیاست دانوں میں سے کون ایسا اُجلے کردار کا مالک ہے جس کی تعریف کی جا سکے؟ کسی ایک ایسے سیاست دان کا نام بتا دیں جس پرکسی دوسرے کو کوئی اعتراض یا الزام نہ ہو؟
 

مقدس

لائبریرین
میں بھی یہی دیکھنا آئی تھی کہ امین بھیا تو اچھے خاصے ہینڈسم ہیں۔۔ یہ ان کو بدصورت کس خوشی میں کہا جا رہا ہے :rollingonthefloor:
 

سید زبیر

محفلین
بھائی جب تک میں یعنی زبیر صحیح نہیں ہوتا ، وہ صرف اسی قوت ایمانی پر تکیہ کیے ہئے بیٹھا ہے کہ کم از کم میں برائی کو دل میں برا سمجھتا ہوں ۔ حالات زوال پذیر ہی رہیں گے ۔ اللہ مجھے اتنی قوت ضرور دے کہ میں ظلم کے سامنے کھڑا ہو سکوں لیکن وہی بات کہ جو سگنل پر کھڑا نہیں ہوتا وہ ظلم کے خلاف کیا کھڑا ہوگا ۔ قحط الرجال اسی کو کہتے ہیں ۔ رحم کن یا ارحم الرٰحمین
 
Top