ام الکتاب (مولانا ابولکلام آزاد)۔ ص 61-65

فرحت کیانی

لائبریرین
ام الکتاب
ص 61
تک یہ عقدہ حل نہ کر سکیں! فلسفہ و نظر جب بھی اس حد تک پہنچا، دم بخود ہو کر رہ گیا۔
لیکن قرآن کہتا ہے یہ اس لئے ہے کہ فطرت کائنات میں رحمت ہے اور رحمت کا مقتضیٰ یہی ہے کہ خوبی اور درستگی ہو، بگاڑ اور خرابی نہ ہو۔
انسان کے علم و دانش کی کاوشیں بتلاتی ہیں کہ کائنات ہستی کا یہ بناؤ اور سنوار عناصر اولیہ کی ترکیب اور ترکیب کے اعتدال و تسویہ کا نتیجہ ہے۔ مادۂ عالم کی کمیت میں بھی اعتدال ہے، کیفیت میں بھی اعتدال ہے۔ یہی اعتدال ہے جس سے سب کچھ بنتا ہے اور جو کچھ بنتا ہ، خوبی اور کمال کے ساتھ بنتا ہے۔ یہی اعتدسال و تناسب دنیا کے تمام تعمیری اور ایجابی حقائق کی اصل ہے۔ وجود، زندگی، تندرستی، حس، خوشبو، نغمہ۔ ۔ ۔ بناؤ اور خوبی کے بہت سے نام ہیں، مگر حقیقت ایک ہی ہے اور وہ اعتدال ہے۔
لیکن فطرت کائنات میں یہ اعتدال و تناسب کیوں ہے؟ کیوں ایسا ہے کہ عناصر کے دقائق جب ملیں اعتدال و تناسب کے ساتھ ملیں اور مادہ کا خاصہ یہی ٹھہرا کہ اعتدال و تناسب ہو، انحراف اور تجاوز نہ ہو؟ انسان کا علم دم بخود اور متحیر ہے، لیکن قرآن کہتا ہے: یہ اس لئے ہوا کہ خالق کائنات میں رحمت ہے اور اس لیے کہ اس کی رحمت اپنا ظہور بھی رکھتی ہے، اور جس میں رحمت ہو اور اس کی رحمت طہور بھی رکھتی ہو تو جو کچھ اس سے صادر ہو گا، اس میں خوبی و بہتری ہی ہو گی، حسن و جمال ہی ہوگا، اعتدال و تناسب ہی ہو گا، اس کے خلاف کچھ نہیں ہو سکتا۔ فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ تعمیر و تحسین فطرت کائنات کا خاصہ ہے۔ خاصۂ تحسین چاہتا ہے کہ جو کچھ بنے خوبی و کمال کے ساتھ بنے، اور یہ دونوں خاصے "قانون ضرورت" کا نتیجہ ہیں۔ کائنات ہستی کے ظہور و تکمیل کے لیے ضرورت تھی کہ تعمیر ہو اور ضرورت تھی کہ جو کچھ تعمیر ہو حسن و خوبی کے ساتھ تعمیر ہو۔ یہی "ضرورت" بجائے خود ایک علت ہو گئی اور اس لیے فطرت سے جو کچھ بھی ظہور میں آتا ہے ویسا ہی ہوتا ہے جیسا ہونا ضروری تھا۔ لیکن اس تعلیل سے بھی تو یہ عقدہ حل نہیں ہوا، سوال جس منزل میں تھا اس سے صرف ایک منزل اور آگے بڑھ گیا۔ تم کہتے ہو یہ جو کچھ ہو رہا ہے اس لیے ہے کہ "ضرورت" کا قانون موجود ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ "ضرورت" کا قانون کیوں موجود ہے؟ کیوں یہ ضروری ہوا کہ جو کچھ ظہور میں آئے "ضرورت" کے مطابق ہو اور
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 62

"ضرورت" اسی بات کی متقضیٰ ہوئی کہ خوبی اور درستگی ہو، بگاڑ اور برھمی نہ ہو؟ انسانی علم کی کاوشیں اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں۔ ایک مشہور فلسفی کے لفظوں میں "جس جگہ سے یہ کیوں شروع ہو جائے سمجھ جاؤ کہ فلسفی کے غور و خوض کی سرحد ختم ہو گئی" لیکن قرآن اسی سوال کا جواب دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے: یہ "ضرورت" رحمت اور فضل کی "ضرورت" ہے رحمت چاہتی ہے کہ جو کچھ ظہور میں آئے بہتر ہو اور نافع ہو اور اس لیے جو کچھ ظہور میں آتا ہے بہتر ہوتا ہے اور نافع ہوتا ہے!
پھر یہ حقیقت بھی واضح رہے کہ دنیا میں زندگی اور بقاء کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے، جمال و زیبائش ان سے ایک زائد تر فیضان ہے۔ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ جمال و زیبائش بھی یہاں موجود ہے، پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سب کچھ قانون ضرورت ہی کا نتیجہ ہے۔ ضرورت، زندگی اور بقاء کا سروسامان چاہتی ہے، لیکن زندہ اور باقی رہنے کے لیے جمال زیبائش کی کیا ضرورت ہے؟ اگر جمال و زیبائش بھی یہاں موجود ہے تو یقینا یہ فطرت کا ایک مزید لطف و احسان ہے۔ اور اس سے معلوم ہوتا ہے فطرت صرف زندگی ہی نہیں بخشتی، بلکہ زندگی کو حسین و لطیف بھی بنانا چاہتی ہے۔ پس یہ محض زندگی کی ضرورت کا قانون نہیں ہو سکتا۔ یہ اس "ضرورت" سے بھی کوئی بالاتر "ضروت" ہے جو چاہتی ہے کہ مرحمت اور فیضان ہو۔ قرآن کہتا ہے: یہ رحمت کی "ضرورت" ہے۔ اور رحمت کا مقتضیٰ یہی ہے کہ وہ سب کچھ ظہور میں آئے جو رحمت سے ظہور میں آنا چاہئیے:
قُل لِّمَن مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ قُل لِّلَّ۔هِ ۚ كَتَبَ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ط
(12:6)
(اے پیغمبر! ان لوگوں سے) پوچھو۔ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے، وہ کس کے لیے ہے؟ (اے پیغمبر!) کہہ دے: اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے لیے ضروری ٹھہرا لیا ہے کہ رحمت ہو۔
وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚط
(156:7)
اور میری رحمت دنیا کی ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 63
افادہ و فیضان فطرت:
اس سلسلہ میں سب سے پہلی حقیقت جو ہمارے سامنے نمایاں ہوتی ہے، وہ کائنات ہستی اور اس کی تمام اشیاء کا افادہ و فیضان ہے۔ یعنی ہم دیکھتے ہیں کہ فطرت کے تمام کاموں میں کامل نظم و یکسانیت کے ساتھ مفید اور بکار آمد ہونے کی خاصیت پائی جاتی ہے۔ اور اگر بحثیت مجموعی دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے گویا یہ تمام کارگاہ عالم صرف اسی لیے بنا ہے کہ ہمیں فائدہ پہنچائے اور ہماری حاجت روائیوں کو ذریعہ ہو:
وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴿١٣﴾
(13:45)
اور آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے، وہ سب اللہ نے اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے (یعنی ان کی قوتیں اور تاثیریں اس طرح تمہارے تصرف میں دے دی گئی ہیں کہ جس طرح چاہو ان سے کام لے سکتے ہو)
بلاشبہ ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں، اس بات میں (معرفت حق کی) بہترین نشانیاں ہیںؔ۔18

ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات ہستی میں جو کچھ بھی موجود ہے اور جو کچھ ظہور میں آتا ہے، اس میں ہر چیز کوئی نہ کوئی خاصہ رکھتی ہے اور ہر حادثہ کی کوئی نہ کوئی تاثیر ہے۔ اور پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ تمام خواص مؤثرات کچھ اس طرح واقع ہوئے ہیں کہ ہر خاصہ ہماری کوئی نہ کوئی ضرورت پوری کرتا اور ہر تاثیر ہمارے لیے کوئی نہ کوئی فیضان رکھتی ہے۔ سورج، چاند، ستارے، ہوا، بارش، دریا، سمندر، پہاڑ۔ سب کے خواص و فوائد ہیں اور سب ہمارے لیے طرح طرح کی روحتوں اور آسائشوں کا سامان بہم پہنچا رہے ہیں:
اللَّ۔هُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَارَ ﴿٣٢﴾ وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَيْنِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ﴿٣٣﴾وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۚ وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّ۔هِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ ﴿٣٤﴾
(32-34: 14)
یہ اللہ ہی کی کارفرمائی ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 64
برسایا، پھر اس کی تاثیر سے طرح طرح کے پھل تمہاری غذا کے لیے پیدا کر دیئے اسی طرح اس نے یہ بات ٹھہرا دی کہ سمندر میں جہاز تمہارے زیر فرمان رہتے ہیں اور حکم الہٰی سے چلتے رہتے ہیں اور اسی طرح دریا بھی تمہاری کاربرآریوں کے لیے مسخر کر دیئے گئے۔ اور (پھر اتنا ہی نہیں بلکہ غور کرو تو) سورج اور چاند بھی تمہارے لیے مسخر کر دیئے گئے ہیں کہ ایک خاص ڈھنگ پر گردش میں ہیں اور رات اور دن کا اختلاف بھی (تمہارے فائدہ ہی کے لیے) مسخر ہے۔ غرض یہ کہ جو کچھ تمہیں مطلوب تھا، وہ سب کچھ اس نے عطا کر دیا، اگر تم اللہ کی نعمتیں شمار کرنی چاہو تو وہ اتنی ہیں کہ ہر گز شمار نہ کر سکو گے۔ بلاشبہ انسان بڑا ہی ناانصاف ، بڑا ہی ناشکرا ہے!
زمین کو دیکھو! اس کی سطح پھلوں اور پھولوں سے لدی ہوئی ہے، تہ میں آب شیریں کی سوتیں بہہ رہی ہیں، گہرائی سے سونا نکل رہا ہے، وہ اپنی جسامت میں اگرچہ مدور ہے، لیکن اس کا ہر حصہ اس طرح واقع ہوا ہے کہ معلوم ہوتا ہے ایک مسطح فرش بچھا دیا گیا ہے۔
لَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا وَجَعَلَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿١٠﴾
(10:43)
وہ پروردگار جس نے تمہارے لیے زمین اس طرح بنا دی کہ فرش کی طرح بچھی ہوئی ہے اور اس میں قطع مسافت کی (ہموار) راہیں پیدا کر دیں تا کہ تم راہ پاؤ۔ؔ29
وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْضَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْهَارًا ۖ وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ۖ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٣﴾ وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقَىٰ بِمَاءٍ وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الْأُكُلِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴿٤﴾
(3-4: 13)
اور یہ اسی پروردگار کی پروردگاری ہے کہ اس نے زمین (تمہاری سکونت کیلئے) پھیلا دی ہے اور اس میں پہاڑوں کے لنگر ڈال دیئے اور نہریں بہا دیں، نیز ہر طرح کے پھلوں کی دو دو قسمیں پیدا کر دیں۔ (اور پھر یہ اسی کی کارفرمائی ہے کہ رات اور دن یکے بعد دیگر آتے رہتے ہیں اور) رات کی تاریکی دن کو ڈھانپ لیتی
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 65
ہے۔ بلاشبہ ان لوگوں کیلئے جو غوروفکر کرنے والے ہیں اس میں (معرفت حقیقت کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں! اور (پھر دیکھو!) زمین کی سطح اس طرح بنائی گئی ہے کہ اس میں ایک دوسرے سے قریب (آبادی کے) قطعات بن گئے اور انگوروں کے باغ، غلہ کی کھیتیاں، کھجوروں کے جھنڈ پیدا ہو گئے۔ ان درختوں میں بعض زیادہ ٹہنیوں والے ہیں ، بعض اکہرے۔ اور اگرچہ سب کو ایک ہی طرح کے پانی سے سینچا جاتا ہے، لیکن پھل ایک طرح کے نہیں، ہم نے بعض درختوں کو بعض درختوں پر پھلوں کے مزے میں برتری دے دی۔ بلاشبہ ارباب دانش کے لیے اس میں (معرفت حقیقت کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں۔
وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ ﴿١٠﴾
(10:7)
اور (دیکھو!) ہم نے زمین میں تمہیں طاقت و تصرف کے ساتھ جگہ دی اور زندگی کے تمام سامان پیدا کر دیے (مگر افسوس!) بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تم (نعمت الہیٰ) شکرگزار ہو!
سمندر کی طرف نظر اٹھاؤ! اس کی سطح پر جہاز تیر رہے ہیں، تہہ میں مچھلیاں اچھل رہی ہیں، قعر میں مرجان اور موتی نشوونما پا رہے ہیں:
وَهُوَ الَّذِي سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿١٤﴾
(14:16)
اور (دیکھو!) یہ اسی کی کارفرمائی ہے کہ اس نے سمندر تمہارے لیے مسخر کر دیا تاکہ اپنی غذا کے لیے تروتازہ گوشت حاصل کرو اور زیور کی چیزیں نکالو جنہیں (خوش نمائی کے لیے) پہنتے ہو۔ نیز تم دیکھتے ہو کہ جہاز سمندر میں موجیں چیرتے ہوئے چلے جا رہے ہیں۔ اور سیر و سیاحت کے ذریعہ اللہ کا فضل تلاش کرو تاکہ اس کی نعمت کے شکرگزار ہو!
حیوانات کو دیکھو! زمین کے چارپائے، فضا کے پرند، پانی کی مچھلیاں، سب اسی لیے ہیں کہ اپنے اپنے وجود سے ہمیں فائدہ پہنچائیں، غذا کے لیے ان کا دودھ اور گوشت، سواری
اختتام ص 61-65
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ام الکتاب
ص 156-160
ص 156
کرتے تھے بلکہ اس ایک ہی لاوٓزوال ہستی کی "جس نے سورج اور چاند اور تمام چمک دار ستاروں کو بنایا ہے۔"
موہن جودڑو کا خدائے واحد "اون"
ہندوستان میں موہن جودڑو (Mohenjodaro) کے آثار ہمیں آریاؤں کے عہد ورود سے بھی آگے لے جاتے ہیں۔ ان کے مطالعہ و تحقیق کا کام ابھی پورا نہیں ہوا ہے تاہم ایک حقیقت بالکل واضح ہو گئی ہے، اس قدیم ترین انسانی بستی کے باشندوں کا بنیادی تصور توحید الہیٰ کا تصور تھا اصنام پرستانہ تصور نہ تھا۔ وہ اپنے یگانہ خدا کو اون(Oun) کے نام سے پکارتے تھے۔ جس کی مشابہت ہمیں سنسکرت کے لفظ اندوان (Undwan) میں مل جاتی ہے، اس یگانہ ہستی کی حکومت سب پر چھائی ہوئی ہے۔ طاقت کی تمام ستیاں اسی کے ٹھہرائے ہوئے قانون کے ماتحت کام کر رہی ہیں۔ اس کی صفت (Vedukun) ویدوکن ہے یعنی ایسی ہستی جس کی آنکھیں کبھی غافل نہیں ہو سکتیں۔ "لا تاخذہ سنت ولا نوم"۔
اللہ کی یگانہ اور ان دیکھی ہستی کا قدیم سامی تصور
سامی قبائل کا اصلی سر چشمہ صحرائے عرب کے بعض شاداب علاقے تھے، جس اس چشمے میں نسل انسانی کا پانی بہت بڑھ جاتا تو اطراف میں پھیلنے لگتا یعنی قبائل کے جتھے عرب سے نکل کر اطراف و جانب کے ملکوں میں منتشر ہونے لگتے اور پھر چند صدیوں کے بعد نیا رنگ و روپ اختیار کر لیتے۔ شاید انسانی قبائل کا انشعاب کرہ ارضی کے دو مختلف حصوں میں بہ یک وقت جاری رہا اور زمانہ ما بعد کی مختلف قوموں اور تمدنوں کا بنیادی مبدء بنا۔ صحرائے گوبی کے سرچشمے سے وہ قبائل نکلے جو ہندی، یورپی انڈو یورپین (Indo-European) آریاؤں کے نام سے پکارے گئے صحرائے عرب سے وہ قبائل نکلے جن کا پہلا نام سامی پڑا اور پھر یہ نام بےشمار ناموں کے ہجوم میں غم ہو گیا۔ تاریخ کی موجودہ معلومات اس حد تک پہنچ کر رک گئی ہیں اور آگے کی خبر نہیں رکھتیں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ام الکتاب
ص 156-160
ص 156
کرتے تھے بلکہ اس ایک ہی لاوٓزوال ہستی کی "جس نے سورج اور چاند اور تمام چمک دار ستاروں کو بنایا ہے۔"
موہن جودڑو کا خدائے واحد "اون"
ہندوستان میں موہن جودڑو (Mohenjodaro) کے آثار ہمیں آریاؤں کے عہد ورود سے بھی آگے لے جاتے ہیں۔ ان کے مطالعہ و تحقیق کا کام ابھی پورا نہیں ہوا ہے تاہم ایک حقیقت بالکل واضح ہو گئی ہے، اس قدیم ترین انسانی بستی کے باشندوں کا بنیادی تصور توحید الہیٰ کا تصور تھا اصنام پرستانہ تصور نہ تھا۔ وہ اپنے یگانہ خدا کو اون(Oun) کے نام سے پکارتے تھے۔ جس کی مشابہت ہمیں سنسکرت کے لفظ اندوان (Undwan) میں مل جاتی ہے، اس یگانہ ہستی کی حکومت سب پر چھائی ہوئی ہے۔ طاقت کی تمام ستیاں اسی کے ٹھہرائے ہوئے قانون کے ماتحت کام کر رہی ہیں۔ اس کی صفت (Vedukun) ویدوکن ہے یعنی ایسی ہستی جس کی آنکھیں کبھی غافل نہیں ہو سکتیں۔ "لا تاخذہ سنت ولا نوم"۔
اللہ کی یگانہ اور ان دیکھی ہستی کا قدیم سامی تصور
سامی قبائل کا اصلی سر چشمہ صحرائے عرب کے بعض شاداب علاقے تھے، جس اس چشمے میں نسل انسانی کا پانی بہت بڑھ جاتا تو اطراف میں پھیلنے لگتا یعنی قبائل کے جتھے عرب سے نکل کر اطراف و جانب کے ملکوں میں منتشر ہونے لگتے اور پھر چند صدیوں کے بعد نیا رنگ و روپ اختیار کر لیتے۔ شاید انسانی قبائل کا انشعاب کرہ ارضی کے دو مختلف حصوں میں بہ یک وقت جاری رہا اور زمانہ ما بعد کی مختلف قوموں اور تمدنوں کا بنیادی مبدء بنا۔ صحرائے گوبی کے سرچشمے سے وہ قبائل نکلے جو ہندی، یورپی انڈو یورپین (Indo-European) آریاؤں کے نام سے پکارے گئے صحرائے عرب سے وہ قبائل نکلے جن کا پہلا نام سامی پڑا اور پھر یہ نام بےشمار ناموں کے ہجوم میں غم ہو گیا۔ تاریخ کی موجودہ معلومات اس حد تک پہنچ کر رک گئی ہیں اور آگے کی خبر نہیں رکھتیں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 157
عرب قبائل کا یہ انشعاب بتدریج مغربی ایشیا اور قریبہ افریقپ کے تمام دور دراز حصوں تک پھیل گیا تھا۔ فلسطین، شام، مصر، نوبیا، عراق، اور سواحل خلیج فارس سب ان کے دائرہ انشعاب میں آ گئے تھے۔ عاد، ثمود، عمالقہ، ہکسوس، موابی، آشوری، عکاوی، سومیری، عیلامی، آرامی اور عبرانی و غیر ہم مختلف مقاموں اور مختلف عَہدوں کی قوموں کے نام ہیں مگر دراصل سب ایک ہی قبائلی چشمے سے نکلے ہوئے ہیں یعنی عرب سے۔
اب جدید سامی اثریات کے مطالعہ سے جو ان تمام قوموں سے تعلق رکھتی ہیں ایک حقیقت بالکل واضح ہو گئی ہے یعنی ان تمام قوموں میں ایک ان دیکھے خدا کی ہستی کا اعتقاد موجود تھا اور وہ 'ال۔الاہ' یا 'اللہ' کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہی 'الاہ' ہے جس نے کہیں 'ایل' کی صورت اختیار کی کہیں 'الو' کی اور کہیں 'الاھیا' کی۔
سرحد حجاز کی وادی عقبہ اور شمالی راس شمر کے جو آثار گذشتہ جنگ کے بعد منکشف ہوئے ان سے یہ حقیقت اور زیادہ آشکارا ہو گئی ہے مگر یہ موقع تفصیل کا نہیں۔
انسان کی پہلی راہ، ہدایت کی تھی، گم راہی بعد کو آئی
بہرحال بیسویں صدی کی علمی جستجو اب ہمیں جس طرف لے جا رہی ہے وہ انسان کا قدیم ترین توحیدی اور غیر اصنامی اعتقاد ہے۔ اس سے زیادہ اس کے تصورات کی کوئی بات پرانی نہیں۔ اس نے اپنے عہد طفولیت میں ہوش و خرد کی آنکھیں جوں ہی کھولی تھیں ایک یگانہ ہستی کا اعتقاد اپے اندر موجود پایا تھا پھر آہستہ آہستہ اس کے قدم بھٹکنے لگے اور بیرونی اثرات کی جولانیاں اسے نئی نئی صورتوں اور نئے نئے ڈھنگوں سے آشنا کرنے لگیں۔ اب ایک سے زیادہ مافوق الفطرت طاقتوں کا تصور نشونما پانے لگا اور مظاہر فطرت کے بےشمار جلوے اسے اپنی طرف کھینچنے لگے۔ یہاں تک کہ پرستش کی ایسی چوکھٹیں بننا شروع ہو گئیں کنہیں اس کی جبین نیاز چھو سکتی تھی اور تصورات لی ایسی صورتیں ابھرنے لگیں جو اس کے دیدہ صورت پرست کے سامنے نمایاں ہو سکتی تھیں۔ یہیں اسے ٹھوکر لگی لیکن راہ ایسی تھی کہ ٹھوکر سے بچ بھی نہیں سکتا تھا۔
کمند کو تہ و با زوی سست و بام بلند
بمن حوالۂ و نو میدیم گنہ گیر ند
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 158
پس معلوم ہوا کہ اس راہ میں ٹھوکر بعد کو لگی پہلی حالت ٹھوکر کی نہ تھی۔ راہِ راست پر گام فرسائیوں کی تھی:
من ملک بودم و فردوس بریں جایم بود
آدم آورد درین خانہ خراب آبادم
(ہم تو ملائک تھے اور جنت میں ہمارا اعلیٰ مقام تھا اس دنیا کے ویرانے میں ہمارے دادا آدم ہمیں لائے)
اگر اس صورت حال کو گم راہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے تو ماننا پڑے گا کہ پہلی حالت سے جو انسان کو پیش آئی تھی وہ گمراہی کی نہ تھی، ہدایت کی تھی۔ اس نے آنکھیں روشنی میں کھولی تھیں، پھر آہستہ آہستہ تاریکی پھیلنے لگی۔

دینی نوشتوں کی شہادت اور قرآن کا اعلان
زمانہ حال کی علمی تحقیقات کا یہ نتیجہ ادیان عالم کے مقدس نوشتوں کی تصریحات کے عین مطابق ہے۔ مصر ، یونان، کالڈیا، ہندوستان، چین اور ایران سب کی مذہبی روایتیں ایک ایسے عہد کی خبر دیتی ہیں جب نوع انسانی گمراہی اور غمناکی سے آشنا نہیں ہوئی تھی اور فطری ہدایت کی زندگی بسر کرتی تھی۔ افلاطون نے کریطیاس(Critias)
میں آ کر بادی عالم کو جو حکایت درج کی ہے اس میں اس اعتقاد کی پوری جھلک موجود ہے۔ اور طیماؤس (Timaeus)کی حکایت جو ایک مصری پجاری کی زبانی ہے، مصری روایت کی خبر دیتی ہے۔ تورات کی کتاب پیدائش نے آدم کو قصہ بیان کیا ہے۔ اس قصے میں آدم کی پہلی زندگی مفقود ہوگئی۔ اس قصے میں بھی یہی اصل کام کر رہی ہے کہ یہاں پہلا دور فطری ہدایت کا تھا، انحراف و گمراہی کی راہیں بعد کو کھلیں۔ قرآن نے تو صاف صاف اعلان کر دیا ہے کہ:
وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا ۚ
(19:10)
ابتدا میں تمام انسان ایک گروہ تھے (یعنی الگ الگ راہوں میں بھٹکے ہوئے نہ تھے) پھر اختلافات میں پڑ گئے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 159

دوسری جگہ مزید تشریح کی:
كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّ۔هُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ
(213:2)
ابتداء میں تمام انسانوں کا ایک ہی گروہ تھا(یعنی فطری ہدایت کی ایک ہی راہ پر تھے پھر اس کے بعد اختلافات پیدا ہو گئے)۔ پس اللہ نے ایک کے بعد ایک نبی معبوث کئے وہ نیک عملی کے نتیجوں کی خوش خبری دیتے تھے۔ بدعملی کے نتیجوں سے متنبہ کرتے تھے۔ نیز ان کے ساتھ نوشتے نازل کئے تاکہ جن باتوں میں لوگ اختلاف کرنے لگے ہیں ان کا فیصلہ کر دیں۔ارتقائی نظریہ خدا کی ہستی کے اعتقاد میں نہیں لیکن اس کے صفات کے تصوارت کے مطالعے میں مدد دیتا ہے
پس خدا کی ہستی کے عقیدے کے بارے میں انیسیوی صدی کا ارتقائی نظریہ اب اپنی علمی اہمیت کھو چکا ہے اور بحث و نظر میں بہت کم مدد دے سکتا ہے۔ البتہ جہاں تک انسان کے ان تصوروں کا تعلق ہے جو خدا کی صفات کی نقش آرائیاں کرتے رہے، ہمیں ارتقائی نقطہ خیال سے ضرور مدد ملتی ہے۔ کیونکہ بلاشبہ یہاں تصورات کے نشو و ارتقاء کا ایک سلسلہ موجود ہے جس کی ارتقائی کڑیاں ایک دوسرے سے الگ کی جا سکتی ہیں اور نچلے درجوں سے اونچے درجوں کی طرف ہم بڑھ سکتے ہیں۔
خدا کی ہستی کا اعتقاد انسان کے ذہن کی پیداوار نہ تھا کہ ذہنی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ وہ بھی بدلتا رہتا۔ اس کی فطرت کا ایک وجدانی احساس تھا اور وجدانی احساسات میں نہ تو ذہن و فکر کے مؤثرات مداخلت کر سکتے ہیں اور نہ باہر کے اثرات سے ان میں تبدیلی ہو سکتی۔
لیکن انسان کی عقل ذات مطلق کے تصور سے عاجز ہے، ۔ وہ جب کسی چیز کا تصور کرنا چاہتی ہے تو گو تصور ذات کا کرنا چاہے، لیکن تصور صفات و عوارض ہی آتے ہیں اور صفات ہی کے جمع و تفرقہ سے وہ ہر چیز کا تصور آراستہ کرتی ہے۔ پس جب فطرت کے
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص160
اندرونی جذبے نے ایک بالا ہستی کے اعتراف کا ولولہ پیدا کیا تو ذہن نے چاہا اس کا تصور آراستہ کرے لیکن جب تصور کیا تو یہ اس کی ذات کا تصور نہ تھا اس کی صفات کا تصور تھا اور صفات میں سے بھی انہیں صفات کا جن کا ذہن انسانی تخیل کر سکا تھا یہیں سے خدا پرستی کے فطری جذبے میں ذہن و فکر کی مداخلت شروع ہو گئی۔

عقل انسانی کی درماندگی اور صفات الہیٰ کی صورت آرائی
عقل انسانی کا ادراک محسوسات کے دائرے میں محدود ہے۔ اس لئے اس کا تصور اس دائرے سے باہر قدم نہیں نکال سکتا وہ جب کسی ان دیکھی اور غیر محسوس چیز کا تصور کرے گی تو ناگزیر ہے کہ تصور میں وہی صفات آئیں جنہیں وہ دیکھتی اور سنتی ہے اور جو اس کے حاسہ ذوق و لمس کی دسترس سے باہر نہیں ہیں۔ پھر اس کی ذہن و تفکر کی جتنی بھی رسائی ہے یہ ایک دفعہ ظہور میں نہیں آئی بلکہ ایک طول طویل عرصے کے نشووارتقاء کا نتیجہ ہے۔ ابتدا میں اس ذہن عہد طفولیت میں تھا، اس لئے اس کے تصورات بھی اسی نوعیت کے ہوتے تھے۔ پھر جوں جوں اس میں اور اس کے ماحول میں ترقی ہو گئی اس کا ذہن بھی ترقی کرتا گہا اور ذہن کی ترقی و تزکئے کے ساتھ اس کے تصورات میں بھی شائستگی اور بلندی آتی گئی۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ تھا کہ جب کبھی ذہن انسانی نے خدا صورت بنانا چاہی تو ہمیشہ ویسی ہی بنائی جیسی صورت خود اس نے اور اس کے احوال و ظروف نے پیدا کر لی تھی۔ جوں جوں
اس کا معیارِ فکر بدلتا گیا وہ اپنے معبود کی شکل و شباہت بھی بدلتا گیا۔ اسے اپنے تفکر میں ایک صورت نظر آتی تھی وہ سمجھتا تھا یہ اس کے معبود کی صورت ہے حالانکہ وہ اس کے معبود کی صورت نہ تھی خود اسی کے ذہن و صفات کا عکس تھا۔
فکر انسانی کی سب سے پہلی درماندگی یہی ہے جو اس راہ میں پیش آئی:
حرم جو یان دری را می پرستند
فقیہان دفتری رامی پرستند
بر افگن پردہ تا معلوم گردد
کہ یا ران دیگری رامی پرستند

اختتام ص 156-160​
 
Top