فرحت کیانی
لائبریرین
ام الکتاب
ص 61
تک یہ عقدہ حل نہ کر سکیں! فلسفہ و نظر جب بھی اس حد تک پہنچا، دم بخود ہو کر رہ گیا۔
لیکن قرآن کہتا ہے یہ اس لئے ہے کہ فطرت کائنات میں رحمت ہے اور رحمت کا مقتضیٰ یہی ہے کہ خوبی اور درستگی ہو، بگاڑ اور خرابی نہ ہو۔
انسان کے علم و دانش کی کاوشیں بتلاتی ہیں کہ کائنات ہستی کا یہ بناؤ اور سنوار عناصر اولیہ کی ترکیب اور ترکیب کے اعتدال و تسویہ کا نتیجہ ہے۔ مادۂ عالم کی کمیت میں بھی اعتدال ہے، کیفیت میں بھی اعتدال ہے۔ یہی اعتدال ہے جس سے سب کچھ بنتا ہے اور جو کچھ بنتا ہ، خوبی اور کمال کے ساتھ بنتا ہے۔ یہی اعتدسال و تناسب دنیا کے تمام تعمیری اور ایجابی حقائق کی اصل ہے۔ وجود، زندگی، تندرستی، حس، خوشبو، نغمہ۔ ۔ ۔ بناؤ اور خوبی کے بہت سے نام ہیں، مگر حقیقت ایک ہی ہے اور وہ اعتدال ہے۔
لیکن فطرت کائنات میں یہ اعتدال و تناسب کیوں ہے؟ کیوں ایسا ہے کہ عناصر کے دقائق جب ملیں اعتدال و تناسب کے ساتھ ملیں اور مادہ کا خاصہ یہی ٹھہرا کہ اعتدال و تناسب ہو، انحراف اور تجاوز نہ ہو؟ انسان کا علم دم بخود اور متحیر ہے، لیکن قرآن کہتا ہے: یہ اس لئے ہوا کہ خالق کائنات میں رحمت ہے اور اس لیے کہ اس کی رحمت اپنا ظہور بھی رکھتی ہے، اور جس میں رحمت ہو اور اس کی رحمت طہور بھی رکھتی ہو تو جو کچھ اس سے صادر ہو گا، اس میں خوبی و بہتری ہی ہو گی، حسن و جمال ہی ہوگا، اعتدال و تناسب ہی ہو گا، اس کے خلاف کچھ نہیں ہو سکتا۔ فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ تعمیر و تحسین فطرت کائنات کا خاصہ ہے۔ خاصۂ تحسین چاہتا ہے کہ جو کچھ بنے خوبی و کمال کے ساتھ بنے، اور یہ دونوں خاصے "قانون ضرورت" کا نتیجہ ہیں۔ کائنات ہستی کے ظہور و تکمیل کے لیے ضرورت تھی کہ تعمیر ہو اور ضرورت تھی کہ جو کچھ تعمیر ہو حسن و خوبی کے ساتھ تعمیر ہو۔ یہی "ضرورت" بجائے خود ایک علت ہو گئی اور اس لیے فطرت سے جو کچھ بھی ظہور میں آتا ہے ویسا ہی ہوتا ہے جیسا ہونا ضروری تھا۔ لیکن اس تعلیل سے بھی تو یہ عقدہ حل نہیں ہوا، سوال جس منزل میں تھا اس سے صرف ایک منزل اور آگے بڑھ گیا۔ تم کہتے ہو یہ جو کچھ ہو رہا ہے اس لیے ہے کہ "ضرورت" کا قانون موجود ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ "ضرورت" کا قانون کیوں موجود ہے؟ کیوں یہ ضروری ہوا کہ جو کچھ ظہور میں آئے "ضرورت" کے مطابق ہو اور
ص 61
تک یہ عقدہ حل نہ کر سکیں! فلسفہ و نظر جب بھی اس حد تک پہنچا، دم بخود ہو کر رہ گیا۔
لیکن قرآن کہتا ہے یہ اس لئے ہے کہ فطرت کائنات میں رحمت ہے اور رحمت کا مقتضیٰ یہی ہے کہ خوبی اور درستگی ہو، بگاڑ اور خرابی نہ ہو۔
انسان کے علم و دانش کی کاوشیں بتلاتی ہیں کہ کائنات ہستی کا یہ بناؤ اور سنوار عناصر اولیہ کی ترکیب اور ترکیب کے اعتدال و تسویہ کا نتیجہ ہے۔ مادۂ عالم کی کمیت میں بھی اعتدال ہے، کیفیت میں بھی اعتدال ہے۔ یہی اعتدال ہے جس سے سب کچھ بنتا ہے اور جو کچھ بنتا ہ، خوبی اور کمال کے ساتھ بنتا ہے۔ یہی اعتدسال و تناسب دنیا کے تمام تعمیری اور ایجابی حقائق کی اصل ہے۔ وجود، زندگی، تندرستی، حس، خوشبو، نغمہ۔ ۔ ۔ بناؤ اور خوبی کے بہت سے نام ہیں، مگر حقیقت ایک ہی ہے اور وہ اعتدال ہے۔
لیکن فطرت کائنات میں یہ اعتدال و تناسب کیوں ہے؟ کیوں ایسا ہے کہ عناصر کے دقائق جب ملیں اعتدال و تناسب کے ساتھ ملیں اور مادہ کا خاصہ یہی ٹھہرا کہ اعتدال و تناسب ہو، انحراف اور تجاوز نہ ہو؟ انسان کا علم دم بخود اور متحیر ہے، لیکن قرآن کہتا ہے: یہ اس لئے ہوا کہ خالق کائنات میں رحمت ہے اور اس لیے کہ اس کی رحمت اپنا ظہور بھی رکھتی ہے، اور جس میں رحمت ہو اور اس کی رحمت طہور بھی رکھتی ہو تو جو کچھ اس سے صادر ہو گا، اس میں خوبی و بہتری ہی ہو گی، حسن و جمال ہی ہوگا، اعتدال و تناسب ہی ہو گا، اس کے خلاف کچھ نہیں ہو سکتا۔ فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ تعمیر و تحسین فطرت کائنات کا خاصہ ہے۔ خاصۂ تحسین چاہتا ہے کہ جو کچھ بنے خوبی و کمال کے ساتھ بنے، اور یہ دونوں خاصے "قانون ضرورت" کا نتیجہ ہیں۔ کائنات ہستی کے ظہور و تکمیل کے لیے ضرورت تھی کہ تعمیر ہو اور ضرورت تھی کہ جو کچھ تعمیر ہو حسن و خوبی کے ساتھ تعمیر ہو۔ یہی "ضرورت" بجائے خود ایک علت ہو گئی اور اس لیے فطرت سے جو کچھ بھی ظہور میں آتا ہے ویسا ہی ہوتا ہے جیسا ہونا ضروری تھا۔ لیکن اس تعلیل سے بھی تو یہ عقدہ حل نہیں ہوا، سوال جس منزل میں تھا اس سے صرف ایک منزل اور آگے بڑھ گیا۔ تم کہتے ہو یہ جو کچھ ہو رہا ہے اس لیے ہے کہ "ضرورت" کا قانون موجود ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ "ضرورت" کا قانون کیوں موجود ہے؟ کیوں یہ ضروری ہوا کہ جو کچھ ظہور میں آئے "ضرورت" کے مطابق ہو اور