میر انیس
لائبریرین
صفحہ 141
کے نتائج بغیر کسی کمی بیشی کے تمہیں واپس دیتا ہوں۔پس جو کوئی تم میں اچھائی پائے چاہئیے کہ اللہ کی حمد و ثنا کرے۔اور جس کسی کو برائی پیش آئے تو چاہئیے کہ خود اپنے وجود کے سوا کسی کوملامت نہ کرے"۔یہاں یہ خدشہ کسی کے دل میں واقع نہ ہوکہ خود قرآن نے بھی تو جابجاخدا کی خوش نودی اور رضا مندی کا ذکر کیا ہے۔بلاشبہ کیا ہے،اتنا ہی نہیںبلکہ وہ انسان کی نیک عملی کااعلٰی درجہ یہی قرار دیتا ہےکہ جو کچھ کرے اللہ کہ کوش نودی کے لئے کرے۔لیکن خدا کے جس رضا اور غضب کا وہ اثبات کرتا ہے وہ جزا و سزا کی علت نہیں ہےبلکہ جزا وسزا کا قدرتی نتیجہ ہےیعنی یہ نہیں کہتا کہ جزاوسزامحض خدا کی خوش نودی اور ناراضی کا کا نتیجہ ہے،نیک وبداعمال کا نتیجہ نہیں ہےبلکہ وہ کہتا ہے کہ جزاوسزاتمام تر انسان کے اعمالی کا نتیجہ ہےاور خدا نیک عمل سے خوش نود ہوتا ہے بدعملی ناپسند کرتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ تعلیم قدیمی اعتقاد سے نہ صرف مختصر ہے بلکہ یکسر متضاد ہے۔
بہرحال جزاوسزا کی اس حقیقت کے لئے 'الدین' کا لفظ نہایت موزون لفظ ہےاور تمام گمراہوں کی راہ بند کردیتا ہےجو اس بارے میں پھیلی ہوئی تھیں۔سورہ فاتحہ میں مجرد اس لفظ کے استعمال نےجزاوسزا کی اصلی حقیت لوگوں پر آشکارا کردی۔
الدین بمعنٰی قانون ومذہب
ثانیاََ یہی وجہ ہے کہ مزہب اور قانون کے لئے'الدین'کا لفظ استعمال کیا گیا۔ کیونکہ مذہب کا بنیادی اعتقاد
مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلاَّ أَن يَشَاءَ اللّهُ (12:72)
مکافات عمل کا اعتقاد ہے اور قانون کی بنیاد بھی تعزیر وسیاست پر ہے۔سورہ یوسف میں جہاں یہ واقعہ بیان کیا ہےکہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے چھوٹے بھائی کو اپنے پاس روک لیا تھا وہاں فرمایا:
'وہ بادشاہ(مصر)کے قانون کی رو سے ایسا نہیں کرسکتا تھاکہ اپنے بھائی کو روک لے،مگر وہاں اسی صورت میں کہ اللی کو(اس کی راہ نکال دینا) منظود ہوتا'۔
یہاں بادشاہ مصر کے ؛دین'سے مقصود اس کاقانون ہے۔
صفحہ 142
ملک یوم الدین میں عدالت الہٰی کا اعلان ہےثالثا یہاں ربوبیت اور رحمت کے بعد صفات قہر و جلال میں کسی صفت کا ذکر نہیں کیا گیابلکہ"مالک یوم الدین"کی صفات بیان کی گئی جس عدالت الہٰی کا تصور ہمارے ذہن میں پیدا ہوجاتاہے اس سے معلوم ہوا کہ قرآن نے خدا کی صفات کا جو تصور قائم کیا ہے اس میں قہر و غضب کے لئے کوئی جگہ نہیں۔
البتہ عدالت ضرور ہےاور صفات قہر جس قدر بیان کی گئی ہیں دراصل اسی کے مظاہرہیں56۔فی الحقیقت صفات الہٰی کے تصور کا یہی مقام ہے جہان فکر انسانی نے ہمیشہ ٹھوکر کھائی۔یہ ظاہر ہے کہ فطرت کائینات ربوبیت ورحمت کے ساتھ اپنے مجاز بھی رکھتی ہے اور اگر ایک طرف اس میں پرورش وبخشش ہے تو دوسری طرف مواخذہ ومکافات بھی ہے۔ فکر انسانی کے لئے فیصلہ طلب سوال یہ تھا کے فطرت کے مجازات اس کے قہروغضب کا نتیجہ ہیں یا عدل و فسط کے؟ اس کا فکرنارسا عدل و فسط کی حقیقت معلوم نہ کرسکا۔اس نے مجازات کو قہر و غضب پر محمول کرلیا اور یہیں سے خدا کی صفات میں خوف و دہشت کا تصور پیدا ہوگیا۔حالانکہ اگر وہ فطرت کائنات کو زیادہ قریب ہوکر دیکھ سکتا تو معلوم کرلیتا کہ جن مظاہر کو قہرو غضب پر محمول کررہا ہےوہ قہر و غضب کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ عین مقتضاءرحمت ہیں۔ اگر فطرت کائنات میں مکافات کا مواخذہ نہ ہوتا یا تعمیر کی تحسین وتکمیل کے لئے تخریب نہ ہوتی تو میزان عدل قائم نہ رہتا اور تمام نظام درہم برہم ہوجاتا۔
کارخانہ ہستی کے تین معنوی عناصر:ربوبیت،رحمت،عدالت
رابعاََ جس طرح کارخانہ خلقت اپنے وجود و بقا کے لئے ربوبیت اور رحمت کا محتاج ہے اسی طرح عدالت کا بھی محتاج ہے۔ یہی تین معنوی عناصر ہیں جن سے خلقت و ہستی کا قوام ظہور میں آیا ہے۔ ربوبیت پرورش کرتی ہے رحمت افادہ وفیضان کا سر چشمہ ہے اور عدالت سے بنائو اور خوبی ظہور میں آتی اور نقصان فساد کا ازالہ ہوتا ہے۔
تعمیر و تحسین کے تمام حقائق دراصل عدل و توازن کا نتیجہ ہیں۔
تم نے ابھی ربوبیت اور رحمت کے مقامات کا مشاہدہ کیا ہے۔اگر ایک قدم آگے