کيا آپ جانتے ہيں کہ افغانستان ميں ہونے والے انتخابات ميں 8 ملين افغان ووٹرز نے اپنا حق راہے دہی استعمال کيا تھا جس ميں 40 فيصد خواتين شامل تھيں۔ کيا 8 ملين ووٹروں کی منتخب کردہ حکومت اور اس کےعہديداروں کو "امريکی ايجنٹ" قرار ديا جا سکتا ہے؟
افغانستان ميں ہونے والے انتخابات ميں ہر مذہبی فرقے اور سياسی جماعت کو نمايندگی کا برابر موقع ملا جو اس ملک کی سياسی تاريخ ميں ايک نئے دور کا آغاز تھا۔ افغانستان کے انتخابات اقوام متحدہ کی نامزد کردہ تنظيموں کے زيرنگرانی انتہاہی غيرجانبدارماحول ميں ہوئے جن کے نتائج کی توثيق انٹرنيشنل کمیونٹی نے متفقہ طور پر کی۔ افغانستان ميں ہونے والے انتخابات يورپی يونين کی جس ٹيم کی زير نگرانی ہوئے تھے اس ميں اسپين، جرمنی، اٹلی، آئرلينڈ، پرتگال، برطانيہ، سويڈن اور ڈينمارک سے ماہرين شامل تھے۔ اس ٹيم کے ممبران کے مکمل تعارف کے ليے اقوام متحدہ کی ويب سائيٹ کا يہ لنک دے رہا ہوں۔
www.eueomafg.org/Coreteam.html
www.unv.org/en/what-we-do/countries/afghanistan/doc/un-volunteers-at-the.html
اس بات کا دعوی کوئ نہيں کر سکتا کہ افغانستان ميں حکومت کے حوالے سے تمام مسائل حل ہو گئے ہيں۔
خاص طورپر ان حالات ميں جبکہ قريب تمام حکومتی مشينری ان انتہا پسند تنظيموں سے مسلسل نبردآزما ہے جو کسی جمہوری نظام پريقين نہيں رکھتيں۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود افغانستان ميں جمہوری نظام کی بنياد رکھ دی گئ ہے اورمستقبل میں بھی اس بات کا اختيار امريکہ کے پاس نہيں بلکہ
افغانستان کے عوام کے پاس ہے کہ ان کے اوپر حکمرانی کا حق کس کو دیا جائے۔ آج افغانستان ميں 6 ملين بچے سکول جا رہے ہيں اور 85 فيصد عوام کو صحت کی بنيادی سہوليات ميسر ہيں۔ سال 2008 اور 2009 کے ليے امريکی حکومت نے سياسی اور معاشی اداروں کے استحکام کے ليے افغان حکومت کو 10 بلين ڈالرز کی امداد کی منظوری دی ہے۔
اگر آپ افغانستان کے ماضی کا جائزہ ليں تو اس ملک کے عوام اسلحہ بردار دہشت گرد تنظيموں کے رحم وکرم پر تھے۔ کيا جو لوگ آج افغانستان کے حکومتی نظام کو تنقيد کا نشانہ بناتے ہيں اور اسے امريکہ کی "کٹھ پتلی" انتظاميہ قرار ديتے ہيں، انھوں نے طالبان کے نظام حکومت اور طرز جمہوريت پر بھی تنقيد کی تھی؟
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
http://usinfo.state.gov