انا کی وقتی تسکین۔۔۔۔۔۔

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ہم نے کبھی سوچا ؟

کہ جب ہم کسی روڈ پہ جا رہے ہوتے ہیں اور ہمارے سامنے کوئی فقیر اچانک آجائے یا کوئی پیدل سوار آجائے اور اچانک گاڑی کو بر یک لگانی پڑ جائے تو ہمارے منہ سے زیادہ تر ایک ہی فقرہ نکلتا ہو ”اوے اندھے ہو گئے ہو نظر نہیں آتا“؟
اور بعض اوقات ہم جب غصے میں ہوتے ہیں تو اپنے کسی ملازم کو ڈانٹتے ہیں،
اور اسی طرح کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کو چڑاتے ہیں ، طنز کرتے ہیں،
اور دوسروں کو نیچا دکھانے ہم اپنی برتری ثابت کرنے پہ تلے ہوتے ہیں،
یہ جانے بنا کہ ہر انسان کی اپنی ایک سوچ اور حیثیت ہے اور اس حد تک وہ بالکل ٹھیک ہے، مگر ہم یہ سب نہیں سوچتے بس ہم اپنی انا کی وقتی تسکین کر رہے ہوتے ہیں ۔
ہمیں لگتا ہے کہ ایسا کرکے ہمیں سکون مل جاتا ہے لیکن اگر غلطی ہماری اپنی ہی ہو تو پھر
انا اور جذبات میں آکر کیے گئے وہ فیصلے ہمارے ہی نقصان کا باعث بن جاتے ہیں۔
اس کے برعکس اگر انسان اپنے آپ پر کنٹرول کرنا سیکھ لے تو بہت سی پریشانیوں سے بچا جاسکتا ہے ۔
آزما کے دیکھ لیں۔ ”ایک چپ سو سکھ“۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
اچھا لکھا ہے۔ کوشش کرو کہ اردو ہی کے الفاظ لکھا کرو، بیچ میں انگریزی الفاظ کا تڑکا مت لگایا کرو۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
اچھا لکھا ہے۔ کوشش کرو کہ اردو ہی کے الفاظ لکھا کرو، بیچ میں انگریزی الفاظ کا تڑکا مت لگایا کرو۔
یہ ڈانٹا ہے کہ سمجھایا ہے مجھےِ؟
thinking-idea-animated-animation-smiley-emoticon-000339-large.png
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
مگر کسی کی انا توڑنا بھی تو اپنی انا کی ھی تسکین کی ھی اک شکل ھے۔

جی ٹھیک ہے مگر ہمیں ضرورت ہی کیا ہے کسی کی انا توڑیں؟
ہمیں تو یہ خیال رکھنا ہے کہ ہم کیا ہیں؟ ہمارا رویہ کیسا ہے؟
اس طرح کوئی ہمیں اچھا سمجھے نا سمجھے مگر ایک نا ایک دن اس کے دل میں ہمارے لئے قدر تو پیدا ہو ہی جاتی ہے۔ بشرطیکہ ہم اس کے ساتھ اس کے بُرے سلوک کے باوجود اچھے ہی رہے ہوں:rolleyes:
 

arifkarim

معطل
انا کی تسکین کے کئی طریقے ہیں۔ بعض لوگ ڈانٹ ڈپٹ کر یا آنکھیں دکھا کر۔ اور بعض لوگ اپنے اختیارات کا استعمال دوسروں پر کرکے انا کی تسکین پاتے ہیں۔ درحقیقت ہمارا پورا معاشرہ انا کی تسکین پر قائم ہے۔ ہر اک کا مقابلہ ہر اک سے۔ جو اول آجائے وہ امیر، جو ہار جائے وہ غریب وغیرہ۔ یہ ہمیشہ سے ایساہی رہا ہے اور ایسا ہی رہے گا کیونکہ ہمیں یہ پتا ہی نہیں کہ ہم جو کرتےہیں وہ کیوں کرتے ہیں :)
 

عمران اسلم

محفلین
خود کو مار کر ہی انسان ٹھکانے لگ سکتا ہے،، حدیث کا مفہوم کہ مسلمان وہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں،، اگر مسلمان کی طرف مسکرا کر دیکھنا صدقہ ہے تو اس کی طرف گھور کر دیکھنا سخت گناہ،،

یہ انا انسان کو کتنی نیچے لے جاتی ہے انسان اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔۔ اسی کی وجہ سےکتنے ہی بد خلقی کے مرض جیسے غیبت، چغلی، جھوٹ، کینہ۔ بغض،، نفرت، وغیرہ انسان کو چمت جاتے ہیں اور ان کی وجہ سے اس کا ٹھکانہ برا ہی بنتا ہے،،، اللہ معاف رکھے،،،،
 

arifkarim

معطل
خود کو مار کر ہی انسان ٹھکانے لگ سکتا ہے،، حدیث کا مفہوم کہ مسلمان وہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں،، اگر مسلمان کی طرف مسکرا کر دیکھنا صدقہ ہے تو اس کی طرف گھور کر دیکھنا سخت گناہ،،

یہ انا انسان کو کتنی نیچے لے جاتی ہے انسان اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔۔ اسی کی وجہ سےکتنے ہی بد خلقی کے مرض جیسے غیبت، چغلی، جھوٹ، کینہ۔ بغض،، نفرت، وغیرہ انسان کو چمت جاتے ہیں اور ان کی وجہ سے اس کا ٹھکانہ برا ہی بنتا ہے،،، اللہ معاف رکھے،،،،
اس سے مراد روحانی موت یعنی انا کی موت ہے۔ افسوس تشدد پسند مسلمان اسکو جسمانی موت سمجھ لیتے ہیں۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
اور جن انسان اپنے آپ کومار لیتا ہے تو وہ کا بُرا نہیں سوچتا نا کسی کے ساتھ بُرا کرتا ہے۔
مگر ایسا کرنے کے لئے خود سے لڑنا پڑتا ہے۔
 

عمران اسلم

محفلین
بالکل۔ اور اپنے آپ پر انسان اگر فتح حاصل کر لے تو اس سے سچی تسکین نہیں۔ وقتی طور پر نفس اور شیطان اسے اکساتے ہیں کہ یہ کیون، کیسے، ایسے ویسے، مگر بعد مین احساس ہوتا ہے کہ میں نے کتنا اچھا کام کیا ہے۔ اپنے آپ کو روک کر خود پے ضبط کر کے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ۔ پہلوان وہ نہیں جو مقابل کو پچھاڑ لے بلکہ پہلوان وہ، بہادر وہ جو اپنے غصے پر قابو پالے۔ اس میں بھی نفس کو مارنے کی طرف اشارہ ہے۔ انا اور میں کی نفی ہے۔ اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔ امین
 

عمران اسلم

محفلین
بدھ مت کی تعلیم بھی یہی ہے۔ اسلام میں یہاں کوئی نئی چیز نہیں۔

بدھ مت اور اسلام کے طریقہ کار میں زمین آسمان کا فرق ہے، بدھمت آتما کے نروان کے لئے دنیا تیاگنے کا رستہ بتاتا ہے، جب کہ اسلام روح کو نفس پر قوی رکھنے کے لئے انسان کے اوپر زمہ داریوں کاوزن ڈالتا ہے۔ اسلام میں ترکٰ دنیا کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے، جب کہ بدھ مت میں بالکل برعکس ہے۔
 
Top