ایچ اے خان
معطل
انبیاء کی عصمت و عفت کے بارے میں ایک پوسٹ پڑھی جو فارقلیط رحمانی نے لکھی ہے
ایک دوسری رائے بھی ہے جو نیچے لنک میں دی ہے
مجھے کوئی بھائی قران و حدیث سے ثابت دلائل یا کتاب یا لنک دے سکتے ہیں جس میں انبیاء کی عصمت و عفت سنی عقائد سے ہو۔اگر انگریزی میں ہو تو بہت اچھا ہوگا۔ مجھے ایک غیر ملکی نو مسلم دوست کو اس مسئلے پرسمجھانا ہے۔
شاکر القادری
@محمودغزنوی
http://islamqa.info/en/ref/42216
ایک دوسری رائے بھی ہے جو نیچے لنک میں دی ہے
مجھے کوئی بھائی قران و حدیث سے ثابت دلائل یا کتاب یا لنک دے سکتے ہیں جس میں انبیاء کی عصمت و عفت سنی عقائد سے ہو۔اگر انگریزی میں ہو تو بہت اچھا ہوگا۔ مجھے ایک غیر ملکی نو مسلم دوست کو اس مسئلے پرسمجھانا ہے۔
شاکر القادری
@محمودغزنوی
انبیاء کی عصمت و عفت:
علمائے عقائد نے انبیاء کرام کی عصمت کے بارے میں متعدد دلائل بیان کئے ہیں ہم یہاں ان میں سے چند دلائل پیش کر رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیائے کرام کی بعثت کامقصد انسانوں کی تربیت اور ان کی راہنمائی ہے اور تربیت کے موٴثر اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ مربی میں ایسے صفات پائے جائیں جن کی وجہ سے لوگ اس سے قریب ہوجائیں ۔مثال کی طور پر اگر کوئی مربی خوش گفتار ،فصیح وبلیغ بات کرنے والا ہو لیکن بعض ایسے نفرت انگیز صفات اس میں پائے جائیں جس کے سبب لوگ اس سے دور ہوجائیں تو ایسی صورت میں تربیت کامقصد ہی پورا نہیں ہوگا۔
ایک مربی ورہبر سے لوگوں کی دوری اور نفرت کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اس کے قول وفعل میں تضاد اور دورنگی پائی جاتی ہو۔اس صورت میں نہ صرف اس کی رہنمائیاں بے قدر اور بیکار ہوجائیں گی بلکہ اس کی نبوت کی اساس وبنیاد ہی متزلزل ہوجائےگی۔
اگر کوئی ڈاکٹر شراب کے نقصانات پر کتاب لکھے یاکوئی متاٴثر کرنے والی فلم دکھائے لیکن خود لوگوں کے مجمع میں اس قدر شراب پئے کہ اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوسکے ۔ایسی صورت میں شراب کے خلاف اس کی تمام تحریریں ،تقریریں اور زحمتیں خاک میں مل جائیں گی۔اسی طرح فرض کیجئے کہ کسی گروہ کارہبر کرسی پر بیٹھ کر عدل وانصاف اور مساوات کی خوبیاں بیان کرنے کے لئے زبردست تقریرکرے لیکن خود عملی طور سے لوگوں کا مال ہڑپ کرتارہے تو اس کاعمل اس کی کہی ہوئی باتوں کو بے اثر بنادے گا۔
اللہ تعالیٰ اسی وجہ سے انبیاء کو ایسا علم وایمان اور صبر وحوصلہ عطا کرتاہے تاکہ وہ تمام گناہوں سے خود کو محفوظ رکھیں ۔
اس بیان کی روشنی میں انبیائے الٰہی کے لئے ضروری ہے کہ وہ بعثت کے بعد یا بعثت سے پہلے اپنی پوری زندگی میں گناہوں اور غلطیوں سے دور رہیں اور ان کا دامن کسی بھی طرح کی قول وفعل کی کمزوری سے پاک اور نیک صفات سے معطر رہنا چاہیئے ۔کیونکہ اگر کسی شخص نے اپنی عمر کاتھوڑا سا حصہ بھی لوگوں کے درمیان گناہ اور معصیت کے ساتھ گزاراہھو اور اس کی زندگی کانامہٴ اعمال سیاہ اور کمزوریوں سے بھرا ہو تو ایسا شخص بعد میں لوگوں کے دلوں میں گھر نہیں کرسکتا اور لوگوں کو اپنے اقوال وکردار سے متاثر نہیں کرسکتا۔
رب تعالیٰ کی حکمت کاتقاضا ہے کہ وہ اپنے نبی ورسول میں ایسے اسباب وصفات پیدا کرے کہ وہ ہر دل عزیز بن جائیں۔اور ایسے اسباب سے انہیں دور رکھے جن سے لوگوں کے نبی یارسول سے دور ہونے کا خدشہ ہو ۔ظاہر ہے کہ انسان کے گزشتہ برے اعمال اور اس کاتاریک ماضی لوگوں میں اس کے نفوذ اور اس کی ہر دلعزیزی کو انتہائی کم کردے گا اور لوگ یہ کہیں گے کہ کل تک تو وہ خود بد عمل تھا، آج ہمیں ہدایت کرنے چلاہے؟
تعلیم وتربیت کے شرائط میں سے ایک شرط ،جو انبیاء کرام کے اہم مقاصد میں سے ہے ،یہ ہے کہ انسان اپنے مربی کی بات کی سچائی پر ایمان رکھتاہوکیونکہ کسی چیز کی طرف ایک انسان کی کشش اسی قدر ہوتی ہے جس قدر وہ اس چیز پر اعتماد وایمان رکھتاہے۔ایک اقتصادی یا صحی پروگرام کا پر جوش استقبال عوام اسی وقت کرتے ہیں جب کوئی اعلیٰ علمی کمیٹی اس کی تائید کردیتی ہے ۔کیونکہ بہت سے ماہروں کے اجتماعی نظریہ میں خطا یا غلطی کاامکان بہت کم پایا جاتا ہے ۔ اب اگر مذہبی پیشواوٴں کے بارے میں یہ امکان ہو کہ وہ گناہ کرتے ہوں گے تو قطعی طور سے جھوٹ یا حقائق کی تحریف کا امکان بھی پایا جاتا ہوگا ۔اس امکان کی وجہ سے ان کی باتوں سے ہماراا طمینان اٹھ جائے گا۔ اسی طرح انبیاء کا مقصد جو انسانوں کی تربیت اور ہدایت ہے ہاتھ نہ آئے گا۔
ممکن ہے یہ کہا جائے کہ اعتماد واطمینان حاصل کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ دینی پیشوا جھوٹ نہ بولیں اور اس گناہ کے قریب نہ جائیں تا کہ انہیں لوگوں کا اعتماد حاصل ہو ۔بقیہ سارے گناہوں سے ان کا پرہیز کرنا لازم نہیں ہے کیونکہ دوسرے گناہوں کے کرنے یا نہ کرنے سے مسئلہ اعتماد واطمینان پر کوئی اثر نھیں پڑتا۔
جواب یہ ہے کہ اس بات کی حقیقت ظاہر ہے ،کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص جھوٹ بولنے پر آمادہ نہ ہو لیکن دوسرے گناہوں مثلاً آدم کشی ،خیانت اور بے عفتی وبے حیائی کے اعمال کرنے میں اسے کوئی باک نہ ھو،اصولاً جو شخص دنیا کی لمحاتی لذتوں کے حصول کے لئے ہر طرح کے گناہ انجام دینے پر آمادہ ہو وہ ان کے حصول کے لئے جھوٹ کیسے نہیں بول سکتا۔؟
اصولی طور سے انسان کو گناہ سے روکنے والی طاقت ایک باطنی قوت یعنی خوف خدا اور نفس پر قابو پاناہے ۔جس کے ذریعہ انسان گناہوں سے دور رہتا ہے ۔پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جھوٹ کے سلسلہ میں تو یہ قوت کام کرے لیکن دوسرے گناہوں کے سلسلہ میں جو عموماً بہت برے اور وجدان و ضمیر کی نظر میں جھوٹ سے بھی زیادہ قبیح ہوں ،یہ قوت کام نہ کرے ؟اور اگر ہم اس جدائی کو ثبوت کے طور پر قبول کربھی لیں تو اثبات کے طور سے یعنی عملاً عوام اسے قبول نہیں کریں گے۔کیونکہ لوگ اس طرح کی جدائی کو ہرگز تسلیم نھیں کرتے۔
اس کے علاوہ گناہ جس طرح گناہ گار کو لوگوں کی نظر میں قابل نفرت بنادیتے ہیں اسی طرح لوگ اس کی باتوں پر بھی اعتماد واطمینان نہیں رکھتے اور” یہ دکھو کیا کہہ رہاہے یہ نہ دیکھو کون کہہ رہاہے کا فلسفہ فقط ان لوگوں کے لئے موٴثر ہے جو شخصیت اور اس کی بات کے در میان فرق کرنا چاہتے ہیں لیکن ان لوگوں کے لئے جو بات کی قدرقیمت کو کہنے والے کی شخصیت اور اس کی طہارت وتقدس کے آئینہ میں دیکھتے ہیں یہ فلسفہ کارگر نہیں ہوتا۔
یہ بیان جس طرح رہبری وقیادت کے منصب پر آنے کے بعد صاحب منصب کے لئے عصمت کو ضروری جانتاہے،اسی طرح صاحب منصب ہونے سے پہلے اس کے لئے عصمت کو لازم وضروری سمجھتاہے ۔کیونکہ جو شخص ایک عرصہ تک گناہ گارو لاابالی رہاہواور اس نے ایک عمر جرائم وخیانت اور فساد میں گزاری ہو، چاہے وہ بعد میں توبہ بھی کرلے ،اس کی روح میں روحی ومعنوی انقلاب بھی پیدا ہوجائے اور وہ متقی وپرہیزگاراور نیک انسان بھی ہوجائے لیکن چونکہ لوگوں کے ذہنوں میں اس کے برے اعمال کی یادیں محفوظ ہیں لہذا لوگ اس کی نیکی کی طرف دعوت کو بھی بد بینی کی نگاہ سے دیکھیں گے اور بسا اوقات یہ تصور بھی کرسکتے ہیں کہ یہ سب اس کی ریاکاریاں ہیں وہ اس راہ سے لوگوں کو فریب دینا اور شکار کرنا چاہتاہے۔اور یہ ذہنی کیفیت خاص طورسے تعبدی مسائل میں جہاں عقلی استدلال اور تجزیہ کی گنجائش نہیں ہوتی ،زیادہ شدت سے ظاہر ہوتی ہے۔
مختصر یہ کہ شریعت کے تمام اصول و فروع کی بنیاد استدلال و تجربہ پر نہیں ہوتی کہ پیغمبر ایک فلسفی یا ایک معلم کی طرح سے اس راہ کو اختیار کرے اور اپنی بات استدلال کے ذریعہ ثابت کرے ،بلکہ شریعت کی بنیاد وحی الٰہی اور ایسی تعلیمات پر ہے کہ انسان صدیوں کے بعد اس کے اسرار و علل سے آگاہ ہوتا ہے اور اس طرح کی تعلیمات کو قبول کرنے کے لئے شرط یہ ہے کہ لوگ پیغمبر کے اوپر سو فی صد ی اعتماد کرتے ہوں کہ جو کچھ وہ سن رہے ہیں اسے وحی الٰہی اور عین حقیقت تصور کریں ، اور ظاہر ہے کہ یہ حالت ایسے رہبر کے سلسلے میں لوگوں کے دلوں میں ہر گز پیدا نہیں ہو سکتی جس کی زندگی ابتدا سے انتہا تک روشن و درخشاں اور پاک و پاکیزہ نہ ہو۔
قرآن کریم کی متعدد آیات سے مستفاد ہوتا ہے کہ انبیاء کرام ہر گناہ ، خطا و لغزش سے معصوم (محفوظ) ہوتے ہیں، چنانچہ ذیل میں ہم چند آیات کے ترجمہ بطور دلیل پیش کرتے ہیں :
" (یہی وہ لوگ ہیں) جن کو خدا نے ہدایت کی ہے، تو تم انہیں کی راہ چلو۔"
(قرآن مجید، سورہ انعام 6، آیت : 90)
اس آیت شریف سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ انبیا ء کرام کے اسماء کا ذکر کیا ہے، اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے : ”میں نے ان کے آباء و اولاد میں سے بھی بعض کو رسول بنایا، اور یہ وہ لوگ ہیں جن کی خود خدا نے ہدایت کی۔آیت مبارکہ” فَبِہُداہُمُ اقْتَدِہْ“(یعنی انہیں کی راہ )سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمومی ہدایت نہیں ہے ،بلکہ ایک ایسی ہدایت ہے جو صرف انبیاءعلیہم السلام سے مخصوص ہے، لہٰذا اس ہدایت اور امتیاز کے ہوتے ہوئے کوئی نبی گناہ نہیں کرسکتا ،اور نہ وہ ہدایت کے راستے سے گمراہ ہوسکتا ہے، چنانچہ دوسری آیت میں صراحت کے ساتھ ارشاد ہوا :
"اور جسے اللہ ہدایت دےاسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا۔"
(قرآن مجید ، سورہ زمر 39، آیت : 37)
مذکورہ دونوں آیتوں کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ تمام انبیاء و مرسلین کی ہدایت و راہنمائی اللہ تعالیٰ نے کی ہے، اور ہدایت بھی ایسی کی ہے کہ گناہ صغیرہ کا بھی کوئی نبی و رسول ارتکاب نہیں کرسکتا،لہٰذا جب ضلالت ،گمراہی اور گناہ ان سے سرزد نہیں ہو سکتا تو اب دوسرے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ ان بر گزیدہ افراد کی پیروی کریں۔اب رہا ضلالت ، گمراہی ، معصیت ا ور نافرمانی کسے کہتے ہیں ،تو قرآن میں اس کی بھی نشان دہی کی گئی ہے، ارشادہوتا ہے:
1. "اے اولاد آدم!کیا میں نے تم سے عہد نہ لیا تھا کہ تم شیطان کی پیروی نہیں کرو گے؟ یقیناً وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔"
(قرآن مجید ، سورہ یٰس 36، آیت 60)
اس آیت میں شیطان کی پرستش اور پیروی کو گمراہی کہا گیاہے، یعنی ہر وہ گمراہی اور معصیت جو شیطان کی وجہ سے وجود میں آئے اسے قرآن کی زبان میں ضلالت و گمراہی کہا جاتاہے، لہٰذا تینوں آیتوں کا مفہوم یہ ہوگا :انبیاء و مرسلین ہر اس گمراہی اور معصیت سے محفوظ ہوتے ہیں جسے ضلالت کہا گیا ہے ، لہذا خلاصہ یہ ہوا :
1. انبیاء و رسول انہیں کو منتخب کیا جاتا ہے جن کو خدا نے اپنی خاص ہدایت سے نوازہ ہو۔
2. انبیاء و مرسلین میں ضلالت و گمراہی کا شائبہ بھی نہیں پایا جاسکتا،کیونکہ وہ خاص ہدایت سے نوازے گئے ہیں ۔
3. قرآن مجید کی اصطلاح میں ہر وہ معصیت اور انحراف جو خدائے تعالیٰ کے حکم کے مقابلہ میں ہو اسے ضلالت اور گمراہی کہا جاتا ہے ۔
نتیجہ : مذکورہ تینوں مطالب کی روشنی میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تمام انبیاء و مرسلین پاک و پاکیزہ اور معصوم ہوتے ہیں،اوران سے کوئی خطا اور گناہ سزد نہیں ہو سکتا ۔
2. "اورہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اس لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے حکم کی سے اس کی اطاعت کی جائے۔"
(قرآن مجید، سورہ نساء 4، آیت : 64)
اس آیت سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ کوئی رسول اس وقت تک مبعوث نہیں ہوتاجب تک کہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری نہ کی جائے، یعنی اللہ کا منشاء یہ ہے کہ انبیاء ہر حال میں ُمطاع قرار پائیں گویا گفتار و کردار دونوں کے اعتبار سے ان کی اطاعت کی جائے، کیونکہ جس طرح انبیاء کرام کی گفتار ذریعہ ٴ تبلیغ ہے اسی طرح ان حضرات کا کردار بھی وسیلہ ٴ تبلیغ ہوتا ہے۔
آیت کے مطابق انبیاء و مرسلین کے کردار و گفتار دونوں کی اطاعت کرنا چاہیئے لہٰذا اگر انبیاء سے بھول اور نسیان واقع ہو تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ یہ بھول محبوب ا ورمشیت خدا وندی ہے، چونکہ خدا ئے تعالیٰ نے انبیاء کی پیروی لوگوں پہ فرض کی ہے، لہٰذا جیسے افعال بھی انبیاء کرام سے صادر ہوں گے چاہے برے افعال ہو ں یا اچھے ،ان کی اطاعت ہر حال میں ہمارے اوپر من جانب الله لازم قرار پائے گی حالانکہ خدا وند تعالیٰ نے برے افعال سے منع فرمایا ہے۔
لہذا تسلیم کرنا پڑے گا کہ انبیاء کو معصوم ہونا چاہئے تاکہ خدا کی ذات پر حرف نہ آئے، بالفاظ دیگر اگر انبیاء معصوم نہ ہوں تو لازم آئے گا کہ جس چیز کو خدائے تعالیٰ نے منع فرمایا اسی کوبجالانے کا حکم بھی فرمایا ہے!! یعنی جو چیز محبوب ِخدا ہے وہی چیز مبغوض خدا بھی ہے، اور ذات پروردگار کیلئے ایسا تصور کرنا یقینا فاسد و باطل ہے۔
3. "وہ (شیطان) بولا تیری عزت و جلال کی قسم ! ان میں سے تیرے مخلص بندوں کے سوا سب کو گمراہ کردوں گا۔"
(قرآن مجید، سورہ ص 38، آیت : 82، 83)
اس آیت میں شیطان کے قول کو نقل کیا گیا ہے کہ وہ سوائے مخلص بندوں کے تمام لوگوں کو بہکائے گا لہٰذا اگرانبیائے کرام سے کوئی چھوٹے سے چھوٹا گناہ سرزد ہوا تو گویا وہ شیطان کے بہکاوے میں آگئے!اور جب انبیاء پر شیطان اپنا پھندہ ڈال سکتا ہے تو پھر وہ مخلصین عباد اللہ میں نہ رہیں گے۔ حالا نکہ خدائے تعالیٰ انبیائے کرام کو اپنے برگزیدہ اور مخلصین بندوں میں سے شمار کرتا ہے جیسا کہ مذکورہ آیت سے پہلے چند آیا ت کے اندر اللہ تعالیٰ نے انبیا ء کو مخلصین بندوں میں سے قراردیاہے :
"بیشک ہم نے ان لوگوں کو ایک خاص صفت (آخرت کی یاد) سے ممتاز کیا ہے۔"
(قرآن مجید، سورہ ص38، آیت : 46)
آپ نے ملا حظہ فرمایا کہ خود شیطان اس بات کا اقرار و اعتراف کرتا ہے کہ وہ ان لوگوں کو نہیں بہکا سکتا جو مخلص ہیں اوریہی نہیں بلکہ خدا ئے تعالیٰ نے بھی انبیاء کرام کے مخلص ہونے کی گواہی دی ہے، اور ان کے مرتبہ ٴاخلاص کی اپنی طرف سے تضمین اور تائید فرما ئی ہے، لہٰذا اس بات سے ثابت ہو تا ہے کہ شیطان کے وسوسہ کی پہنچ اور اس کے فریب دہی کے کمند کی رسائی انبیاء کے دامن تک نہیں ہو سکتی، اوریہاں سے ہمیں اس بات کا بھی یقین کامل ہو جاتا ہے کہ انبیا ء سے کسی گناہ و معصیت کا صادر ہونا ممکن نہیں ہے۔
http://islamqa.info/en/ref/42216