مگر اپنے بھی اب گنتی کے دم خم رہ گئے ہیں کوئی آشفتہ سر باقی نہیں، ہم رہ گئے ہیں
نوید صادق محفلین ستمبر 22، 2008 #21 مگر اپنے بھی اب گنتی کے دم خم رہ گئے ہیں کوئی آشفتہ سر باقی نہیں، ہم رہ گئے ہیں
نوید صادق محفلین ستمبر 22، 2008 #22 سرِ کوئے خرابی سر بسر بنتے رہیں گے تری تکمیل تک ہم ٹوٹ کر بنتے رہیں گے مکاں کے منہدم ہونے کا کوئی غم نہیں ہے مکیں باقی رہے تو اور گھر بنتے رہیں گے
سرِ کوئے خرابی سر بسر بنتے رہیں گے تری تکمیل تک ہم ٹوٹ کر بنتے رہیں گے مکاں کے منہدم ہونے کا کوئی غم نہیں ہے مکیں باقی رہے تو اور گھر بنتے رہیں گے
نوید صادق محفلین ستمبر 22، 2008 #23 کب ہم نے بھیک مانگ کے کھایا نہیں ہے رزق؟ کس روز اپنے ہاتھ سے کاسے جدا ہوئے؟
نوید صادق محفلین ستمبر 22، 2008 #24 اک نقشِ کفِ پا ہوں سرِ جادہء سطوت پھر نقشِ کفِ پا بھی کسی کفش نشیں کا
نوید صادق محفلین ستمبر 22، 2008 #25 مہاجروں کے لئے ہر زمیں نہیں حبشہ یہ کیا ضرور کہ ہر بادشہ نجاشی ہو کسی سے بات بھی سرگوشیوں میں کرتا ہوں مبادا سن کے ہواؤں کی دلخراشی ہو
مہاجروں کے لئے ہر زمیں نہیں حبشہ یہ کیا ضرور کہ ہر بادشہ نجاشی ہو کسی سے بات بھی سرگوشیوں میں کرتا ہوں مبادا سن کے ہواؤں کی دلخراشی ہو
نوید صادق محفلین ستمبر 22، 2008 #26 رہی ہے ساتھ ہر ہر گام پر پرچھائیں تیری سفر سارا ہی تیری ہمرہی میں طے ہوا ہے
نوید صادق محفلین ستمبر 22، 2008 #27 چراغِ جسم! ادھر بات سن ہوا کی ذرا یہ شعلگی، یہ تپِ ہست ہے ذرا کی ذرا
نوید صادق محفلین ستمبر 22، 2008 #28 ترا نقشِ قدم تا حشر لو دیتا رہے گا ہمارے پاس اب اس کے سوا کیا رہ گیا ہے ہم اب کشکول ہاتھوں میں لئے پھرتے ہیں اختر کہ دریوزہ گری اپنا حوالہ رہ گیا ہے
ترا نقشِ قدم تا حشر لو دیتا رہے گا ہمارے پاس اب اس کے سوا کیا رہ گیا ہے ہم اب کشکول ہاتھوں میں لئے پھرتے ہیں اختر کہ دریوزہ گری اپنا حوالہ رہ گیا ہے
نوید صادق محفلین ستمبر 22، 2008 #30 غزل کہتے ہوئے تیرا سراپا سوچتا ہوں ذرا تو سوچ تو میں تجھ کو کتنا سوچتا ہوں
نوید صادق محفلین ستمبر 22، 2008 #31 نجانے عکسِ غزل جا بسا کہاں اختر غزل سرائی تو ملزوم ہے ملاپ کے ساتھ
نوید صادق محفلین ستمبر 22، 2008 #33 میرے دل میں بھی جگہ تو نے بنا لی دنیا شہر تو شہر تھا، صحرا نہیں چھوڑا تو نے