انتخابِ رام ریاض

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے

نعت
جو بھی شیریں سخنی ہے مرے مکی مدنی
تیرے ہونٹوں سے چھنی ہے مرے مکی مدنی

صنعتِ نعت میں الفاظ کے ہیروں کی تلاش
ہنرِ کان کنی ہے مرے مکی مدنی

میں کہاں اور تری مدح کہاں، یہ تو تمام
تیری رحمت فِگنی ہے مرے مکی مدنی

نسل در نسل تری ذات کے مقروض ہیں ہم
تو غنی ابنِ غنی ہے مرے مکی مدنی

میری سوچوں سے مدینہ کی مسافت ہے طویل
میں ہوں اور خستہ تنی ہے مرے مکی مدنی

استقامت ترے اندر کہ تہہِ آب چٹان
اس پہ نازک بدنی ہے مرے مکی مدنی

دستِ قدرت نے ترے بعد، پھر ایسی تصویر
نہ بنائی، نہ بنی ہے مرے مکی مدنی

کس سے نسبت ہے مجھے، کس کی ضرورت ہے مجھے؟
میرا مکی مدنی ہے مرے مکی مدنی

تیرا پھیلاوء بہت ہے ترا قامت ہے بلند
تیری چھاوءں بھی گھنی ہے مرے مکی مدنی

میرے مسلک میں تو جس دل میں تری چاہ نہ ہو
کشتنی، سوختنی ہے مرے مکی مدنی

رام ملحد کہ مسلماں ہے کبھی فیصلہ دے
ہر طرف رائے زنی ہے مرے مکی مدنی
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

پانی پر تصویر اتارا کرتے تھے
ہم تالاب میں پتھر مارا کرتے تھے

اگلے لوگوں نے بھی وقت گزارا ہے
سوچتا ہوں کس طرح گزارا کرتے تھے

کوئی بات تھی، میرے سر پر چاند نہ تھا
تم جو میری سمت اشارہ کرتے تھے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

آج تنہائی میں دل ڈوب گیا
بجھ گیا صبح کا تارا لوگو

اب تو ناراض نہ ہو گے ہم سے
کر لیا ہم نے کنارہ لوگو

کوئی آندھی، نہ بگولہ، نہ ہوا
دشت خاموش ہے سارا لوگو

تم بھی بے برگ نظر آتے ہو
تم پہ چل جائے نہ آرا لوگو

رام دیکھا نہیں جاتا! ورنہ
اور سب کچھ ہے گوارا لوگو
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

یاد کا موسم جب سے بادل چال ہوا
اجڑ گئے سپنے، جیون جنجال ہوا

کھیتوں میں پھر سرسوں کی رُت آ پہنچی
آج تجھے بن دیکھے پورا سال ہوا

تیری راہیں تکتے آنکھیں سُوج گئیں
تیری چاپ ترستے دل پامال ہوا

تیرے غم میں پھٹ گئے سینے راہوں کے
کیا بتلاؤں پیڑوں کا جو حال ہوا

رام نے شبنم موتی چننے چھوڑ دئیے
جب سے تری زلفوں سے مالا مال ہوا
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

اُبھرا جب آکاش پہ تارا دونوں وقت ملے
میں نے اچانک تجھے پکارا دونوں وقت ملے

سبز درختوں پر چُپ چھائی، ٹھہر گیا دریا
آج نگر سے کون سدھارا دونوں وقت ملے

رات نے مجھ سے تارے چھینے، دن نے سورج لوٹا
بھول گیا ہوں نام تمہارا دونوں وقت ملے

تند ہوا کی موجیں حائل تیرے میرے بیچ
اور فضا جلتا انگارا دونوں وقت ملے

شام دلہن مسکائی جب یادوں کے پنگھٹ پر
میں نے دن کا بوجھ اتارا دونوں وقت ملے

پہروں بیٹھ کے روتا ہوں جب یاد آ جاتے ہیں
تیری باتیں، ندی کنارا دونوں وقت ملے

آج کا چاند نجانے یارو! قسمت کسے دکھائے
کہہ کر ڈوب گیا اک تارا دونوں وقت ملے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

سرما تھا مگر پھر بھی وہ دن کتنے بڑے تھے
اس چاند سے جب پہلے پہل نین لڑے تھے

رستے بڑے دُشوار تھے اور کوس کڑے تھے
لیکن تری آواز پہ ہم دوڑ پڑے تھے

بہتا تھا مرے پاؤں تلے ریت کا دریا
اور دھوپ کے نیزے مری نس نس میں گڑے تھے

پیڑوں پہ کبھی ہم نے بھی پتھراؤ کیا تھا
شاخوں سے مگر ٹوٹے ہوئے پات جھڑے تھے

جنگل نظر آئے ہیں بھرے شہر ہمیں تو
کہتے ہیں کہ اس دنیا میں انسان بڑے تھے

اے رام! وہ کس طرح لگے پار مسافر
جن کے سروسامان یہ مٹی کے گھڑے تھے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

لوگ کیا کیا نہ ہمیں کہتے تھے
ہم ہی پانی کی طرح بہتے تھے

یہ ترا شہر بسانے والے
اپنے بھی دل میں کبھی رہتے تھے

کچھ نہ کچھ تم نے بھی سوچا ہو گا
لوگ تم سے بھی تو کچھ کہتے تھے

جانے کیوں تیز ہوا سے پہلے
پیڑ خاموش بہت رہتے تھے

یار ہی تیز نظر تھے شاید
ہم تری بات کہاں کہتے تھے

رام جب وقت کا سیلاب آیا
لوگ تنکوں کی طرح بہتے تھے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

جھونپڑیوں میں آگ لگی اور کافی شور مچا
پھر وہ مسافر لوگ نہ جانے کس سنسار گئے

اکثر تیری صورت دیکھ کے یوں محسوس ہوا
جیسے دل میں ٹوٹ کہیں بجلی کے تار گئے

رام ہماری دیکھتی آنکھوں کیسا شہر بسا
گھر کا رستہ بھول گئے ہیں جب بازار گئے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

تنہائی اوڑھ لی ہے، کبھی غم بچھا لیا
مشکل سے زندگی نے کوئی راستہ لیا

ایسے بھی لوگ وقت نے دکھلائے ہیں کہ ہم
انجان بن گئے کبھی چہرہ چھپا لیا

جیسے ابھی تلک ہو ہو مری راہ دیکھتا
وہ پہلی شب کا چاند، وہ چہرہ سوالیہ

دھرتی کا بوجھ اتنا گرانبار تو نہیں
کیوں تم نے آسمان کو سر پر اُٹھا لیا

شاید ہمارے بعد ہمیں کوئی پوچھ لے
ہم نے بھی اپنے نام کا کتبہ لکھا لیا

اس طرح ہنس رہے ہیں مری سمت دیکھ کر
یاروں نے جیسے رام ہمالہ گرا لیا
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

آنکھوں میں تیز دھوپ کے نیزے گڑے رہے
ہم تیرے انتظار میں پھر بھی کھڑے رہے

تُم رُک گئے پہ سنگ کا میلہ نہ کم ہوا
اس کارواں کے ساتھ مسافر بڑے رہے

میرے بدن پہ صرف ہوا کا لباس تھا
تیری قبا میں چاند ستارے جڑے رہے

پیڑوں کو لوگ پوجتے آئے ہیں دیر سے
پتے ہمیشہ پاؤں میں بکھرے پڑے رہے

شاید وہ رام میری طرح بدنصیب تھے
جو لوگ تیرے پیار کی ضد پر اڑے رہے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

اس ڈر سے اشارہ نہ کیا ہونٹ نہ کھولے
دیکھے کہ نہ دیکھے، کوئی بولے کہ نہ بولے

پتھر کی طرح تم نے مرا سوگ منایا
دامن نہ کبھی چاک کیا، بال نہ کھولے

میں نے سرِ گرداب کئی بار پکارا
ساحل سے مگر لوگ بڑی دیر سے بولے

میں عالمِ تنہائی میں نکلا ہوں سفر پر
پھر گردشِ ایام کہیں ساتھ نہ ہو لے

پھر رام یہاں چُپ کو بہت دیر لگے گی
جی کھول کے ہنس لے ابھی جی کھول کے رو لے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

یادوں کے دریچوں کو ذرا کھول کے دیکھو
ہم لوگ وہی ہیں کہ نہیں، بول کے دیکھو

ہم اوس کے قطرے ہیں کہ بکھرے ہوئے موتی
دھوکا نظر آئے تو ہمیں رول کے دیکھو

کانوں میں بڑی دیر تلک گونج رہے گی
خاموش چٹانوں سے کبھی بول کے دیکھو

ذرے ہیں، مگر کم نہیں پاؤ گے کسی سے
پھر جانچ کے دیکھو ہمیں پھر تول کے دیکھو
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

گئے وہ لوگ، یار! کون آج کس کا یار ہے
خزاں کے لوٹنے تلک ہمیں چمن سے پیار ہے

کوئی ہمارے درمیان اتنا فاصلہ نہیں
تمہارے دل پہ بوجھ ہے، ہمارے سر پہ بار ہے

یہ سوچنا! جو قیدِ زندگی سے بھاگنے لگو
بہت بلند ہے فصیل، تار خاردار ہے

کُھلے بدن تمام مفلسی کا شہر سو گیا
کسی کے دل میں خوف ہے نہ کوئی پہریدار ہے

کچھ ایسے شب گزار بھی ہیں رام جن کے واسطے
یہ چاند ریگزار ہے، یہ چاندنی غبار ہے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

تم نے موسم کئی دیکھے ہوں گے
یہ بڑے دن کبھی چھوٹے ہوں گے

یاد کرتے ہیں جنہیں لوگ بہت
وہ بھی شاید ترے جیسے ہوں گے

پتھروں میں بھی کبھی جاں ہو گی
یہ بھی ہنستے کبھی روتے ہوں گے

مفت احسان نہ لینا یارو
دل ابھی اور بھی سستے ہوں گے

تیرا دامن تو ابھی اُجلا ہے
پھر مرے ہاتھ ہی میلے ہوں گے

رام اس دھوپ بھری دنیا میں
ایک دن پیڑ نہ پتے ہوں گے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

تمہارے ساتھ ہی موسم بھی رُخ بدلنے لگے
ہوا تھمی ہے تو بارش کے تیر چلنے لگے

ہمارا خون ہے لاوا، ہمارے دل پتھر
ہماری آنکھ سے آنسو کہاں نکلنے لگے

رہِ حیات میں یوں تم نے میرا ساتھ دیا
کہ جیسے چاند مسافر کے ساتھ چلنے لگے

پتا نہیں کہ وہ اب کس مقام پر ہو گا
سُنا ہے لوگ صداؤں سے تیز چلنے لگے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

لوگ کب تک تری مورت دیکھیں
اس سے بہتر کوئی صورت دیکھیں

تو کہ ہر شخص کو اُجلا سمجھے
ہم کہ ہر دل میں کدورت دیکھیں

میرے دامن میں کوئی تار نہیں
لوگ اب اپنی ضرورت دیکھیں

کوئی یوں بھی ہمیں پہچانتا ہے
آؤ ہر ایک کی صورت دیکھیں

تو بھی پیارا ہے، زمانہ بھی حسیں
تجھے دیکھیں کہ ضرورت دیکھیں

مرنے جینے کی ہزاروں فلمیں
رام کس کس کی مہورت دیکھیں
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

جانے کیا کچھ دل پر گزری آج جو دیکھا یاروں کو
کیسی مٹی چاٹ گئی ان پتھر کی دیواروں کو

ہم تو جنم کے اندھے ٹھہرے، ہمیں تو کچھ معلوم نہیں
دُنیا کب سے دیکھ رہی ہے سورج، چاند، ستاروں کو

تیز ہوا کے چلتے ہی یہ ریگ محل اُڑ جائیں گے
آؤ چھوڑ کے شہروں کو آباد کریں پھر غاروں کو

رام کسی کی صبحِ جوانی اتنی تو ہے یاد ہمیں
زلفوں سے کچھ دُھواں اُٹھا اور آگ لگی رُخساروں کو
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

ہم نشیں! تیری بھی آنکھوں میں جھلکتا ہے دُھواں
تو بھی منجملہء اربابِ نظر لگتا ہے

میرے دل میں بڑے آئینے ہیں، تصویریں ہیں
سچ بتانا کہ تمہیں کیسا یہ گھر لگتا ہے

کوئی لیتا ہے ترا نام تو رُک جاتا ہوں
اب ترا ذکر بھی صدیوں کا سفر لگتا ہے

شب کے محبوس کو سونے کی اجازت ہی نہیں
آنکھ لگتی ہے کہ دیوار سے سر لگتا ہے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

گزشتہ اہلِ سفر کو جہاں سکون ملا
نہ جانے کیوں ہمیں ان منزلوں پہ خون ملا

خراب وقت ہے، اب فاصلہ ہی بہتر ہے
کبھی ملیں گے جو ماحول پُرسکون ملا

فلک کی سطح پہ تارے الگ چمکتے ہیں
فضا کے نیلگوں پانی میں کب یہ خون ملا

کبھی زمانے سے مانگا تھا پیکرِ شیریں
تراشنے کو ہمیں کوہِ بے ستون ملا
 
Top