انتخابِ رام ریاض

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

اتنا سیلابِ بلا سر سے گزارا میں نے
جان ہاری ہے مگر دل نہیں ہارا میں نے

اس سے پہلے سرِ گرداب نہیں دیکھا تھا
ڈولتا چاند، لرزتا ہوا تارا میں نے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

سچ پر کون گزارے دن
کس کے لگے کنارے دن

ہجر کے کالم میں لکھنا
ساری راتیں، سارے دن
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

وہی دلدار، وہی یار، یگانہ اپنا
اسی کافر سے تعلق ہے پرانا اپنا

تم زمانے کے مخالف تھے مگر تم پر بھی
کچھ نہ کچھ چھوڑ گیا رنگ زمانہ اپنا

آخری بار وہ اس شان سے بچھڑا ہے کہ پھر
اس سے ملنے کو کبھی دل نہیں مانا اپنا

پرسشِ درد پہ دنیا کا حوالہ دینا
میرا پوچھے تو اسے حال سنانا اپنا

تیرے ہمسائے بنے ہیں تو یہ معلوم ہوا
کتنا مشکل ہے کوئی غیر بنانا اپنا

صبح تک رام کسی نے ہمیں آواز نہ دی
اس طرح ٹوٹ گیا خواب سہانا اپنا
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

میں جن آوازوں کو دشت میں چھوڑ آیا
تنہائی میں اب تک مجھے پکارتی ہیں

رام اب بھی دیہاتوں میں بوڑھی مائیں
چرخا کات کے پچھلا پہر گزارتی ہیں
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

اندھیری رات میں جب کوئی دکھیا رونے لگتا ہے
میں ڈرتا تو نہیں لیکن مجھے کچھ ہونے لگتا ہے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

جو دل ملا تھا ہمیں شکر ہے زباں بھی ملی
کہ اس مکاں میں کوئی راستہ تو دود کا ہے

وہ ساحلوں پہ کھڑا لہریں گنتا رہتا ہے
حصول کچھ بھی نہیں، کاروبار سود کا ہے

پڑھے گا کون یہاں اشتہار عبرت کا
کہ تجھ کو نام کا لپکا مجھے نمود کا ہے

مجھے تمہاری رفاقت پہ اعتراض نہیں
مگر تمہارا زمانہ تو کھیل کود کا ہے

مری رسائی میں یہ مشکلات ہیں کہ مری
بساط ، خاک کی ہے اور سفر، عمود کا ہے

خبر نہیں، وہ ہمیں رام کیوں نہیں ملتا
وگرنہ روح سے کیا فاصلہ وجود کا ہے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

ہمارے بعد ، محبت کی رسم ، کیا معلوم
کسے جلائیں، کسے قبر میں اتاریں گے

بہت سے رام یہاں منہ پُھلائے پھرتے ہیں
یہ لوگ جلتے چراغوں میں پھونک ماریں گے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

کونے کھدروں میں اوقات گزارے جائیں
میناروں کا قصد کریں تو مارے جائیں

انسانوں میں اتنا پیار ہو، جنت میں بھی
کوئی نہ جائے اور جائیں تو سارے جائیں

رام اس زور کی سردی میں اب کون آئے گا
آدھی رات ہوئی ہے کسے پکارے جائیں
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

ترا ہی غم ہے جسے دل سہار لیتا ہے
وگرنہ کون کسی کا بخار لیتا ہے

اب ان کا ذکر کتابوں میں بھی نہیں ملتا
کچھ ایسے نام مرا غمگسار لیتا ہے

بہت دنوں سے یہاں رام قحط سالی ہے
کوئی دماغ، کوئی دل ادھار لیتا ہے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

بازار میں بکتی ہے بڑائی مرے بھائی
پیسہ ترے پلے ہے نہ پائی مرے بھائی

دیوار پہ ہمسائے کئی قتل ہوئے ہیں
اور وہ بھی کسی نے نہ بنائی مرے بھائی

اس واسطے میں خاکِ وطن کا ہوں محافظ
یہ بھی ہے غریبوں کی کمائی مرے بھائی

قرضے کبھی قوموں‌کو ابھرنے نہیں دیتے
کھا جاتا ہے احساسِ گدائی مرے بھائی

دشمن تجھے کیسے نظر آنے لگے دشمن
تو نے ابھی دیکھے نہیں بھائی مرے بھائی

سب اپنا لہو چاٹ کے ہو جاتے ہیں خاموش
دیتا ہے یہاں کون دہائی مرے بھائی

میں سوچ رہا تھا تجھے کس طرح ملا جائے
پھر ایک زمانے کی جدائی مرے بھائی

اک دن ترے خاکے میں وہی رنگ بھرے گا
جس نے تری تصویر بنائی مرے بھائی
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

کنجِ تنہائی میں آرام سے سونے والے
یاد آئیں گے کسی دن تجھے رونے والے

یہ تو ہو گا، تری ہو جائے گی دنیا، لیکن
بے طلب ہم سے نہ ہوں گے ترے ہونے والے

جا مرے چاند! اُدھر کھیل کسی اور کے ساتھ
میرا بچہ بڑا ضدی ہے کھلونے والے

کبھی راتوں کے کھڑے پانی میں تارے تَیرا
چاند تو ڈوب ہی جائے گا ڈبونے والے

اس طرح کون مرے بعد تجھے دیکھے گا
تیز کرنیں مری آنکھوں میں چبھونے والے

تو جو بچھڑا ہے تو اب بھول گیا ہوں یہ بھی
کتنی تعداد میں تھے بھیڑ میں کھونے والے

رام بستی کی زمینیں تو ہیں زرخیز مگر
اب یہاں کاٹنے والے ہیں نہ بونے والے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

تیری صورت، تری آواز بھی پہچانتے ہیں
ہم کسی اور حوالے سے تجھے جانتے ہیں

ہم نے بھی عمر گزاری ہے شبِ ہجراں میں
ہم بھی یاروں کو ستاروں کی طرح جانتے ہیں

ہاتھ خالی ہیں تو دانائی کا اظہار نہ کر
ایسی باتوں کا بڑے لوگ برا مانتے ہیں

اس قدر اوجِ نزاکت پہ ہے اب رشتہء جاں
ٹوٹ جاتا ہے اگر اور اسے تانتے ہیں

کس طرح میں تجھے مٹی کے حوالے کر دوں
لوگ تو زر کے لئے ریت کو بھی چھانتے ہیں

رام اب شہر میں رہنے کا ارادہ ہی نہیں
دل لگانے کے تو ہم سارے ہنر جانتے ہیں
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

اگر ہم زندگی کا راسہ ہموار کر لیں گے
ہمارے بعد کافی لوگ دریا پار کر لیں گے

وطن پر جان دینے کے لئے تم ہم سے کہتے ہو
یہ کوئی کام ہے، اس کو تو دنیا دار کر لیں گے

اسے تو کیا شفا ہو گی، مجھے کچھ ایسا لگتا ہے
یہ چارہ ساز اپنے آپ کو بیمار کر لیں گے

ہمارے واسطے ہمسائیگی بھی اس کی نعمت ہے
جدائی ہو گئی تو درمیاں دیوار کر لیں گے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

مرے اطراف میں اب بھی کچھ آوازیں تو اُٹھتی ہیں
مگر یہ شور پل دو پل ہوا کا ساتھ دیتا ہے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

سنا ہے پھر چمن میں آ گئے ہیں دن بہار کے
کہاں چلے گئے ہو دوستو! ہمیں پکار کے

بکھر گئے ہیں پات، دکھ سے جھک گئی ہیں ڈالیاں
ہوا کو جانے کیا ملا گلوں کو لوٹ مار کے

کدھر وہ کاروانِ لالہ زار شب نکل گیا
ہمیں مہیب تیرگی کے غار میں اتار کے

بڑے بڑوں کو رام زندگی فریب دے گئی
کسی پہ خاک ڈال کر، کسی کو پھول مار کے
 
Top