انتخابِ رام ریاض

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

تمہارے سامنے ہم نے کہاں محبت کی
یہ تم نے کس سے سنی داستاں محبت کی

یہاں کسی کا کسی سے کوئی تضاد نہیں
مگر کسی نے کسی سے جہاں محبت کی

اس امتحاں کا نتیجہ تمہارے سامنے ہے
ہر ایک شخص سے ہم نے یہاں محبت کی
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

فروغِ حسنِ طلب دیکھنے میں آیا ہے
کہیں سنا ہے، وہ اب دیکھنے میں آیا ہے

تمہارے سامنے جو دیکھنے سے قاصر تھے
تمہارے بعد وہ سب دیکھنے میں آیا ہے

طویل رات، مسلسل سکوت، خواب ہی خواب
پھر اس کے بعد وہ کب دیکھنے میں آیا ہے

میں جب بھی دل کے خرابے سے رام گزرا ہوں
ہجومِ عارض و لب دیکھنے میں آیا ہے
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

تمہاری آنکھ لگتی ہے تو ہم بیدار ہوتے ہیں
تمہارا اپنا عالم ہے، ہماری اپنی دنیا ہے
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

تنہائی کے صحرا سے گزرتے ہوئے آئے
ہم خود سے ترا ذکر ہی کرتے ہوئے آئے

ان جملہ ستاروں کا تعارف ہے ضروری
یہ کون ترے ساتھ نکھرتے ہوئے آئے
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

اب اس بحث میں کیا رکھا ہے، تم اچھے یا ہم اچھے
اتنا اشارہ کافی ہو گا، بیت گئے موسم اچھے
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

میں نے اک عمر گنوائی تو یہ انداز ملا
سوچ لے، پھر مری آواز سے آواز ملا

ایک شعلہ سا گرا، دیر تلک شور رہا
شہر میں پھر نہ کوئی غرفہ و در باز ملا
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

بے پر تھے تو رستے میں کہاں پر نہیں بیٹھے
جب اڑنے لگے، تختِ روں پر نہیں بیٹھے

ہر ایک سے رک رک کے ترا نام لیا ہے
کچھ حرف تھے ایسے کہ زباں پر نہیں بیٹھے

لوگوں نے ترے ہجر کا دن یوں بھی منایا
بازار سے گزرے ہیں دکاں پر نہیں بیٹھے
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

کون سا سانپ تمہیں سونگھ گیا
بولتے کیوں نہیں، بولو یارو

ہم سے نفرت ہے تمہیں دیکھ ، لیا
تم مگر آنکھ تو کھولو یارو

جانے کیا چاند چڑھے رات گئے
دن بھر آرام سے سو لو یارو

مجھ سے یہ بوجھ اٹھایا بھی نہ جائے
اتنا جھکتا بھی نہ تولو یارو
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

کسی مقام پہ ہوتا میں آج، یاروں نے
کسی سفر میں ترے ساتھ چلنے ہی نہ دیا

فلک میں بات یہ دیکھی، کوئی ستارہ ہو
جسے گرایا، اسے پھر سنبھلنے ہی نہ دیا
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

تیری قسمت میں بھی کچھ ہے کہ نہیں
تو ذرا ہاتھ تو پھیلا، دیکھیں

جان سے ہاتھ نہ دھوئے جائیں
اور بہتا ہوا دریا دیکھیں
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

آوارہ لوگ شہر کی گلیوں میں سڑ گئے
وہ پیڑ کٹ گئے ہیں کہ رستے اُجڑ گئے

کس طرح چھا گئی ہے مکانوں پہ خامشی
کس گہری سوچ میں در و دیوار پڑ گئے

اکثر ہوا ہے ، ایسی بھی ٹھنڈی ہوا چلی
جینے کی آرزو میں ہرے پات جھڑ گئے
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

جہاں بھی چھاؤں ملی، چار یار بیٹھ گئے
اگر کبھی شجرِ سایہ دار بیٹھ گئے

تری نگاہ فقیروں پہ اب اٹھے نہ اٹھے
تری نگاہ کے امیدوار بیٹھ گئے

بلا سے، دھوپ پڑے، سر پہ اب کہ برف گرے
کھلی فضا میں غریب الدیار بیٹھ گئے
 
Top