حیدرآبادی
محفلین
(پروفیسر) غیاث متین ... ایک تعارف
١٩٦٠ء کے بعد حیدرآباد دکن سے اُبھرنے والے جدید لب و لہجے کے شعراء میں غیاث متینؔ کا نام بڑا اہم اور نمایاں ہے۔
١٩٦٦ء میں شائع ہونے والی جدید شعراء کی انتھالوجی ''آبگینے'' میں ان کی سات نظمیں شامل ہیں، جسے ہندوستان اور پاکستان کے ادبی حلقوں میں بے حد پسند کیا گیا۔
شب خون ، سوغات ، آواز ، شعر و حکمت ، شاعر ، نوائے وقت (لاہور) ، مَحور (لاہور)، قلم اور سب رس ... جیسے اہم اور معیاری رسائل میں ان کی شعری تخلیقات شائع ہوتی رہی ہیں۔
آل انڈیا ریڈیوحیدرآباد اور اکسٹرنل سروس پروگرام دلّی، ممبئی کی نشریات میں ١٩٦٨ء سے اپنا کلام پیش کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ممبئی دوردرشن اور حیدرآباد دوردرشن کے نیٹ ورک مشاعروں میں حیدرآباد کی بھرپور نمائندگی کر چکے ہیں۔
جولائی ١٩٧٤ء کو حیدرآباد میں ریکارڈ کی گئی ان کی دو نظمیں 'صدی کا غم' اور 'کچی اینٹوں کے پُل' بی بی سی (لندن) کے اُردو سروس پروگرام سے نشر کی جا چکی ہیں۔
١٩٨٠ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ''زینہ زینہ راکھ'' شائع ہوا، جس پر مستند اور جدید فکر کے حامل نقادوں نے مضامین لکھے اور اسے بے حد سراہا۔ ''زینہ زینہ راکھ'' پر آندھرا پردیش اُردو اکیڈمی اور مغربی بنگال اُردو اکیڈمی نے انھیں انعامات سے نوازا۔
غیاث متین نے حیدرآباد میں ادب کے جدید رحجانات کے فروغ میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ وہ ''حیدرآباد لٹریری فورم (حلف) '' کے بانی رُکن ہونے کے علاوہ اس کے جنرل سکریٹری اور نائب صدر بھی رہے۔ شاعری کے علاوہ تنقید پر بھی ان کی گہری نظر ہے ۔ ہم عصر جدید شعراء پر لکھے گئے ان کے تنقیدی مضامین بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔
پروفیسر غیاث متین، صدرِ شعبہء اُردو ، جامعہ عثمانیہ ، حیدرآباد کے عہدہ سے کچھ عرصہ قبل ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔
غیاث متین، اپنے منفرد لب و لہجے اور شعر پڑھنے کے اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے ہندوستان اور پاکستان کے ادبی حلقوں میں اپنی شناخت بنا چکے ہیں۔
یقین ہے کہ ان کا دوسرا مجموعہ کلام '' دھوپ، دیواریں، سمندر، آئینہ '' بھی اپنی جدّتِ فکر اور ندرتِ اظہار کے باعث اکیسویں صدی میں جدید شعر و ادب کی روایات کا تسلسل ثابت ہوگا۔
(مکتبہ شعر و حکمت ۔ حیدرآباد دکن ، انڈیا۔)