انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

518

چل قلم ، غم کی رقم کوئی حکایت کیجے
ہر سرِ حرف پہ فریاد نہایت کیجے

کس کے کہنے کو ہے تاثیر کہ اک میر ہی سے
رمز و ایما و اشارات و کنایت کیجے​
 
519

دل کو مت بھول جانا میرے بعد
مجھ سے یہ یادگار رہتا ہے

دور میں چشمِ مست کے تیری
فتنہ بھی ہوشیار رہتا ہے

ہر گھڑی رنجش ایسی باتوں میں
کوئی اخلاص و پیار رہتا ہے

تجھ بِن آئے ہیں تنگ جینے سے
مرنے کا انتظار رہتا ہے

کیوں نہ ہووے عزیز دل ہا میر
کس کے کوچے میں خوار رہتا ہے​
 
دہر بھی میر طرفہ مقتل ہے
جو ہے، سو کوئی دم کو فیصل ہے

چھوڑ مت نقدِ وقت نسیہ پر
آج جو کچھ ہے، سو کہاں کل ہے

ٹک گریباں میں سر کو ڈال کےدیکھ
دل بھی کیا لق و دق جنگل ہے

مر گیا کوہ کن اسی غم میں
آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل ہے​
 
521

جاں گداز اتنی کہاں آوازِ عود و چنک ہے
دل کے سے نالوں کا ان پردوں میں کچھ آہنگ ہے

بیستوں کھودے سے کیا آخر ہوئے سب کارِ عشق
بعد ازاں اے کوہ کن سر ہے ترا اور سنگ ہے

آہ ان خوش قامتوں کو کیوں کے بر میں لائیے
جن کے ہاتھوں سے قیامت پر بھی عرصہ تنگ ہے

چشمِ کم سے یکھ مت قُمری تُو اُس خوش قد کو ٹک
آہ بھی سروِ گلستانِ شکستِ رنگ ہے

صبر بھی کریے بَلا پر میر صاحب جی کبھو
جب نہ تب رونا ہی کڑھنا یہ بھی کوئی ڈھنگ ہے​
 
522

خنجر بہ کف وہ جب سے سفاک ہوگیا ہے
ملک اِن ستم ذدوں کا سب پاک ہوگیا ہے

جس سے اس لگاؤں روکھا ہی ہو ملے ہے
سینے میں جل کر ازبس دل خاک ہوگیا ہے

کیا جانوں لذتِ درد اُس کی جراحتوں کی
یہ جانوں ہوں کہ سینہ سب چاک ہوگیا ہے

زیرِ فلک بھلا تُو رووے ہے آپ کو میر
کس کس طرح کا عالم یاں خاک ہو گیا ہے​
 
524

فقیرانہ آئے صدا کرچلے
میاں ، خوش رہو ہم دعا کر چلے

جو تجھ بِن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اُس عہد کو اب وفا کر چلے

شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی
کہ مقدور تک تو دوا کر چلے

وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لیے
ہر اک چیز سے دل اُٹھا کر چلے

کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ
سو تم ہم سے منھ بھی چُھپا کر چلے

بہت آرزو تھی گلی کی تری
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے

دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے

(ق)

جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی
حقِ بندگی ہم ادا کر چلے

پرستش کی یاں تک کہ اے بُت تجھے
نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے

نہ دیکھا غمِ دوستاں شکر ہے
ہمیں داغ اپنا دکھا کر چلے

(ق)

گئی عمر در بندِ فکرِ غزل
سو اس فن کو ایسا بُرا کر چلے

کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میر
جہاں میں تم آئے تھے، کیا کر چلے!​
 
525

عالم مری تقلید سے خواش تری کرنے لگا
ہیں تو پشیماں ہوچکا، لوگوں کو اب ارمان ہے

ہر لحظہ خنجر درمیاں، ہر دم زباں زیرِ زباں
وہ طور وہ اسلوب ہے، یہ عہد یہ پیمان ہے

اس آرزوئے وصل نے، مشکل کیا جینا مرا
ورنہ گزرنا جان سے اتنا نہیں آسان ہے

بس بے وقاری ہوچکی، گلیوں میں خواری ہو چکی
اب پاس کر ٹک میر کا، دو چار دن مہمان ہے
 
526

خوب تھے وے دن کہ ہم تیرے گرفتاروں میں تھے
غم زدوں، اندوہ گینوں، ظلم کے ماروں میں تھے

دشمنی جانی ہے اب تو ہم سے غیروں کے لیے
اک سماں سا ہوگیا وہ بھی کہ ہم یاروں میں تھے

مت تبختر سے گزر قُمری ہماری خاک پر
ہم بھی اک سروِ رواں کے ناز برداروں میں تھے

مر گئے لیکن نہ دیکھا تُو نے اودھر آنکھ اُٹھا
آہ کیا کیا لوگ ظالم ، تیرے بیماروں میں تھے

اک رہا مژگاں کی صف میں ، ایک کے ٹکڑے ہوئے
دل جگر جو میر دونوں اپنے غم خواروں میں تھے​
 
527

جس جگہ دورِ جام ہوتا ہے
واں یہ عاجز مدام ہوتا ہے

ہم تو اک حرف کے نہیں ممنون
کیسا خط و پیام ہوتا ہے

تیغ ناکاموں پر نہ ہر دم کھینچ
اک کرشمے میں کام ہوتا ہے

پوچھ مت آہ ، عاشقوں کی معاش
روز اُن کا بھی شام ہوتا ہے

زخم بِن ، غم بِن اور غصے بِن
اپنا کھانا حرام ہوتا ہے

میر صاحب بھی اُن کے ہاں تھے پر
جیسے کوئی غلام ہوتا ہے​
 
528

بے تابیوں میں تنگ ہم آئے ہیں جان سے
وقتِ شکیب خوش کہ گیا درمیان سے

ہم خامشوں کا ذکر تھا شب اُس کی بزم میں
نکلا نہ حرفِ خیرکسو کی زبان سے

آبِ خضر سے بھی نہ گئی سوزشِ جگر
کیا جانیے یہ آگ ہے کس دودمان سے

آنے کا اس چمن میں سبب بے کلی ہوئی
جوں برق ہم تڑپ کےگرے آشیان سے

اب چھیڑ یہ رکھی ہے کہ عاشق ہے تو کہیں
القصہ خوش گزرتی ہے اُس بدگمان سے

داغوں سے ہے چمن، جگرِ میر دہر میں
اُن نے بھی گُل چُنے بہت اس گلستان سے​
 
529

چاک پر چاک ہوا، جوں جوں سلایا ہم نے
اس گریباں ہی سے اب ہاتھ اُٹھایا ہم نے

حسرتِ لطفِ عزیزانِ چمن جی میں رہی
سر پہ دیکھا نہ گُل و سرو کا سایا ہم نے

جی میں تھا عرش پہ جا باندھیے تکیہ، لیکن
بسترا خاک ہی میں اب تو بچھایا ہم نے

بعد یک عمر کہیں تم کو جو تنہا پایا
ڈرتے ڈرتے ہی کچھ احوال سنایا ہم نے

یاں فقط ریختہ ہی کہنے نہ آئے تھے ہم
چار دن یہ بھی تماشا سا دکھایا ہم نے

تازگی داغ کی ہر شام کو بے ہیچ نہیں
آہ کیا جانے، دیا کس کا بجھایا ہم نے

دشت و کہسار میں سر مار کے چندے تجھ بِن
قیس و فرہاد کو پھر یاد دلایا ہم نے

بے کلی سے دلِ بے تاب کی مر گزرے تھے
سو تہِ خاک بھی آرام نہ پایا ہم نے

یہ ستم تازہ ہوا اور کہ پائیز میں میر
دل خس و خار سے ناچار لگایا ہم نے​
 
531

کرو توکل کہ عاشقی میں نہ یوں کرو گے تو کیا کرو گے
الم جو یہ ہے تو درمندو! کہاں تلک تم دوا کرو گے

جگر میں طاقت کہاں ہے اتنی کہ دردِ ہجراں سے مرتے رہیے
ہزاروں وعدے وصال کے تھے کوئی بھی جیتے وفا کرو گے

جہاں کی مسلح تمام حیرت، نہیں ہے تِس پر نگہ کی فرصت
نظر پڑے گی بسانِ بسمل کبھو جو مژگاں کو وا کرو گے

اخیر الفت یہی نہیں ہے کہ جل کے آخر ہوئے پتنگے
ہو جو یاں کی یہ ہے تو یارو! غبار ہو کر اُڑا کر و گے

بَلا ہے ایسا تپیدنِ دل کہ صبر اس پر ہے سخت مشکل
دماغ اتنا کہاں رہے گا کہ دست بر دل رہا کرو گے

عدم میں ہم کو یہ غم رہے گا کہ اوروں پر اب ستم رہے گا
تمہیں تو لت ہے ستانے ہی کی، کسو پر آخر جفا کرو گے

اگر چہ اب تو خفا ہو لیکن، مرئے گئے پر کبھو ہمارے
جو یاد ہم کو کرو گے پیارے تو ہاتھ اپنے مَلا کرو گے

سحر کو محرابِ تیغِ قاتل کبھو جو یارو ادھر ہو مائل
تو ایک سجد بسانِ بسمل، مری طرف سے ادا کرو گے

غمِ محبت سے میر صاحب بہ تنگ ہوں میں، فقیر ہو تم
وہ وقت ہوگا کبھو مساعد تو میرے حق میں دعا کرو گے​
 
532

ہے جو اندھیر شہر میں، خورشید
دن تو لے کر چراغ نکلے ہے

وے ہے جنبش جو واں کی خاک کو باؤ
جگرِ داغ داغ نکلے ہے

اُس لگی کی زمینِ تفتہ سے
دل جلوں کا سراغ نکلے ہے​
 
533


اس شہرِ دل کوتُو بھی جو دیکھے تو اب کہے
کیا جانیے کہ بستی یہ کب کی خراب ہے

رہ آشنائے لطف حقیقت کے بحر کا
ہے رشکِ زلف و چشم جو موجِ حباب ہے​
 
534

کیا کیا بیٹھے بگڑ بگڑ تم، پر ہم تم سے بنائے گئے
چپکے باتیں اُٹھائے گئے، سرگاڑے ووں ہی آئے گئے

کب کب تم نے سچ نہیں مانیں جھوٹی باتیں غیروں کی
تم ہو کو یوں ہی جلائے گئے وے تم کو ووں ہی لگائے گئے

صبح وہ آفت اٹھ بیٹھا تھا، تم نے نہ دیکھا صد افسوس
کیاکیا فتنے سر جوڑے پلکوں کے سائے سائے گئے

اللہ رہے یہ دیدہ ورائی، ہوں نہ مکدر کیوں کے ہم
آنکھیں ہم سے ملائے گئے، پھر خاک میں ہم کو ملائے گئے

خضر جو مل جاتا ہے گاہے آپ کو بھُولا خوب نہیں
کھوئے گئے اُس راہ کے ورنہ کاہے کو پھر پائے گئے

مرنے سے کیا میرجی صاحب ہم کوہوش تھے کیا کر یے
جی سے ہاتھ اُٹھائے گئے پر اُس سے دل نہ اُٹھائے گئے​
 
535

اِدھر سے ابر اٹھ کر جو گیا ہے
ہماری خاک پر بھی رہ گیا ہے

مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے

مقامر خانہء آفاق وہ ہے
کہ جو آیا ہے یاں کچھ کھو گیاہے

کچھ آؤ زلف کے کوچے میں درپیش
مزاج اپنا ادھر اب تو گیا ہے

سرہانے میر کے کوئی نہ بولو
آبھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے​
 
536

عمر بھر ہم رہے شرابی سے
دلِ پُر خوں کی اک گلابی سے

جی ڈہا جائے ہے سحر سے آہ
رات گزرے گی کس خرابی سے

کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اُس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے

کام تھے عشق میں بہت پر میر
ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے​
 
537

دن دُوریِ چمن میں جو ہم شام کریں گے
تا صبح دو صد نالہ سرانجام کریں گے

ہوگا ستم و جور سے تیرے ہی کنایہ
وہ شخص جہاں شکوہء ایام کریں گے

آمیزشِ بے جا ہے تجھے جن سے ہمیشہ
وے لوگ ہی آخر تجھے بدنام کریں گے

نالوں سے مرے رات کے غافل نہ رہا کر
اک روز یہی دل میں ترے کام کریں گے

گردل ہے یہی مضطرب الحال تو اے میر
ہم زیرِ زمیں بھی بہت آرام کریں گے
 
Top