فرخ منظور
لائبریرین
یوں تو مزاح، مذہب اور الکحل ہر چیز میں بآسانی حل ہو جاتے ہیں، بالخصوص اردو ادب میں۔ لیکن مزاح کے تقاضے، اپنے ادب آداب ہیں۔ شرطِ اوّل یہ کہ برہمی، بیزاری اور کدورت دل میں راہ نہ پائے ورنہ یہ بومرنگ پلٹ کر خود شکاری کا کام تمام کر دیتا ہے۔ مزا تو جب ہے کہ آگ بھی لگے اور کوئی انگلی نہ اٹھا سکے کہ "یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے؟" مزاح نگار اس وقت تک تبسمِ زیر لب کا سزاوار نہیں، جب تک اس نے دنیا اور اہلِ دنیا سے رج کے پیار نہ کیا ہو۔ اُن سے، اُن کی بے مہری و کم نگاہی سے، اُن کی سرخوشی و ہشیاری سے، ان کی تر دامنی اور تقدس سے، ایک پیمبر کے دامن پر پڑنے والا ہاتھ گستاخ ضرور ہے، مگر مشتاق و آرزو مند بھی ہے۔ یہ زلیخا کا ہاتھ ہے۔ خواب کو چھو کر دیکھنے والا ہاتھ
؎ صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے اُن کے ہاتھوں کی
(خاکم بدہن، دستِ زلیخا (دیباچہ) صفحہ 9)
؎ صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے اُن کے ہاتھوں کی
(خاکم بدہن، دستِ زلیخا (دیباچہ) صفحہ 9)