وہ بوڑھا بھی کتنا دلکش بوڑھا تھا
یادوں کی دہلیز پہ چپکا بیٹھا تھا
شور مچاتے آنسو ٹپ ٹپ گرتے تھے
ہونٹوں پر اک کہر زدہ سناٹا تھا
ایک طرف پھن کاڑھے بیٹھی تھیں راتیں
ایک طرف پرشور دنوں کا میلا تھا
ٹوٹے پھوٹے چند کھلونوں کے ہمراہ
اک گوشے میں اس کا بچپن رکھا تھا
ہر شوخی پر ہر معصوم شرارت پر
ماں کے پاکیزہ آنچل کا سایہ تھا
کتنے آنچل اس کے لئے لہرائے تھے
کتنے رخوں نے اس پہ کرم فرمایا تھا
کیسے کیسے دوست سجیلے بانکے تھے
کیا کیا ان کے ساتھ میں گھومنا پھرنا تھا
پھر ماں کے اصرار پہ اک دن رات ڈھلے
اس کے شبستاں میں کوئی در آیا تھا
اس کو بوڑھا ہوتے دیکھ کے بھاگ گیا
اس کے اندر چھپا ہوا جو لڑکا تھا