انتخاب علامہ طالب جوہری

نوید صادق

محفلین
یہ مرا مشکیزۂ بے آب، صحرا اور میں
جانتے ہیں پیاس کے آداب صحرا اور میں

یہ تو میں بھی جانتا ہوں، جس کا جو مقسوم ہے
ہو ہی جائے گا کبھی شاداب صحرا، اور میں؟
 

نوید صادق

محفلین
چاروں اور تھی جھوٹ کی برکھا سانچ کی آنچ ہمیں تک تھی
ہم بیساکھ کی دھوپ سے سلگے ساون کی ہریالی میں
 

الف عین

لائبریرین
باز خوش آمدید نوید۔ لیکن یہ ایک ایک شعر ہی کیوں ہے؟ انتخاب کرتے وقت اگر مکمل غزلوں کا انتخاب کیا جاتا تو بہتر تھا جن کی برقی کتاب آسانی سے بن سکتی تھی۔
 

نوید صادق

محفلین
کسی پیڑ کے سائے میں دھونی رما، کسی گھر میں نہ بن مہمان میاں
کوئی مکھڑا کھب گیا دل میں اگر، اسی ڈنک سے جائے گی جان میاں

نہ میں وارث شاہ نہ میر تقی، کشکول بدست گداگر ہوں
کچھ ادھر سے لیا کچھ اُدھر سے لیا، یوں ہی جمع کیا دیوان میاں
 

نوید صادق

محفلین
اعجاز بھائی!
آداب!!
شکریہ،
بس زندگی کچھ اتنی مصروف اور مشکل ہوتی جاتی ہے کہ کئی دن حاضر نہ ہو سکا۔

ایک ایک شعر اس لئے کہ ہمیں پسند ہی یہی آئے۔طالب صاحب کمال کے شاعر ہیں۔ لیکن میری افتادِ طبع کہ میں نے بہت سے انتخاب کئے اور سب ایسے ہی کئے۔کسی بھی شعر کو کبھی رعائتی نمبر نہیں دئے کہ غزل پوری ہو سکے۔
باقی جو حکم ہو،
حاضر ہوں۔
نوید صادق
 

نوید صادق

محفلین
ماضی کے ہر دور میں دنیا والوں کا دستور رہا
پیغمبر سے بیر نکالا، نفرت تھی پیغام کے ساتھ

کس لکڑی کا ماضی کیا تھا جلتا چولہا کیا جانے
اس سے پوچھو جس کا ربط ہو باغ کے قتلِ عام کے ساتھ

ترک و طلب کا ہم دونوں میں کب سے تصادم جاری ہے
اس کا نام لیا جاتا ہے اب تک میرے نام کے ساتھ
 

نوید صادق

محفلین
بے مقصد پرواز سے تھک کر تتلی پھول پہ بیٹھ گئی
پھول تو اپنی جان سے ہارا تتلی بھی بدنام ہوئی

کوفے کے سارے دروازے آخر مجھ پر بند رہے
خوف زدہ گلیوں میں تنہا پھرتے پھرتے شام ہوئی

گاؤں کے پس منظر میں دن بھر چیخنے والی پن چکی
میرے کل کی خاطر اپنے آج میں بے آرام ہوئی
 

نوید صادق

محفلین
خلوتِ بے نشان میں پھول کھلے نشان کے
وحشتِ دل بھی سو گئی چادرِ ماہ تان کے

اپنے لباسِ جاں پہ بھی صاحبو ٹک نظر کرو
ہنستے رہو گے کب تلک ہم کو غریب جان کے

خلوتیانِ کنج ہوش تشنہ لبانِ یم بہ دوش
میرے حریف تھے مگر لوگ تھے آن بان کے

موج بہ موج یم بہ یم بادِ مراد ساتھ تھی
ناؤ سے رد نہ ہو سکے فیصلے بادبان کے

تیری گلی میں جاگ کر ہم نے بھی جُگ بتائے ہیں
ہم پہ بھی فاش ہوں کبھی رنگ ترے مکان کے

کیا وہ نگاہِ رنگ و بو گاؤں سے کوچ کر گئی
گنگ ہے نیم کا درخت خشک ہیں کھیت دھان کے
 
Top