انتخاب قابل اجمیری

نوید صادق

محفلین
راستہ ہے کہ کٹتا جاتا ہے
فاصلہ ہے کہ کم نہیں ہوتا

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
 

نوید صادق

محفلین
تم نہ مانو، مگر حقیقت ہے
عشق انسان کی ضرورت ہے
جی رہا ہوں اس اعتماد کے ساتھ
زندگی کو مری ضرورت ہے
حسن ہی حسن، جلوے ہی جلوے
صرف احساس کی ضرورت ہے
اس کے وعدے پہ ناز تھے کیا کیا
اب دروبام سے ندامت ہے
اس کی محفل میں بیٹھ کر دیکھو
زندگی کتنی خوبصورت ہے
 

نوید صادق

محفلین
خیالِ سود نہ اندیشہ زیاں ہے ابھی
چلے چلو کہ مذاقِ سفر جواں ہے ابھی
رکا رکا سا تبسم، جھکی جھکی سی نظر
تمہیں سلیقہ بے گانگی کہاں ہے ابھی
سکونِ دل کی تمنا سے فائدہ قابل
نفس نفس غمِ جاناں کی داستاں ہے ابھی
 

نوید صادق

محفلین
رہبر جو ہمیں ٹھوکریں کھانے نہیں دیتا
ڈرتا ہے کہیں راستہ ہموار نہ ہو جائے

میخانہ بھی اک کارگہِ شیشہ گری ہے
پیمانہ کہیں ٹوٹ کے تلوار نہ ہو جائے
 

نوید صادق

محفلین
ہمیں بھی شہرِ نگاراں میں لے چلو یارو
کسی کے عشق کا آزار ہم بھی رکھتے ہیں

قدم قدم پہ چٹکتی ہیں شوق کی کلیاں
صبا کی شوخی رفتار ہم بھی رکھتے ہیں
 

نوید صادق

محفلین
دل کی دھڑکن کا اعتبار نہیں
ورنہ آواز تو تمہاری ہے

لطفِ صبحِ نشاط مجھ سے پوچھ
میں نے شامِ الم گزاری ہے
 

نوید صادق

محفلین
مقاماتِ فکر و نظر کون سمجھے
یہاں لوگ نقشِ قدم دیکھتے ہیں

بصد رشک قابل کی آوارگی کو
غزالانِ دیر و حرم دیکھتے ہیں
 

نوید صادق

محفلین
رات تاریک، راہ نا ہموار
شمعِ غم کو ہوا نہ دے جانا

بے کسی سے بڑی امیدیں ہیں
تم کوئی آسرا نہ دے جانا
 

نوید صادق

محفلین
ابھی مشکل سے سمجھے گا زمانہ
نیا نغمہ نئی آواز ہوں میں

مجھی پہ ختم ہیں سارے ترانے
شکستِ ساز کی آواز ہوں میں
 

نوید صادق

محفلین
آؤ اپنی زمیں کو چمکائیں
چاند تاروں کا اعتبار نہیں

حسنِ ترتیب ہے دلیلِ چمن
ورنہ صحرا میں کیا بہار نہیں
 

نوید صادق

محفلین
تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے
میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے

مجھے تو اس درجہ وقتِ رخصت سکوں کی تلقین کر رہے ہو
مگر کچھ اپنے لئے بھی سوچا میں یاد آیا تو کیا کرو گے

کچھ اپنے دل پہ بھی زخم کھاؤ مرے لہو کی بہار کب تک
مجھے سہارا بنانے والو، میں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے

ابھی تو تنقید ہو رہی ہے مرے مذاقِ جنوں پہ لیکن
تمہاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کرو گے

ابھی تو دامن چھڑا رہے ہو، بگڑ کے قابل سے جا رہے ہو
مگر کبھی دل کی دھڑکنوں میں شریک پایا تو کیا کرو گے
 

نوید صادق

محفلین
چمن کے غنچوں نے رنگ بدلا، فلک کے تاروں سے ساتھ چھوڑا
میں جن سہاروں سے مطمئن تھا انہی سہاروں نے ساتھ چھوڑا

خود اہلِ کشتی کی سازشیں ہیںکہ نا خدا کی نوازشیں ہیں
وہیں تلاطم کو ہوش آیا جہاں کناروں نے ساتھ چھوڑا

مرے گناہِ نظر سے پہلے چمن چمن میری آبرو تھی
مجھے شعورِ جمال آیا تو گلعذاروںنے ساتھ چھوڑا
 
Top