Rashid Ashraf
محفلین
کتابوں کی آمد ہے کہ بازار کانپ رہا ہے
انتظار حسین اور رضا علی عابدی کی یاداشتیں-حصہ اول
ٹرین لاہور سے کتابوں کے بنڈل لے کر روانہ ہوئی اور دو دن کا سفر طے کرکے پندرہ نومبر 2011 کی صبح کراچی پہنچی۔ اردو بازار کراچی کے سب سے بڑے کتب فروش نے کتابوں کے کچھ ُپلندوں کو دیگر کتب فروشوں کو بھجوا دیا ،خبر پھیلی اور طلبگار جوق در جوق بازار کا رخ کرنے لگے۔ صبح دس بجے کتب فروش کے یہاں ملازمت کرنے والے ہمارے ’ہرکارے’ نے اطلاع دی کہ جناب رضا علی عابدی اور جناب انتظار حسین کی خودنوشت سوانح حیات آپ کا انتظار کررہی ہیں۔ انتظار حسین کی سوانح حیات کی اطلاع ایک چونکا دینے والی خبر تھی، اس لیے کہ انتظار حسین 1999 میں اپنی خودنوشت ’چراغوں کا دھواں‘ کے عنوان سے تحریر کرچکے ہیں جو خاصے کی چیز ہے۔ پھر یہ کیا معاملہ ہے ؟ خیال آیا کہ ہری پور ہزارہ میں مقیم ہمارے دوست زاہد کاظمی ، انتظار حسین سے رابطے میں رہتے ہیں اور جب بھی لاہور جاتے ہیں ان سے ضرور ملاقات کرتے ہیں، سو ان سے دریافت کیا جائے۔ زاہد کاظمی سے معلوم ہوا کہ انتظار حسین نے رواں برس ستمبر میں انہیں اپنی سوانح حیات کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ اس پر کام کررہے ہیں اور جلد ہی یہ کتاب شائع ہوجائے گی۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ چراغوں کا دھواں کی اشاعت کے بعد انتظار حسین کے دوستوں اور قدردانوں نے انہیں تقسیم ہند سے قبل پیش آنے والے واقعات اور یاداشتوں کو سپر د قلم کرنے کی درخواست کی تھی۔ بلند شہر کا قصبہ ڈبائی انتظار حسین کا آبائی گھر تھا۔ دوستوں کے اصرار پر انتظار حسین نے یادوں کی راکھ کریدی اور اسی مناسبت سے کتاب کا عنوان ’ جستجو کیا ہے‘ تجویز ہوا۔
پریم چند فیلو شپ کے سلسلے میں انتظار حسین ہندوستان گئے اور اپنی بستی کو ڈھونڈ نکالا لیکن بقول ان کے ’’ اس بستی میں وہ کون سی گلی تھی اور وہ کون سا گھر جہاں اس خانہ خراب کی نال گڑی ہے‘‘ ۔۔۔۔بالاآخر انہوں نے وہ گھر تلاش کرہی لیا ۔ اپنی اس کتاب کے آخر میں انتظار حسین نے چند بہت ہی نادر تصاویر شامل کی ہیں، ان میں کہیں وہ اور ناصر کاظمی 1950 میں ایک ساتھ بیٹھے نظر آتے ہیں تو کہیں 1959 میں محمد حسن عسکری کے ساتھ ایک پلیا سے کمر ٹکائے دیکھے جاسکتے ہیں،کہیں وہ دیگر مشاہیر ادب کے ہمراہ 1957 میں کافی ہاؤس میں فراق گورکھپوری کے ساتھ موجود ہیں تو کہیں ریوتی سرن شرما ، عبدالمجید بھٹی، راجندر سنگھ بیدی، مولانا صلاح الدین احمد ، آل احمد سرور اور ڈاکٹر مالک رام محفل آرا ہیں۔ پروفیسر شمس الرحمان فاروقی کے ساتھ انداز بے تکلفانہ میں ایک تصویر شامل ہے تو کہیں مظفر علی سید اور احمد مشتاق ایک انداز محبوبانہ لیے براجماں ہیں۔
تین صد صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت اس کے ناشر سنگ میل پبلیکیشنز لاہور نے 900 مقرر کی ہے۔
دوسری کتاب جناب رضا علی عابدی کی ’’اخبار کی راتیں‘ ہے، ناشر سنگ میل پبلیکیشنز لاہور، صفحات 190 اور قیمت 400۔
قارئین کو عابدی صاحب کی اس کتاب کا انتظار دو ماہ سے تھا ، وہ اس کتاب کا عندیہ یاداشتوں پر مبنی کتاب ’ریڈیو کے دن ‘ میں دے چکے تھے۔ کتاب کے پس ورق پر 9 نومبر 1959 کی ایک تصویر دی گئی ہے ، اس رات کراچی سے اخبار والوں کا قافلہ راولپنڈی پہنچا تھا اور ریلوے اسٹیشن پر ا ستقبال کرنے والوں میں شوکت تھانوی بھی موجود تھے۔
رضا علی عابدی صاحب کہتے ہیں کہ ’’ کچھ نامور لوگوں نے اپنی زندگی کے حالات لکھے، کچھ غیر معمولی واقفیت رکھنے والوں نے درون خانہ معاملات پر پڑے ہوئے پردے اٹھائے لیکن عام لوگوں نے اپنے ماحول اور اطراف کو قلم بند نہیں کیا۔‘‘
’اخبار کی راتیں ‘ دوران ملازمت اپنے گرد و پیش میں رونما ہونے والے واقعات کا مرقہ ہے ، اس میں ان عام لوگوں کا بیان بھی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ اور اپنی قابلیت کے بل بوتے پر خاص کہلائے، اپنی تخلیقات کے زور پر لوگوں کے دلوں تک پہنچے۔ ساتھ ہی ساتھ اس میں اخبار سے وابستہ ان ساتھیوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو وقت کی گرد میں کہیں کھو گئے۔ ایسے رفیقوں کی تعداد پچاس تھی اور پورے پچاس برس بعد رضا علی عابدی انہیں تلاش کرنے نکلے ، پتہ چلا کہ ان میں سے بمشکل دس زندہ ہیں اور وہ بھی بہت ضعیف ہوچکے ہیں ۔
رضا علی عابدی زیر موضوع کتاب کو سوانح حیات سے زیادہ ایک مخصوص دور کے ماحول کی عکاسی مانتے ہیں۔ ان کے ذہن کے نہاں خانوں میں اس دور سے وابستہ یادیں اور اپنے رفقائے کار گویا چلتی پھرتی حالت میں محفوظ ہیں ، ان کیفیات کو انہوں نے بقول ان کے ایک گراں قدر سرمایہ اور گزرے وقت کی سوغات سمجھا ، انہیں سمیٹا ، یکجا کیا اور کاغذ پر اتار دیا۔
رضا علی عابدی نے نوجوانی میں صحافت میں قدم رکھا تھا ۔یہ سن پچاس کی دہائی کا اواخر تھا ۔ روزنامہ جنگ میں دیدہ ریزی پر مامور ہوئے جس کی تفصیل انہوں نے پہلی باب ’ ہاں، میں پروف ریڈر تھا‘ میں درج کی ہے۔ دوران ملازمت کراچی کے علاوہ راولپنڈی میں بھی مقیم رہے، اخبار جنگ کو خیر باد کہا تو اخبار حریت میں براجے۔ مشرقی پاکستان میں شورش اپنے عروج پر تھی، ایک رات جب عابدی صاحب اخبار کی شہ سرخی جما چکے تھے کہ ڈھاکہ سے نامہ نگار کا فون آیا، کہنے لگا، لیجیے عابدی صاحب خبر لکھیے، میں اس وقت مسجد بیت المکرم کے سامنے موجود ہوں اور یہاں مجمع مجیب بھٹو بھائی بھائی کے نعرے لگا رہا ہے۔عابدی صاحب جھٹ دوڑے اور شہ سرخی تبدیل کردی ، نئی سرخی تھی ’ مجیب بھٹو بھائی بھائی‘ ۔ اگلی شام کو عابدی صاحب سینہ تانے اپنی جمائی شہ سرخی کی اچھوتی اصطلاح پر نازاں دفتر پہنچے تو ایڈیٹر کو بجھا بجھا پایا، انہوں نے عابدی صاحب سے کہا کہ انہیں صبح صبح مالکان نے طلب کیا اور سرخی کی جانب اشارہ کر کے کہنے لگے کہ یہ اخبار ہم نے اس لیے تو نہیں نکالا تھا۔
اور رضا علی عابدی نے بی بی سی لندن میں ملازمت کی درخواست ڈال دی۔
رضا علی عابدی کو راولپنڈی میں دوران ملازمت اپنے دیگر فرائض کے علاوہ دو مرتبہ رپورٹنگ بھی کرنی پڑی ۔ ایک تب جب حویلیاں جانے والی ٹرین پل سے اتر کر برساتی نالے میں گر پڑی تھی، وہ اسپتال کے مردہ خانے پہنچے اور وہاں کا منظر دیکھ کر لپک کر باہر آئے اور ایک کان کو ہاتھ لگایا۔دوسر ی مرتبہ عدالت پہنچے جہاں ایک شریف گھرانے کی لڑکی اور اسی گھر کے ملازم کا معاملہ پیش کیا گیا ، ملازم پر الزام تھا کہ وہ لڑکی کو ورغلا رہا ہے لہذا لڑکی کو بچایا جائے، مجسٹریٹ نے لڑکی سے کہا کہ تم اس لڑکے سے بچ کر رہو، یہ تمہاری عزت خاک میں ملا دے گا۔لڑکی نے مجسٹریٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ’ جناب! وہ سب تو ہوچکا ہے، آپ ہمارا نکاح پڑھوا دیجیے۔‘‘
عابدی صاحب لپک کر باہر آگئے اور دوسرے کان کو ہاتھ لگایا!
روزنامہ حریت کی ملازمت کادورانیہ مختصر ہی رہا، گرچہ اخبار فخر ماتری کی ادارت میں بڑے طمطراق سے نکلا تھا لیکن بقول عابدی صاحب ’زیادہ عرصے جیا نہیں۔
پی آئی اے کی پرواز پہلی مرتبہ قاہرہ جانے کو تھی، عابدی صاحب کو دنیا دیکھنے کا شوق تھا، وہ فخر ماتری کے سامنے مصر ہوئے کہ انہیں بھی اس پرواز کے ذریعے قاہرہ کے سفر پر بھیجا جائے، فخر ماتری خاموش رہے کہ جعفر منصور کو بھیجنے کا فیصلہ پہلے ہی کرچکے تھے، جعفر منصور حریت میں قطعہ لکھتے تھے۔ 20 مئی 1965 کے روز قاہرہ جانے والی اس پرواز کے مسافر ، چار پانچ کے سوا، تمام کے تمام اگلے جہان کو سدھارے تھے!
دوران ملازمت ، رضا علی عابدی حریت کی جانب سے دولت مشترکہ کے ایک تربیتی کورس میں لندن گئے۔یہ بات ہے جنوری 1968 کی۔
لندن میں ایک روز وہ بس میں کہیں جارہے تھے۔ لکھتے ہیں : ’’ میرے برابر والی نشست خالی تھی، اتنے میں ایک لڑکی آکر اس طرح بیٹھ گئی کہ اس کے بدن کی گرمی مجھے محسوس ہورہی تھی، وہ بھی اس شان بے نیازی سے بیٹھی تھی کہ جیسے کوئی بات ہی نہیں اور میرا یہ حال کہ سارے شرعی احکام ایک ایک کرکے یاد آنے لگے اور میں اپنے کونے میں سکڑ گیا۔
نہ ہوئے مستنصر حسین تارڑ۔‘‘
(ص: 134)
یہاں ہمیں برسوں پہلے کا پڑھا ایک واقعہ یاد آگیا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ لاہور کے یعقوب ناسک دل کے آپریشن کی غرض سے لندن گئے، ایک روز ٹیوب میں سفر کررہے تھے کہ ایک لڑکی ان کے برابر آ کر بیٹھ گئی، سفر طویل تھا، لڑکی کی آنکھ لگ گئی اور اس کا سر دھیرے دھیرے یعقوب صاحب کے کاندھے سے آلگا۔ یعقوب صاحب نے کچھ دیر برداشت کیا اور پھر اسے جھنجھوڑ کر اٹھاتے ہوئے کہا: ’’ اٹھو بی بی ! میں یعقوب ناسک ہوں، مستنصر حسین تارڑ نہیں!
انتظار حسین اور رضا علی عابدی کی یاداشتیں-حصہ اول
ٹرین لاہور سے کتابوں کے بنڈل لے کر روانہ ہوئی اور دو دن کا سفر طے کرکے پندرہ نومبر 2011 کی صبح کراچی پہنچی۔ اردو بازار کراچی کے سب سے بڑے کتب فروش نے کتابوں کے کچھ ُپلندوں کو دیگر کتب فروشوں کو بھجوا دیا ،خبر پھیلی اور طلبگار جوق در جوق بازار کا رخ کرنے لگے۔ صبح دس بجے کتب فروش کے یہاں ملازمت کرنے والے ہمارے ’ہرکارے’ نے اطلاع دی کہ جناب رضا علی عابدی اور جناب انتظار حسین کی خودنوشت سوانح حیات آپ کا انتظار کررہی ہیں۔ انتظار حسین کی سوانح حیات کی اطلاع ایک چونکا دینے والی خبر تھی، اس لیے کہ انتظار حسین 1999 میں اپنی خودنوشت ’چراغوں کا دھواں‘ کے عنوان سے تحریر کرچکے ہیں جو خاصے کی چیز ہے۔ پھر یہ کیا معاملہ ہے ؟ خیال آیا کہ ہری پور ہزارہ میں مقیم ہمارے دوست زاہد کاظمی ، انتظار حسین سے رابطے میں رہتے ہیں اور جب بھی لاہور جاتے ہیں ان سے ضرور ملاقات کرتے ہیں، سو ان سے دریافت کیا جائے۔ زاہد کاظمی سے معلوم ہوا کہ انتظار حسین نے رواں برس ستمبر میں انہیں اپنی سوانح حیات کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ اس پر کام کررہے ہیں اور جلد ہی یہ کتاب شائع ہوجائے گی۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ چراغوں کا دھواں کی اشاعت کے بعد انتظار حسین کے دوستوں اور قدردانوں نے انہیں تقسیم ہند سے قبل پیش آنے والے واقعات اور یاداشتوں کو سپر د قلم کرنے کی درخواست کی تھی۔ بلند شہر کا قصبہ ڈبائی انتظار حسین کا آبائی گھر تھا۔ دوستوں کے اصرار پر انتظار حسین نے یادوں کی راکھ کریدی اور اسی مناسبت سے کتاب کا عنوان ’ جستجو کیا ہے‘ تجویز ہوا۔
پریم چند فیلو شپ کے سلسلے میں انتظار حسین ہندوستان گئے اور اپنی بستی کو ڈھونڈ نکالا لیکن بقول ان کے ’’ اس بستی میں وہ کون سی گلی تھی اور وہ کون سا گھر جہاں اس خانہ خراب کی نال گڑی ہے‘‘ ۔۔۔۔بالاآخر انہوں نے وہ گھر تلاش کرہی لیا ۔ اپنی اس کتاب کے آخر میں انتظار حسین نے چند بہت ہی نادر تصاویر شامل کی ہیں، ان میں کہیں وہ اور ناصر کاظمی 1950 میں ایک ساتھ بیٹھے نظر آتے ہیں تو کہیں 1959 میں محمد حسن عسکری کے ساتھ ایک پلیا سے کمر ٹکائے دیکھے جاسکتے ہیں،کہیں وہ دیگر مشاہیر ادب کے ہمراہ 1957 میں کافی ہاؤس میں فراق گورکھپوری کے ساتھ موجود ہیں تو کہیں ریوتی سرن شرما ، عبدالمجید بھٹی، راجندر سنگھ بیدی، مولانا صلاح الدین احمد ، آل احمد سرور اور ڈاکٹر مالک رام محفل آرا ہیں۔ پروفیسر شمس الرحمان فاروقی کے ساتھ انداز بے تکلفانہ میں ایک تصویر شامل ہے تو کہیں مظفر علی سید اور احمد مشتاق ایک انداز محبوبانہ لیے براجماں ہیں۔
تین صد صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت اس کے ناشر سنگ میل پبلیکیشنز لاہور نے 900 مقرر کی ہے۔
دوسری کتاب جناب رضا علی عابدی کی ’’اخبار کی راتیں‘ ہے، ناشر سنگ میل پبلیکیشنز لاہور، صفحات 190 اور قیمت 400۔
قارئین کو عابدی صاحب کی اس کتاب کا انتظار دو ماہ سے تھا ، وہ اس کتاب کا عندیہ یاداشتوں پر مبنی کتاب ’ریڈیو کے دن ‘ میں دے چکے تھے۔ کتاب کے پس ورق پر 9 نومبر 1959 کی ایک تصویر دی گئی ہے ، اس رات کراچی سے اخبار والوں کا قافلہ راولپنڈی پہنچا تھا اور ریلوے اسٹیشن پر ا ستقبال کرنے والوں میں شوکت تھانوی بھی موجود تھے۔
رضا علی عابدی صاحب کہتے ہیں کہ ’’ کچھ نامور لوگوں نے اپنی زندگی کے حالات لکھے، کچھ غیر معمولی واقفیت رکھنے والوں نے درون خانہ معاملات پر پڑے ہوئے پردے اٹھائے لیکن عام لوگوں نے اپنے ماحول اور اطراف کو قلم بند نہیں کیا۔‘‘
’اخبار کی راتیں ‘ دوران ملازمت اپنے گرد و پیش میں رونما ہونے والے واقعات کا مرقہ ہے ، اس میں ان عام لوگوں کا بیان بھی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ اور اپنی قابلیت کے بل بوتے پر خاص کہلائے، اپنی تخلیقات کے زور پر لوگوں کے دلوں تک پہنچے۔ ساتھ ہی ساتھ اس میں اخبار سے وابستہ ان ساتھیوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو وقت کی گرد میں کہیں کھو گئے۔ ایسے رفیقوں کی تعداد پچاس تھی اور پورے پچاس برس بعد رضا علی عابدی انہیں تلاش کرنے نکلے ، پتہ چلا کہ ان میں سے بمشکل دس زندہ ہیں اور وہ بھی بہت ضعیف ہوچکے ہیں ۔
رضا علی عابدی زیر موضوع کتاب کو سوانح حیات سے زیادہ ایک مخصوص دور کے ماحول کی عکاسی مانتے ہیں۔ ان کے ذہن کے نہاں خانوں میں اس دور سے وابستہ یادیں اور اپنے رفقائے کار گویا چلتی پھرتی حالت میں محفوظ ہیں ، ان کیفیات کو انہوں نے بقول ان کے ایک گراں قدر سرمایہ اور گزرے وقت کی سوغات سمجھا ، انہیں سمیٹا ، یکجا کیا اور کاغذ پر اتار دیا۔
رضا علی عابدی نے نوجوانی میں صحافت میں قدم رکھا تھا ۔یہ سن پچاس کی دہائی کا اواخر تھا ۔ روزنامہ جنگ میں دیدہ ریزی پر مامور ہوئے جس کی تفصیل انہوں نے پہلی باب ’ ہاں، میں پروف ریڈر تھا‘ میں درج کی ہے۔ دوران ملازمت کراچی کے علاوہ راولپنڈی میں بھی مقیم رہے، اخبار جنگ کو خیر باد کہا تو اخبار حریت میں براجے۔ مشرقی پاکستان میں شورش اپنے عروج پر تھی، ایک رات جب عابدی صاحب اخبار کی شہ سرخی جما چکے تھے کہ ڈھاکہ سے نامہ نگار کا فون آیا، کہنے لگا، لیجیے عابدی صاحب خبر لکھیے، میں اس وقت مسجد بیت المکرم کے سامنے موجود ہوں اور یہاں مجمع مجیب بھٹو بھائی بھائی کے نعرے لگا رہا ہے۔عابدی صاحب جھٹ دوڑے اور شہ سرخی تبدیل کردی ، نئی سرخی تھی ’ مجیب بھٹو بھائی بھائی‘ ۔ اگلی شام کو عابدی صاحب سینہ تانے اپنی جمائی شہ سرخی کی اچھوتی اصطلاح پر نازاں دفتر پہنچے تو ایڈیٹر کو بجھا بجھا پایا، انہوں نے عابدی صاحب سے کہا کہ انہیں صبح صبح مالکان نے طلب کیا اور سرخی کی جانب اشارہ کر کے کہنے لگے کہ یہ اخبار ہم نے اس لیے تو نہیں نکالا تھا۔
اور رضا علی عابدی نے بی بی سی لندن میں ملازمت کی درخواست ڈال دی۔
رضا علی عابدی کو راولپنڈی میں دوران ملازمت اپنے دیگر فرائض کے علاوہ دو مرتبہ رپورٹنگ بھی کرنی پڑی ۔ ایک تب جب حویلیاں جانے والی ٹرین پل سے اتر کر برساتی نالے میں گر پڑی تھی، وہ اسپتال کے مردہ خانے پہنچے اور وہاں کا منظر دیکھ کر لپک کر باہر آئے اور ایک کان کو ہاتھ لگایا۔دوسر ی مرتبہ عدالت پہنچے جہاں ایک شریف گھرانے کی لڑکی اور اسی گھر کے ملازم کا معاملہ پیش کیا گیا ، ملازم پر الزام تھا کہ وہ لڑکی کو ورغلا رہا ہے لہذا لڑکی کو بچایا جائے، مجسٹریٹ نے لڑکی سے کہا کہ تم اس لڑکے سے بچ کر رہو، یہ تمہاری عزت خاک میں ملا دے گا۔لڑکی نے مجسٹریٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ’ جناب! وہ سب تو ہوچکا ہے، آپ ہمارا نکاح پڑھوا دیجیے۔‘‘
عابدی صاحب لپک کر باہر آگئے اور دوسرے کان کو ہاتھ لگایا!
روزنامہ حریت کی ملازمت کادورانیہ مختصر ہی رہا، گرچہ اخبار فخر ماتری کی ادارت میں بڑے طمطراق سے نکلا تھا لیکن بقول عابدی صاحب ’زیادہ عرصے جیا نہیں۔
پی آئی اے کی پرواز پہلی مرتبہ قاہرہ جانے کو تھی، عابدی صاحب کو دنیا دیکھنے کا شوق تھا، وہ فخر ماتری کے سامنے مصر ہوئے کہ انہیں بھی اس پرواز کے ذریعے قاہرہ کے سفر پر بھیجا جائے، فخر ماتری خاموش رہے کہ جعفر منصور کو بھیجنے کا فیصلہ پہلے ہی کرچکے تھے، جعفر منصور حریت میں قطعہ لکھتے تھے۔ 20 مئی 1965 کے روز قاہرہ جانے والی اس پرواز کے مسافر ، چار پانچ کے سوا، تمام کے تمام اگلے جہان کو سدھارے تھے!
دوران ملازمت ، رضا علی عابدی حریت کی جانب سے دولت مشترکہ کے ایک تربیتی کورس میں لندن گئے۔یہ بات ہے جنوری 1968 کی۔
لندن میں ایک روز وہ بس میں کہیں جارہے تھے۔ لکھتے ہیں : ’’ میرے برابر والی نشست خالی تھی، اتنے میں ایک لڑکی آکر اس طرح بیٹھ گئی کہ اس کے بدن کی گرمی مجھے محسوس ہورہی تھی، وہ بھی اس شان بے نیازی سے بیٹھی تھی کہ جیسے کوئی بات ہی نہیں اور میرا یہ حال کہ سارے شرعی احکام ایک ایک کرکے یاد آنے لگے اور میں اپنے کونے میں سکڑ گیا۔
نہ ہوئے مستنصر حسین تارڑ۔‘‘
(ص: 134)
یہاں ہمیں برسوں پہلے کا پڑھا ایک واقعہ یاد آگیا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ لاہور کے یعقوب ناسک دل کے آپریشن کی غرض سے لندن گئے، ایک روز ٹیوب میں سفر کررہے تھے کہ ایک لڑکی ان کے برابر آ کر بیٹھ گئی، سفر طویل تھا، لڑکی کی آنکھ لگ گئی اور اس کا سر دھیرے دھیرے یعقوب صاحب کے کاندھے سے آلگا۔ یعقوب صاحب نے کچھ دیر برداشت کیا اور پھر اسے جھنجھوڑ کر اٹھاتے ہوئے کہا: ’’ اٹھو بی بی ! میں یعقوب ناسک ہوں، مستنصر حسین تارڑ نہیں!