انتہاء پسند اور مولوی

I

Iftikhar Ajmal Bhopal

مہمان
کمال ہے ۔ تمام اخبارات روزانہ حروف سے کالے ہوتے ہیں لیکن یہاں ایک نقطہ بھی نہیں ہے ۔ آجکل سب سے زیادہ زور انتہاء پسندی پر ہے ۔ انتہاء کا مطلب ہوتا ہے آخر ۔ کسی بھی چیز کا آخر پھر اس کے آگے کچھ نہیں ۔ اگر کوئی شخص انتہاء پسند ہے تو پہلے یہ دیکھنا چاہیئے کہ اسے کس چیز کی انتہاء پسند ہے ۔ اگر وہ مولوی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ اسے آخرت پسند ہو گی یعنی جنت ۔ ہر مسلمان جنت میں جانا چاہتا ہے پھر اگر مولوی بھی یہی چاہتا ہے تو ہم اسے برا کیوں کہتے ہیں ؟

آج کے انگریزی اخبار میں پڑھا کہ اسلام آباد کے کچھ مولویوں کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے ملک کے صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف کوئی بات کی تھی ۔ صدر صاحب نے اپنی حالیہ تقریر میں دلائل کے ساتھ ثابت کیا تھا کہ وہ پکّے مسلمان ہیں ۔ میں نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کو ایک شخص نے بھری محفل میں کہا "عمر سب کے حصہ میں ایک ایک چادر آئی تھی اور ایک چادر سے تمہارا چغہ نہیں بن سکتا تو پھر تم نے یہ چغہ کیسے بنایا ہے ؟" عمر رضی اللہ عنہ منبر سے نیچے اتر گئے اور اپنے بیٹے سے کہا "بتاؤ میں نے یہ چغہ کیسے بنایا ہے ؟" بیٹے نے کہا "میں نے اپنے حصے کی چادر اپنے بابا کو دے دی تھی" ۔ کوئی بتائے کہ جس آدمی نے پاکستان سے کئی گنا بڑی سلطنت کے ایسے حاکم پر اعتراض کیا تھا جس کا نام سن کر دشمن لرز جاتے تھے اس کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ قائم ہوا تھا یا نہیں ؟ اگر نہیں تو کیا صدر نے جھوٹ بولا کہ وہ پکے مسلمان ہیں ؟
 
ج

جہانزیب

مہمان
ویسے حیرت کی بات جو ہے کہ جتنے خود کش حملے ہوئے ہیں۔۔ ان میں کسی مدرسے سے فارغ التحصیل شامل نہیں پایا گیا مگر آپریشن مدرسوں کے خلاف ہو رہا ہے۔۔یہ ایسے ہی ہے کرے کوئی بھرے کوئی۔۔۔
 

شعیب صفدر

محفلین
انتہا پسندی؟؟؟

میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اصلاحات خالی برتن کی طرح ہوتی ہیں لفظ انتہا پسند بھی کچھ ایسا ہی ہے ، اس سے میں یہ سمجھتا ہو ایک ایسا فرد جو اپنی بات کو درست کہتا اور سمجھتا ہو اور چاہے کہ دوسرا فرد اسے ان ہی معنوں میں لے جس روپ میں وہ اسے دیکھ رہا ہے۔ رائے رکھنے میں کوئی برائی نہیں مگر اس کا تھوپنا درست نہیں ہے۔
اسے آپ کیا کہے گے کے خود کو روشن خیال کہنے والے بھی اپنی اس روشن خیالی کا اطلاق کرنے کے سلسلے میں کافی انتہا پسند (سخت) ہیں
 
I

Iftikhar Ajmal Bhopal

مہمان
مدرسہ کیا ہے ؟

جب مدرسوں کے خلاف دہشت گردی کا بہت چرچہ ہوا تو مجھے خیال آیا کہ کچھ مدرسوں میں جا کر اپنی حیثیت کے مطابق کچھ تحقیق کی جائے ۔ جہاں بھی گیا کسی نے میری مدرسہ میں موجودگی کو محسوس نہ کیا ۔ عام سکولوں کی طرح کلاسیں ہو رہی تھیں ۔ فرق یہ تھا کہ سائنس نہیں پڑھائی جارہی تھی ۔ طلباء ہر عمر کے تھے ۔ اچھی طرح چکر لگانے کے بعد خیال آیا کہ کچھ سوال پوچھے جائیں ۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ مدرسوں میں آدھے سے زیادہ وہ طلباء ہیں جن کے پاس فیس تو کیا اپنا پیٹ بھرنے کے لئے بھی پیسے نہیں ۔ مدرسہ لوگوں کے چندہ سے چلتا ہے مگر کوئی چندہ مانگنے نہیں جاتا بلکہ لوگ خود ہی پہنچا دیتے ہیں ۔ جس چیز نے مجھے متاثر کیا وہ مدرسہ میں موجود ہر شخص کا حسن سلوک تھا ۔ جس سے بھی بات کی وہ نہائت حلیم طبع سے پیش آیا اور مزید خدمت کی پیش کش کی ۔ وہاں کا ماحول دیکھ کر مجھے جراءت نہیں ہو رہی تھی مگر ہمت کر کے میں نے طالبان کا ذکر کر دیا ۔ جواب ملا "جناب یہاں صرف دینی تعلیم دی جاتی ہے اور اس پر عمل کی تلقین کی جاتی ہے ۔ آپ اچھی طرح دیکھ لیں یہاں عسکری تربیت کا کوئی بندوبست نہیں ہے اور اس سلسلہ میں علیحدگی میں طلباء سے بھی تحقحق کر لیں ۔" میں جن مدرسوں میں گیا وہ اسلام آباد ۔پنجاب اور سرحد میں واقعہ ہیں ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
Iftikhar Ajmal Bhopal نے کہا:
کمال ہے ۔ تمام اخبارات روزانہ حروف سے کالے ہوتے ہیں لیکن یہاں ایک نقطہ بھی نہیں ہے ۔ آجکل سب سے زیادہ زور انتہاء پسندی پر ہے ۔ انتہاء کا مطلب ہوتا ہے آخر ۔ کسی بھی چیز کا آخر پھر اس کے آگے کچھ نہیں ۔ اگر کوئی شخص انتہاء پسند ہے تو پہلے یہ دیکھنا چاہیئے کہ اسے کس چیز کی انتہاء پسند ہے ۔ اگر وہ مولوی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ اسے آخرت پسند ہو گی یعنی جنت ۔ ہر مسلمان جنت میں جانا چاہتا ہے پھر اگر مولوی بھی یہی چاہتا ہے تو ہم اسے برا کیوں کہتے ہیں ؟

آج کے انگریزی اخبار میں پڑھا کہ اسلام آباد کے کچھ مولویوں کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے ملک کے صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف کوئی بات کی تھی ۔ صدر صاحب نے اپنی حالیہ تقریر میں دلائل کے ساتھ ثابت کیا تھا کہ وہ پکّے مسلمان ہیں ۔ میں نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کو ایک شخص نے بھری محفل میں کہا "عمر سب کے حصہ میں ایک ایک چادر آئی تھی اور ایک چادر سے تمہارا چغہ نہیں بن سکتا تو پھر تم نے یہ چغہ کیسے بنایا ہے ؟" عمر رضی اللہ عنہ منبر سے نیچے اتر گئے اور اپنے بیٹے سے کہا "بتاؤ میں نے یہ چغہ کیسے بنایا ہے ؟" بیٹے نے کہا "میں نے اپنے حصے کی چادر اپنے بابا کو دے دی تھی" ۔ کوئی بتائے کہ جس آدمی نے پاکستان سے کئی گنا بڑی سلطنت کے ایسے حاکم پر اعتراض کیا تھا جس کا نام سن کر دشمن لرز جاتے تھے اس کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ قائم ہوا تھا یا نہیں ؟ اگر نہیں تو کیا صدر نے جھوٹ بولا کہ وہ پکے مسلمان ہیں ؟


السلام علیکم

کیا واقعی صدر صاحب نے جھوٹ بولا کہ وہ مسلمان ہیں؟؟؟؟

افسوس کہ کہاں کی بات کو کہاں ملا دیا گیا ہے۔

اور آپ کو یہ بات تو نظر آئی کہ صدر صاحب نے مدارس پر تنقید کی ہے، مگر یہ نظر نہیں آیا کہ ملا حضرات نے صاحبِ صدر پر کیا کیا الزامات نہیں لگائے۔ (مثلاً صاحب صدر مسلمان نہیں بلکہ کافر ہیں اور اس کے جواب میں ہی صدر صاحب کو اُن کی تردید کرنا پڑی)۔

اور یہ الزامات صرف صدر صاحب تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ ملا حضرات ہی تھے جنہوں نے ایک دوسرے پر کافر کے الزامات لگائے ہوئے ہیں۔ کیا مودودی صاحب پر دیو بند اور بریلوی حضرات کے فتوے آپ کی نظر میں نہیں؟؟؟ کیا وہابی حضرات پر لگنے والے کفر کے فتوے آپ کے سامنے نہیں؟ کیا شیعہ حضرات پر لگنے والے کفر کے فتوے آپ کے سامنے نہیں؟؟؟

تو محترم برادر، کیا وجہ ہے کہ آپ اس قدر یک چشمی کے ساتھ صدر صاحب کے پیچھے پڑ گئے ہیں، حالانکہ مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے یہ حکومتی اقدامات بالکل صحیح ہیں اور ان کی مخالفت کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ "حبِ علی سے زیادہ بغضِ معاویہ" ہونا۔

آپ مجھے بتائیے کہ مدارس کی رجسٹریشن سے مدارس کو کیا خطرہ لاحق ہے؟؟؟

کیا رجسٹریشن کروانے سے اُن کی کلاسز رُک جائیں گی؟؟
کیا رجسٹریشن کروانے سے وہاں جاہل لوگ پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے؟؟

لا حول وللہ قوۃ

اگر ہم کسی چیز کے خلاف ہیں تو کچھ مدارس میں موجود اُس فتنے سے ہے جس کا تدارک بغیر رجسٹریشن جیسے عمل کے ممکن نہیں ہے۔ اب بتائیے کہ مارکیٹ میں جو ہزاروں کی تعداد میں فرقہ پرستی کی تعلیم دینے والی کتابیں موجود ہیں کیا وہ خود بخود آسمان سے نازل ہو گئی ہیں؟؟؟ اور ان سب کا سد باب کرنے کے لیے بھی اللہ آسمان سے نازل ہو گا اور بغیر مدارس کی رجسٹریشن کروائے ان کو تمام طرح کی برائیوں سے پاک و منزہ کر دے گا؟؟؟

ہماری سب سے بڑی حماقت یہ ہو گی کہ ہم معاشرے میں موجود اس برائی کا انکار کریں (کیوں نہیں مان لیتے کہ کچھ مدارس ایسے ضرور سے موجود ہیں جو فتنہ پھیلا رہے ہیں) ۔ دوسری بڑی حماقت یہ ہو گی کہ اس امید پر بیٹھے رہ جائیں کہ اللہ آ کر خود ہی ان برائیوں کو دور کر دے گا اور "بغضِ مشرف" میں ہر صحیح کام کو غلط کہنا شروع کر دیں۔

محترم برادر، آپ شوق سے مشرف صاحب پر اعتراضات کریں، مگر مدارس کے لیے ہونے والے حکومتی اقدامات کا مشرف کی اپنی ذات سے کوئی تعلق نہیں ہے (کہ وہ چور دروازے سے آئے تھے وغیرہ وغیرہ)۔

امید ہے کہ آپ اس فرق کو مدِ نظر رکھیں گے اور دونوں چیزوں کو مکس اپ کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔

والسلام
 

سیفی

محفلین
سلام بر دوستاں

مہوش !

آپ بہت جذباتی ہو گئی ہیں۔۔۔۔ آپ جیسی اہلِ علم ہستی اس بات کو تو ضرور جانتی ہو گی کہ جب کسی بات کا فیصلہ کرنا ہو تو فریقِ مخالف کے دلائل بھی سنے جاتے ہیں۔۔۔۔

کیا آپ نے اس بات پر غور کیا ہے کہ وہ علماء جنھوں نے کبھی بھی فرقہ واریت کا درس نہیں دیا وہ کیوں رجسٹریشن کے خلاف ہیں وہ کیوں نہیں حکومتی اصلاحات کو اپنانا چاہتے۔۔۔۔آخر یہ بھی تو سوچنے کی بات ہے کہ اگر صرف اہلحدیث حضرات یا دیوبند حضرات یا صرف ایک آدھ وفاق اس پر اعتراض کرتا تو سوچا جا سکتا تھا کہ ان لوگوں کے دلوں میں کچھ کالا ہے مگر یہ دیکھیں کہ تمام مدارس کے وفاق نے اتحاد قائم کرتے ہوئے حکومتی اصلاحات کو مسترد کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔

اگر آپ ان مدارس کا نقطہ نظر بھی معلوم کر نے کی کوشش کریں اور دیکھیں کہ کیا ان کے دلائل دل کو لگتے ہیں یا ایسے بونگی مار رہے ہیں۔۔لیکن خدارا اس دور میں جب دشمنانِ اسلام ہمارے خلاف صف آراء ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صرف پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر آپ بھی ان کے خلاف نہ ہو جائیں۔۔۔۔۔۔۔

میں اگلے پیغام میں انشاء اللہ کوشش کروں گا کہ ان کے دلائل پیش کر سکوں۔۔۔۔

آپ حضرات جانتے ہوں گے جاوید چودھری صاحب روزنامہ جنگ کے مشہور کالم نگار ہیں ان کا ایک کالم اس سلسلے میں اگر آپ پڑھنا پسند کریں تو
اونٹ اور خچر بھی دہشت گرد ہیں
 

سیفی

محفلین
جیس

اصل میں جنگ کی ٹیکسٹ سائٹ پرانے کالم کا ریکارڈ نہیں دیتی۔۔۔۔اگر آپ کو اس کا کوئی لنک پتا ہو تو بتا دیں۔۔۔۔۔مجھے صرف تصویری اردو میں جنگ کے پرانے کالم ہی ملے ہیں۔۔۔۔اور جنگ ۔نیٹ میں یوزر بھی نہیں بن رہا۔۔۔۔۔پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے۔۔۔۔
 

مہوش علی

لائبریرین
سیفی نے کہا:
سلام بر دوستاں

مہوش !

آپ بہت جذباتی ہو گئی ہیں۔۔۔۔ آپ جیسی اہلِ علم ہستی اس بات کو تو ضرور جانتی ہو گی کہ جب کسی بات کا فیصلہ کرنا ہو تو فریقِ مخالف کے دلائل بھی سنے جاتے ہیں۔۔۔۔

کیا آپ نے اس بات پر غور کیا ہے کہ وہ علماء جنھوں نے کبھی بھی فرقہ واریت کا درس نہیں دیا وہ کیوں رجسٹریشن کے خلاف ہیں وہ کیوں نہیں حکومتی اصلاحات کو اپنانا چاہتے۔۔۔۔آخر یہ بھی تو سوچنے کی بات ہے کہ اگر صرف اہلحدیث حضرات یا دیوبند حضرات یا صرف ایک آدھ وفاق اس پر اعتراض کرتا تو سوچا جا سکتا تھا کہ ان لوگوں کے دلوں میں کچھ کالا ہے مگر یہ دیکھیں کہ تمام مدارس کے وفاق نے اتحاد قائم کرتے ہوئے حکومتی اصلاحات کو مسترد کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔

اگر آپ ان مدارس کا نقطہ نظر بھی معلوم کر نے کی کوشش کریں اور دیکھیں کہ کیا ان کے دلائل دل کو لگتے ہیں یا ایسے بونگی مار رہے ہیں۔۔لیکن خدارا اس دور میں جب دشمنانِ اسلام ہمارے خلاف صف آراء ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صرف پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر آپ بھی ان کے خلاف نہ ہو جائیں۔۔۔۔۔۔۔

میں اگلے پیغام میں انشاء اللہ کوشش کروں گا کہ ان کے دلائل پیش کر سکوں۔۔۔۔

آپ حضرات جانتے ہوں گے جاوید چودھری صاحب روزنامہ جنگ کے مشہور کالم نگار ہیں ان کا ایک کالم اس سلسلے میں اگر آپ پڑھنا پسند کریں تو
اونٹ اور خچر بھی دہشت گرد ہیں

السلام علیکم

سیفی بھائی، آرٹیکل کا لنک دینے کا شکریہ۔

اس کالم میں رجسٹریشن کی وجہ سے ہونے والے جن نقصانات کا ذکر کیا گیا ہے وہ صرف ایک ہے۔ یعنی:

1۔ نو گیارہ کے واقعے کے بعد جب تفتیشات اور رجسٹریشن کا سلسلہ شروع ہوا تو غیر ملکی طلباء کی تعداد میں کمی ہو گئی۔

2۔ حکومت نے فیصلہ کیا کہ صرف وہی غیر ملکی طلباء پڑھ سکتے ہیں جن کی حکومتوں کے سفارتخانے انہیں اجازت دیں۔

نتیجتاً غیر ملکی طلباء کی تعداد میں کمی ہوئی۔

باقی جہاں تک ہندوستان اور برطانیہ سے تقابل کیا گیا ہے، وہ متوازن نہیں ہے۔ کیونکہ:

1۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد پاکستان کی نسبت ڈیڑھ گنا ہے، جبکہ مدارس کی تعداد بڑھ کر آج کی تاریخ میں دو ہزار تک پہنچی ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں پہلے سے ہی چودہ ہزار سے زائد مدارس کام کر رہے ہیں۔ اور حکومت انہیں مزید فنڈز مہیا کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ انہیں عصر حاضر کے تقاضوں سے ہمکنار کیا جائے (لہذا صرف بھارتی حکومت کے اس قدم کا ذکر کرنا عبث ہے کہ وہ دینی مدارس کو قرضہ دیتی ہے)۔

2۔ اس آرٹیکل میں جو ذکر کیا گیا ہے کہ صرف ایران کے پچاس ہزار طلباء بھارت میں تعلیم پذیر ہیں، تو اس میں صاحبِ مضمون نے بہت سے چیزوں کو ایسے پردے میں رکھا ہے کہ عام پڑھنے والا بات کی تہہ تک نہیں پہنچ پا رہا بلکہ اس بیان کا غلط مطلب لے رہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ان پچاس ہزار ایرانی طلباء کا داخلہ وہاں کے موجود دینی مدارس میں نہیں ہوا ہے، بلکہ وہ انڈیا کی عام یونیورسٹیز میں زیرِ تعلیم ہیں۔ اور اس کی بہت بڑی وجہ انڈیا کے تعلیمی معیار کا بہت بہتر ہونا ہے اور یونیورسٹیز اور کالجز کی بڑی تعداد ہے۔

اب ہماری موجودہ حکومت بھی عام تعلیم کا معیار بلند کرنے کی کوشش کر رہی ہے، مگر یہ سب بحث خارج از موضوع ہے، اور میرا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ صاحبِ آرٹیکل نے دینی مدارس کا تقابل کرتے کرتے اس چیز کو ایسے ڈھکے چھپے الفاظ میں بیان کر کے موضوع سے انصاف نہیں کیا ہے۔

اسی طرح صاحبِ آرٹیکل نے برطانیہ کا ذکر کیا ہے، تو انہیں یہ بھی بتانا چاہئے کہ برطانیہ میں ایسے تمام ادارے رجسٹرڈ ہیں اور باقاعدگی سے اپنا حساب کتاب دیتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ نے ذکر کیا تھا کہ آپ دینی مدارس کا نقطہ نظر مزید کھل کر بیان فرمائیں گے،۔۔ تو مجھے اس کا انتظار ہے تاکہ مزید حقائق سامنے آنے پر ہمیں صحیح فیصلے پر پہنچنے میں مزید آسانی ہو۔ (اب تک تو رجسٹریشن کے خلاف ایک ہی آرگومینٹ سامنے آیا ہے کہ چونکہ امریکا کے کہنے پر مسٹر مشرف نے یہ قدم اٹھایا ہے، اس لیے اس کو رد کر دیا جائے)۔

والسلام۔
 
Top