انتہا کی انتہا ہونے لگی ہے۔۔۔برائے اصلاح

شیرازخان

محفلین
فاعلاتن،فاعلاتن،فاعلاتن

انتہا کی انتہا ہونے لگی ہے
زندگی بھی اب سزا ہونے لگی ہی

اب قیامت ہر کسی کے ہاتھ میں ہے
اب خدائی بھی خدا ہونے لگی ہی

اشک پینا اور کھانا صرف دھوکے
بس یہی اپنی غذا ہونے لگی ہی

کیا ہوا ہے باغ میں جو ایک تتلی
اپنے رنگوں سے رہا ہونے لگی ہی

جب سے ہم اصرار کرنے لگ گئے ہیں
تب سے انکی ضد سوا ہونے لگی ہی

راستوں کو بند کرتی جا رہی ہے
جس خلا سے پُر خلا ہونے لگی ہی

جب سے ٹکرانے لگے شیراز ان سے
دور ہم سے ہر بلا ہونے لگی ہی

الف عین
 

الف عین

لائبریرین
ہے کی جگہ ‘ہی‘۔۔ اتنی بہت سی ٹائپو!!
مطلع کو
اتہا کی انتہا ہونے لگی ہے
زندگی بھی اب سزا ہونے لگی ہے
پہلا مصرع واضح نہیں، ہاں، انتہا سی انتہا کہیں تو خیال آفرینی بڑھ جاتی ہے۔

اشک پینا اور کھانا صرف دھوکے
۔۔دھوکے کی جگہ قریب لایا جائے تو بہتر ہے،

اور
جب سے ہم اصرار کرنے لگ گئے ہیں
’کرنے لگنا‘ سے بات مکمل ہو جاتی ہے، اس مصرع کو بدلو تو بہتر ہے۔؎باقی اصلاح کی ضرورت نہیں
 

شیرازخان

محفلین
ہے کی جگہ ‘ہی‘۔۔ اتنی بہت سی ٹائپو!!
مطلع کو
اتہا کی انتہا ہونے لگی ہے
زندگی بھی اب سزا ہونے لگی ہے
پہلا مصرع واضح نہیں، ہاں، انتہا سی انتہا کہیں تو خیال آفرینی بڑھ جاتی ہے۔

اشک پینا اور کھانا صرف دھوکے
۔۔دھوکے کی جگہ قریب لایا جائے تو بہتر ہے،

اور
جب سے ہم اصرار کرنے لگ گئے ہیں
’کرنے لگنا‘ سے بات مکمل ہو جاتی ہے، اس مصرع کو بدلو تو بہتر ہے۔؎باقی اصلاح کی ضرورت نہیں
ٹائیپو نہیں دراصل کاپی پیسٹ میں کوئی فرق لگا ہے۔۔۔!!
'' فریب '' کا وزن کیا ہوا؟ یہ فعول کے وزن پہ نہیں کیا؟
اس شعر کی سادہ سی تبدیلی سے تاثر بہتر ہوتا ہے؟؟
جب سے ہم اصرار کرتے جا رہے ہیں
تب سے انکی ضد سوا ہونے لگی ہی
 

الف عین

لائبریرین
احمد جاوید کا شعر یاد آیا ہے
آنسو پینا، غم کھانا
کافی ہے یہ رزقِ حلال
جب فارسی کے اشک پیے جائیں تو فارسی میں ہی فریب کھایا جائے، تو تاثر بہتر ہوتا ہے۔ اس لئے لکھا تھا، یہ نہیں کہ دھوکے لفظ کی بجائے فریب کر دیا جائے۔یوں ہو سکتا ہے
پی رہے ہیں اشک، کھاتے ہیں فریب
یا
اشک پیتے ہیں تو کھاتے ہیں فریب
 
Top