نبیل
تکنیکی معاون
اگر کسی حکومت کے عزائم کا ارادہ اس کی ابتدائی تقرریوں کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے تو پاکستان کی نئی حکومت نے بلاشبہ اپنی پہلی تقرری سے ہی ایک بدترین دور کی بنیاد رکھ دی ہے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے پہلی تقرری کے احکامات جاری کرتے ہوئے ہی پاکستان کے سب سے بڑے انتظامی عہدے پر سب سے بدنام اور کرپٹ افسر کی تعیناتی کی ہے، یعنی سراج شمس الحسن کو اپنا پرنسپل سیکرٹری مقرر کیا ہے۔ اس کے علاوہ نئی حکومت کے عہدے داروں میں سلمان فاروقی کا نام بھی شامل ہے جو کرپشن کے لیے افسانوی شہرت کا مالک ہے۔ سلمان فاروقی کے بھائی عثمان فاروقی کو پاکستان سٹیل مل کا چیرمین بنایا گیا تھا۔ بعد میں جب عثمان فاروقی کے گھر اور بینک لاکرز سے زیورات اور نقدی کے ڈھیر برآمد ہوتے تھے تو یہ کہا جاتا تھا کہ یہ تو ہمارے پاس پہلے سے موجود تھا
پیپلز پارٹی کے پاس اس تقرریوں کا صرف یہ عذر موجود ہے کہ ان افسران کو انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا لیکن یہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ثابت قدم رہے، اور انہیں بڑے عہدوں پر فائز کرنا ان کی قربانیوں کا اعتراف ہے۔ جبکہ نواز شریف اور ان کے ساتھی یہ کہہ کر جان چھڑا سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ سنیٹر سیف الرحمن کا کیا دھرا تھا اور ہمارا ان انتقامی کاروائیوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سراج شمس الحسن کو گریڈ 20 کا افسر ہوتے ہوئے گریڈ 22 کی پوسٹ دی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سراج شمس الحسن کا انتخاب یوسف رضا گیلانی نے نہیں بلکہ آصف زرداری نے کیا ہے۔اسی رپورٹ میں لکھا ہے:
وزیراعظم کے اسٹاف افسر کی حیثیت سے پرنسپل سیکریٹری انتظامی معاملات اور پالیسی امور میں وزیراعظم کے قریبی معاون کے طور پر خدمات انجام دیتا ہے تاہم سید سراج، رواں سال جولائی ، اگست میں ریٹائر ہوجائیں گے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم انہیں پہلے گریڈ 21 اور اس کے بعد گریڈ 22 میں ترقی دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ قواعد کے تحت گریڈ 21 کے بعد صرف مرکزی سلیکشن بورڈ (سی ایس بی) کی سفارش پر ہی ترقی دی جا سکتی ہے، جس کی سربراہی وفاقی پبلک سروس کمیشن کا چیئرمین کرتا ہے۔ جب تک سی ایس بی سید سراج سے ملاقات اور ان کی سفارش نہیں کرتا، اس وقت تک وزیراعظم بے بس ہوں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم سیکریٹریٹ میں گریڈ 21 کے چار افسران گریڈ 20 کے افسر کے ماتحت کام کر رہے ہونگے۔ ان میں ناصر کھوسہ، ضمیر اکرم، جاوید اختر اور سعید احمد خان شامل ہیں۔ اپنے رینک کی بدولت یہ تمام ایڈیشنل سیکریٹری اپنے نئے مقرر ہونے والے افسر سے سینئر ہونگے جبکہ موخر الذکر نے ان افسرا ن سے خاصہ پہلے سرکاری ملازمت میں شمولیت اختیار کی تھی۔ بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ اقتدار کے دوران کئی درجن سینئر افسران کو نظر انداز کرکے سراج شمس الدین کو ترقی دینے سے متعلق ایک خفیہ سمری تیار کی گئی تھی۔ یہ سمری وزیراعظم سیکریٹریٹ میں تیار کی گئی تھی اور ذاتی طور پر اس وقت کے سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ مظہر الحق صدیقی کے حوالے کی گئی تھی۔ تاہم دی نیوز میں یہ معاملہ شائع ہونے کے بعد اس پر کارروائی روک دی گئی۔
لگتا ہے کہ قوم اس بھول میں پڑ گئی تھی کہ طویل عرصے کی قید کے بعد آصف زردای میں کچھ تبدیلی آ گئی ہوگی، لیکن شاید آصف زرداری ابھی تک اپنے وفاداروں کو اسی طرح نواز رہے جیسے پیپلز پارٹی کے ایک گزشتہ دور حکومت میں اظہرسہیل کو "مقابل ہے آئینہ" جیسے پروگرام کے ذریعے پوری قوم کے اعصاب پر مسلط کر دیا گیا تھا۔
پیپلز پارٹی کے پاس اس تقرریوں کا صرف یہ عذر موجود ہے کہ ان افسران کو انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا لیکن یہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ثابت قدم رہے، اور انہیں بڑے عہدوں پر فائز کرنا ان کی قربانیوں کا اعتراف ہے۔ جبکہ نواز شریف اور ان کے ساتھی یہ کہہ کر جان چھڑا سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ سنیٹر سیف الرحمن کا کیا دھرا تھا اور ہمارا ان انتقامی کاروائیوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سراج شمس الحسن کو گریڈ 20 کا افسر ہوتے ہوئے گریڈ 22 کی پوسٹ دی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سراج شمس الحسن کا انتخاب یوسف رضا گیلانی نے نہیں بلکہ آصف زرداری نے کیا ہے۔اسی رپورٹ میں لکھا ہے:
وزیراعظم کے اسٹاف افسر کی حیثیت سے پرنسپل سیکریٹری انتظامی معاملات اور پالیسی امور میں وزیراعظم کے قریبی معاون کے طور پر خدمات انجام دیتا ہے تاہم سید سراج، رواں سال جولائی ، اگست میں ریٹائر ہوجائیں گے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم انہیں پہلے گریڈ 21 اور اس کے بعد گریڈ 22 میں ترقی دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ قواعد کے تحت گریڈ 21 کے بعد صرف مرکزی سلیکشن بورڈ (سی ایس بی) کی سفارش پر ہی ترقی دی جا سکتی ہے، جس کی سربراہی وفاقی پبلک سروس کمیشن کا چیئرمین کرتا ہے۔ جب تک سی ایس بی سید سراج سے ملاقات اور ان کی سفارش نہیں کرتا، اس وقت تک وزیراعظم بے بس ہوں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم سیکریٹریٹ میں گریڈ 21 کے چار افسران گریڈ 20 کے افسر کے ماتحت کام کر رہے ہونگے۔ ان میں ناصر کھوسہ، ضمیر اکرم، جاوید اختر اور سعید احمد خان شامل ہیں۔ اپنے رینک کی بدولت یہ تمام ایڈیشنل سیکریٹری اپنے نئے مقرر ہونے والے افسر سے سینئر ہونگے جبکہ موخر الذکر نے ان افسرا ن سے خاصہ پہلے سرکاری ملازمت میں شمولیت اختیار کی تھی۔ بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ اقتدار کے دوران کئی درجن سینئر افسران کو نظر انداز کرکے سراج شمس الدین کو ترقی دینے سے متعلق ایک خفیہ سمری تیار کی گئی تھی۔ یہ سمری وزیراعظم سیکریٹریٹ میں تیار کی گئی تھی اور ذاتی طور پر اس وقت کے سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ مظہر الحق صدیقی کے حوالے کی گئی تھی۔ تاہم دی نیوز میں یہ معاملہ شائع ہونے کے بعد اس پر کارروائی روک دی گئی۔
لگتا ہے کہ قوم اس بھول میں پڑ گئی تھی کہ طویل عرصے کی قید کے بعد آصف زردای میں کچھ تبدیلی آ گئی ہوگی، لیکن شاید آصف زرداری ابھی تک اپنے وفاداروں کو اسی طرح نواز رہے جیسے پیپلز پارٹی کے ایک گزشتہ دور حکومت میں اظہرسہیل کو "مقابل ہے آئینہ" جیسے پروگرام کے ذریعے پوری قوم کے اعصاب پر مسلط کر دیا گیا تھا۔