مہ جبین
محفلین
انجمن انجمن ہیولے ہیں
آئینے عکس کو ترستے ہیں
کتنی کلیوں کے بے صدا نَوحے
تتلیوں کے پروں پہ لکھے ہیں
ہم نے کاغذ کا گھر بنایا تھا
لے اُڑی جب ہوا تو سمجھے ہیں
دل میں اک بوند بھی لہو کی نہیں
تشنہء رنگ کتنے خاکے ہیں
ایسی محبوس بھی نہیں خوشبو
قَفَسِ رنگ میں جھروکے ہیں
وقت اُن کا خیال رکھتا ہے
وقت کا جو خیال رکھتے ہیں
آسماں پر وہی چراغاں ہے
اور زمیں پر وہی اندھیرے ہیں
ہاتھ کس جرم میں قلم ہونگے
جو گزرتی ہے دل پہ ، لکھتے ہیں
آنے والوں کے حق میں آئینہ
جانے والوں کے داغ دھبے ہیں
رونقِ عالمِ وجود نہ پوچھ
گھٹتے بڑھتے عدم کے سائے ہیں
کوئی تو دل میں رہ گیا ہوتا
کتنے چہرے نظر سے گزرے ہیں
عقل کے پاس کیا ہے دل کے خلاف
چند خود ساختہ حوالے ہیں
اپنا سایہ بھی آس پاس نہیں
آج ہم کس قدر اکیلے ہیں
شہر میں رہ گئے ہیں چند چراغ
وہ بھی خاموش ہونے والے ہیں
کیا شکستِ دلِ حزیں کا ملال
آئینے ٹوٹتے ہی رہتے ہیں
حزیں صدیقی
آئینے عکس کو ترستے ہیں
کتنی کلیوں کے بے صدا نَوحے
تتلیوں کے پروں پہ لکھے ہیں
ہم نے کاغذ کا گھر بنایا تھا
لے اُڑی جب ہوا تو سمجھے ہیں
دل میں اک بوند بھی لہو کی نہیں
تشنہء رنگ کتنے خاکے ہیں
ایسی محبوس بھی نہیں خوشبو
قَفَسِ رنگ میں جھروکے ہیں
وقت اُن کا خیال رکھتا ہے
وقت کا جو خیال رکھتے ہیں
آسماں پر وہی چراغاں ہے
اور زمیں پر وہی اندھیرے ہیں
ہاتھ کس جرم میں قلم ہونگے
جو گزرتی ہے دل پہ ، لکھتے ہیں
آنے والوں کے حق میں آئینہ
جانے والوں کے داغ دھبے ہیں
رونقِ عالمِ وجود نہ پوچھ
گھٹتے بڑھتے عدم کے سائے ہیں
کوئی تو دل میں رہ گیا ہوتا
کتنے چہرے نظر سے گزرے ہیں
عقل کے پاس کیا ہے دل کے خلاف
چند خود ساختہ حوالے ہیں
اپنا سایہ بھی آس پاس نہیں
آج ہم کس قدر اکیلے ہیں
شہر میں رہ گئے ہیں چند چراغ
وہ بھی خاموش ہونے والے ہیں
کیا شکستِ دلِ حزیں کا ملال
آئینے ٹوٹتے ہی رہتے ہیں
حزیں صدیقی