انجیر (کے فوائد اور کمالات) مفتی منیب الرحمن

انجیر

از مفتی منیب الرحمن
میں ایک ٹی وی چینل پر ہر سوموار کو کسی تفسیرپر گفتگو کرتا ہوں۔ اس ہفتے حضرت شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ کی ''تفسیر عزیزی‘‘ پر گفتگو کا موقع ملا۔ مطالعے کے دوران سورۂ التین کی تفسیر میں شاہ صاحب نے انجیر کی جو صفات اور خاصیات بیان کی ہیں وہ نہایت دلچسپ اور مفید معلوم ہوئیں ، اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اپنے قارئین کو اس میں شریک کروں۔ اللہ تعالیٰ نے جن اشیاء یا مقامات کی قرآنِ مجید میں قسم فرمائی ہے، ان میں کوئی نہ کوئی ظاہر یا مستور حکمت ضرور موجود ہے۔ انجیر کو انگریزی میں Figاور بعض علاقائی زبانوں مثلاً ہندکو میں پھگوڑی کہتے ہیں۔
حضرت شاہ صاحب نے لکھا کہ انجیر میں کچھ ظاہری خصوصیات ہیں اور کچھ باطنی۔ ظاہری خصوصیات بیان کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ یہ پھل لطیف ہے ،زُود ہضم اور ہاضم (Digestant) ہے،معدے اور آنتوں کو نرم رکھتاہے، سڑے ہوئے یابدبودار مادّے کو بدن کے اندر سے پسینے کی راہ سے نکال دیتا ہے۔ اس کی خاصیت گرم ہے، لیکن اس کے باوجود بخار کے لئے مفید ہے، بلغم کوپتلاکرتاہے۔ یہ پھل گردے اور مثانے کو پتھریلے ذرات سے پاک کرتاہے،بدن کو موٹا کرتاہے اور مسام کھول دیتاہے۔ انجیر جگر اور تلّی کے سُدّوں یعنی گٹھلی بننے والے بافتوں(Tissues)کو تحلیل کرتا ہے اوریہ تلی کے ورم کے لئے بھی مفید ہے۔
انجیرکی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ سارے کا سارا پھل ، غذااور دوا ہے۔ اس میں کوئی فاضل اور فالتو جُز مثلاً گٹھلی ، بیج اور پھینکا جانے والا چھلکا نہیں ہے ۔ لہٰذا یہ اس اعتبار سے جنت کے پھلوں کے مشابہ ہے، کیونکہ جنت کے پھلوں میں بھی کوئی فاضل جُز نہیں ہوگا۔ یہ قرآن کی مانند مغز ہی مغز ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے: ''نبیﷺ کی خدمت میں انجیر کا ایک طباق ہدیہ کیا گیا، آپ نے اس میں سے انجیر کھائیں اور اپنے اصحاب سے فرمایا: کھاؤ، پھر آپ نے فرمایا: اگر میں یہ کہوں کہ یہ پھل جنت سے نازل ہوا ہے تو کہہ سکتا ہوں ، کیونکہ جنت کے پھل بغیر گٹھلی کے ہیں ، اس کو کھاؤ کیونکہ یہ بواسیر (Piles) کوکاٹتا ہے اور گٹھیا کے درد کے لئے بھی مفیدہے،(الکشف والبیان، جلد:10، ص:238)‘‘۔ حضرت امام علی موسیٰ رضارضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انجیر کھانے سے منہ کی بدبودور ہوتی ہے، یہ سر کے بالوں کو بڑھاتا ہے اور فالج سے محفوظ رکھتا ہے۔ انجیر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ ایک درمیانے لقمے کے برابر ہوتاہے، لہٰذا اسے کھانے میں کوئی مشقت نہیں ہوتی اور یہ خوش ذائقہ بھی ہے۔
انجیر کے اندر پروٹین، معدنی اجزاء ، گلوکوز، کیلشیم اور فاسفورس پائے جاتے ہیں ۔ یہ قبض کے لیے بھی مفید ہے۔ حدیثِ مبارَک میں ہے کہ انجیر مرض قولنج میںبھی مفید ہوتاہے۔ یہ پھل رنگت کو سرخ وسفید بنانے کی خاصیت بھی رکھتا ہے۔ اسے زیادہ دیر تک تروتازہ نہیں رکھا جاسکتا، البتہ اسے خشک کرکے محفوظ کیا جاسکتا ہے، خشک کرنے کے عمل کے دوران جراثیم سے حفاظت کے لیے اسے گندھک کی دھونی دی جاتی ہے اور ملائم رکھنے کے لئے اسے نمک کے پانی میں ڈبویا جاتاہے۔ اس کے تازہ کچے پھل اور پتوں سے دودھ کی طرح قطرے ٹپکتے ہیں ، ان میں جلن ہوتی ہے اور یہ کہا جاتاہے کہ برص کے داغ کو دور کرنے کے لیے مفید ہیں۔ انجیر کو عرب ممالک میں پسند کیا جاتاہے۔ پاکستان کے بعض علاقوںمیں بکثرت پایا جاتاہے ۔ یہ بنیادی طور پر سنٹرل ایشیا کا پھل ہے، کہا جاتاہے کہ سنٹرل ایشیا سے منگول ، مغل اور مسلمان اَطِبّاء اسے برصغیر میں لائے ، کیونکہ مسلمانوں کی آمد سے پہلے اس خطے میں اس کا سراغ نہیں ملتا۔
شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ نے انجیر کے باطنی خواص بھی بیان کیے ہیں ، ان میں سے چند یہ ہیں:یہ پھل اہلِ کمال سے مشابہت رکھتا ہے کہ اس کا ظاہر وباطن ایک ہے ، لہٰذا یہ سراسر خیر ہی خیر ہے اور یہ سارے کاسارا فیض رساں ہے کہ نہ گٹھلی ، نہ فالتو چھلکا اور نہ ہی اس میں بیج ہوتاہے کہ اسے پھینکا جائے، جب کہ دیگر پھلوں میں کہیں گٹھلی ہے(جیسے آم)یا چھلکا ہے اور اندر مغز ، جیسے بادام ، مونگ پھلی، اخروٹ، کاجووغیرہ ۔اور کہیں چھلکا پھینکا جاتاہے جیسے مالٹا، سنگترہ وغیرہ اور چیکو میں بیج ہوتاہے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ یہ پھل ایثار کی صفت کا بھی حامل ہے ۔ دیگر پھل دار درختوں پر پہلے شگوفے کھلتے ہیں ، یعنی وہ اپنے آپ کو حسن وجمال سے آراستہ کرتے ہیں ، جب کہ انجیر میں کسی شگوفے یا کلی کے بغیر براہِ راست پھل نکل آتا ہے ۔ شاہ صاحب دیگر پھل دار درختوں کو خود غرض اور دنیا دار لوگوں کے مشابہ قرار دیتے ہیں ، جو''اول خویش بعد درویش‘‘ کے فارمولے کا مظہر ہوتے ہیں ۔اس بات کو امام فخرالدین رازی نے تفسیرِ کبیر میں لکھا ہے کہ:'' دیگر درختوں کا شِعار اس حدیث کا مصداق ہے ''پہلے اپنی ضرورت پوری کرو اور پھر ان کی جو تمہاری کفالت میں ہیں‘‘ اور انجیر اس صفتِ مصطفوی کا مظہر ہے جو سورۃ الحشر :09میں بیان کی گئی ہے:''اور وہ خود ضرورت مند ہونے کے باوجود (ایثار سے کام لیتے ہیںاور) دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں‘‘،(تفسیرِ کبیر ، جلد:32، ص:210-11)‘‘۔ مزید یہ کہ انجیر سال میں ایک سے زائد بار پھل دیتا ہے۔
شاہ صاحب مزید لکھتے ہیں کہ جب عالمِ انسانیت کے جدِّ اعلیٰ حضرت آدم علیہ السلام کی خطائِ اجتہادی کے نتیجے میں اُن کا جنتی لباس اتار لیا گیا اور ان کا بدن بے لباس ہوگیا، تو قرآن مجید میں ہے:''پھر ان دونوں کے دلوں میں شیطان نے وسوسہ ڈالا تاکہ (انجامِ کار) اُن دونوں کی شرم گاہیں جواُن پر مستور تھیں، اُن کو ظاہر کردے، شیطان نے کہا: تمہارے رب نے تم کو اس درخت سے اس لئے روکا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا ہمیشہ رہنے والوں میں سے ہوجاؤ۔ اور اس نے ان دونوں کو قسم کھا کر کہا: بے شک میں تم دونوں کا خیرخواہ ہوں ۔ پھر فریب سے اس نے ان دونوں کو اپنی طرف مائل کرلیا، پس جب ان دونوں نے اُس درخت کو چکھا توان کی شرم گاہیں اُن کے لئے ظاہر ہوگئیں اور وہ اپنے اوپر جنت کے پتے لپیٹنے لگے ۔ اور ان کے رب نے ان کو پکار کر فرمایا: کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے نہیں روکا تھا اور تم دونوں سے یہ نہیں کہا تھا کہ بے شک شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے (تب) ان دونوں نے عرض کی: اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ فرمائے تو ہم ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے، (الاعراف:20-23)‘‘۔
شاہ عبدالعزیز لکھتے ہیں : حضرت آدم وحوا علیہما السلام اپنے بدن کو ڈھانپنے کے لئے جس درخت کے پاس جاتے وہ آپ کی پہنچ سے اونچا ہوجاتا، پس جب وہ انجیر کے درخت کے پاس گئے تو انجیر کا درخت اونچا نہ ہوا اور حضرت آدم وحوّا علیہما السلام نے اس کے پتوں سے اپنے بدن کو ڈھانپا۔
شاہ عبدالعزیز مُحدّث دہلوی نے لکھا: بعض کاشت کار لوگوں کا کہنا ہے کہ کامل درخت وہ ہے جس میں مندرجہ ذیل دس چیزیں پائی جائیں : جڑ، ڈالیاں، پتے، پھول، گٹھلی ، گوند، چھال، چھلکا اور شیرہ ، جیسے کھجور کا درخت کہ یہ دس چیزیں اس میں موجود ہیں ۔ پس جس درخت میں ان میں سے کوئی چیز کم ہو تووہ ناقص ہے اور انجیر میں گٹھلی نہیں ہے، لہٰذا یہ ناقص ہے۔ تواس کا جواب یہ ہے کہ یہ نَقص نہیں بلکہ کمال ہے، کیونکہ گٹھلی کھانے کی چیز نہیں ہے ، پھینک دینے کی چیز ہے، پس گٹھلی کا ہونا کمال نہیںبلکہ نہ ہوناکمال ہے۔
آخر میں شاہ صاحب لکھتے ہیں: خلاصۂ کلام یہ کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے انجیر کی قسم فرما کر اس کی اہمیت اور فضیلت کی جانب اپنے بندوں کو متوجہ فرمایا۔امام قرطبی نے لکھا ہے:''کسی شخص کو خواب میں انجیر نظر آئے تواس کی روزی کشادہ ہوگی اورانجیر کھائے تو اسے اولاد کی نعمت نصیب ہوگی،(احکام القرآن، جلد:20، ص:111)‘‘۔امام قرطبی نے انجیر کا وصف بیان کرتے ہوئے عربی اشعار بھی نقل کئے ہیں، جن میں سے ایک کا ترجمہ یہ ہے:''میرے نزدیک انجیر ہر پھل کی خوبیوں کا حامل ہے، اس کی شاخ پھل سے لدی ہو تو جھک جاتی ہے، اس کا منہ زخم کی مانند ہوتاہے، جس سے شہد بہتا ہے ، گویا کہ یہ اللہ کی خشیت سے جھک جاتاہے‘‘۔
 
یہ مفتی صاحب کا کالم ہے اور اخباری کالم اکثر اسی زمرے میں پوسٹ کئے جاتے ہیں۔ اگر اسے کسی اور مناسب زمرے میں ڈال دیا جائے تو اچھی بات ہے۔
مجھ پر اعتراض کرنے کی بجائے اسے رپورٹ کرنا زیادہ بہتر ردعمل ہوتا
 
جی تقریباً وہی زمانہ ہوگا۔
غرقد کے درخت پر شاید پھل نہیں لگتا۔ یہ تصویر دیکھیں
gharqad.png
 

تجمل حسین

محفلین
اس پناہ گاہ کے متعلق کچھ مزید بتائیے گا۔

مختصر صحیح مسلم
فتنوں کا بیان
باب : یہودیوں سے مسلمانوں کی لڑائی کے متعلق۔
2025 : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ مسلمان یہود سے لڑیں گے، پھر مسلمان ان کو قتل کریں گے۔ حتیٰ کہ یہودی کسی پتھر یا درخت کی آڑ میں چھپے گا تو وہ پتھر یا درخت بولے گا کہ اے مسلمان ! اے اللہ کے بندے ! یہ میرے پیچھے ایک یہودی ہے، ادھر آ اور اس کو قتل کر دے مگر غرقد کا درخت نہ بولے گا ( وہ ایک کانٹے دار درخت ہے جو بیت المقدس کی طرف بہت زیادہ ہوتا ہے ) وہ یہود کا درخت ہے۔


آخری معرکہ حق و باطل جس میں مسلمانوں کے مدمقابل یہودی ہوں گے’ مسلمانوں کو ہی فتح نصیب ہوگی۔ رب کائنات کی طرف سے مسلمانوں کی نصرت اور تائید کی ایک نشانی یہ ہوگی کہ اس موقع پر شجر و حجر کو بھی قوت گویائی عطا ہوگی اور وہ بول بول کر مسلمانوں سے کہیں گے: اے مسلمان! اے اللہ کے بندے! یہ میرے پیچھے ایک یہودی چھپا ہوا ہے، جلدی سے آؤ اور اسے قتل کر ڈالو ۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک مسلمانوں کی یہودیوں سے جنگ نہ ہوجائے۔ مسلمان یہودیوں کو قتل کریں گے۔ یہاں تک کہ ایک یہودی کسی پتھر یا درخت کے پیچھے چھپ جائے گا لیکن وہ پتھر یا درخت کہے گا: اے مسلم! اے اللہ کے بندے! یہ میرے پیچھے ایک یہودی چھپا ہوا ہے۔ آؤ، اسے قتل کر ڈالو مگر ’’غرقد‘‘ کا درخت نہیں بولے گا کیونکہ وہ یہودیوں کا دوست ہے۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا کہ یہودیوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک بات کے سچ ہونے کا کامل یقین ہے اس لئے وہ اپنی دانست میں سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں سے آخری تصادم کی صورت میں پسپا ہونے پر غرقد کا درخت کے پیچھے پناہ حاصل ہوگی اس لئے اسرائیل میں بڑے پیمانہ پر اس درخت کو اگانے کی ایک مہم شروع کی گئی ہے۔ گھروں کے صحنوں اور دفاتر میں اس کی بڑے پیمانہ پر شجر کاری کی جارہی ہے۔ حتیٰ کہ ہندستان سے بھی یہ درخت شجر کاری کے لئے درآمد کئے گئے ہیں اور اس درخت کو بچانے کی عالم گیر مہم شروع کی گئی ہے۔
 
Top