ناعمہ عزیز
لائبریرین
اندرون سندھ.
یوں تو میں اندرون سندھ صرف دو مرتبہ ہی گئی ہوں گو کہ پوری طرح سے وہاں کی ثقافت و کلچر کو دیکھنے پرکھنے کا موقع نہیں مل سکا لیکن ایک اور صوبے میں جانا ان کی زبان وہاں بسنے والے لوگوں کا رہن سہن، عادات و اطوار میرے جیسی بندی کے لیے ایک ایڈونچر سے کم نہیں. ایک دفعہ اس ایڈونچر کا آغاز گرین لائن ٹرین اسلام آباد سے حیدرآباد تک کیا تھا، اور دوسری بار قراقرم فیصل آباد سے حیدرآباد تک. ان دونوں ٹرینوں کے اوقات (ان لوگوں کے لیے جو ٹرین کا سفر کرنا چاہتے ہوں) بالکل ٹھیک ہیں.
تو بات ہو رہی تھی اندرون سندھ کی. حیدرآباد سے ٹرین نے ہم سے اجازت لی اور ہمیں سٹیشن پر چھوڑ کر اکیلی کراچی چلی گئی. استقبالیہ گاڑی تیار تھی. بھلا ہو فرحان بھائی کا. میں تو اندرون سندھ جانے والی کوچ کو دیکھ کر ہی الٹی کر دوں. لیکن فرحان بھائی زندہ باد. تو گاڑی میں عمر کوٹ تک کے سفر میں آپ کو کافی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے. بشرطیکہ کہ اتنا لمبا(ٹرین کا) سفر کرنے کے بعد آپ کے اندر کچھ اور بھی دیکھنے کی قوت موجود ہو. میں ذاتی طور پر لمبے سفر سے کتراتی ہوں. بلکہ یہ سوچ ہی مجھے وحشت زدہ کر دیتی ہے کہ مجھے اتنا لمبا سفر کرنا پڑے گا. بہرحال یہ خوشی کہ ایک صوبہ دیکھنے کو ملے گا مجھے اتنا لمبا سفر کروا کے لے گئی. حیدر آباد سے اندرون سندھ کی جانب رواں دواں سڑک کے اوپر جگہ جگہ آپ کو پیپلز پارٹی کے نئے نکور بینرز بورڈز نظر آئیں گے اور گاڑی کے نیچے سڑک باسی پرانی ٹوٹی پھوٹی.... معلوم ہوا کہ لوگ پیسے لے کر کھا لیتے ہیں سڑکیں روتی رہتی ہیں. دل سے شہباز شریف کے لیے دعا نکلی کہ چلو اور کچھ نہیں تو سڑکیں بنا دیں پنجاب کی. اگر وہ بھی نا بناتے تو ہم کیا کر سکتے تھے. راستے میں جاتے ہوئے آپ کو تھادل (مشروب) جگہ جگہ ملے گا. سنا ہے سخت گرمی میں اس کا کوئی نعم البدل نہیں. بھابھی (فرحان بھائی کی بیوی) بتاتی ہیں کہ یونیورسٹی کے زمانے میں سخت گرمی میں لوکل بس جب آ کر تھادل کی دکان کے پاس سٹاپ لیتی تو ہم تھادل پی کر فریش ہو جاتے تھے اور پھر دوبارہ بس میں بیٹھ کر سو جاتے. یہ انکشاف بھی ہوا سلانے کے لیے اس میں بھنگ ڈالی جاتی ہے. کتنا پرسکون کر دینے والا احساس ہے کہ سخت گرمی، لوکل بس، اس میں بھنگ والی تھادل پیتے ہی بندہ سو جائے. نیند تو ویسے بھی بڑی نعمت ہے سفر میں آجائے تو جلدی کٹ جاتا ہے. ارے ہاں یہ بتانا تو بھول ہی گئی کہ ہمارے یہاں پنجاب میں تھادل کو سردائی کہتے ہیں جب ہم چھوٹے تھے تو گرمیوں میں ہماری اماں بیڈ ٹی کی جگہ بیڈ سردائی گھوٹ کر پلایا کرتی تھیں.
اندرون سندھ کی اپنی کچھ روایات ہیں. مجموعی طور پر وہاں کے لوگ بہت محبت، عزت کرنے والے اور بے حد مہمان نواز ہیں. گھر میں آئے اجنبی کو بھی کھانا کھائے بغیر جانے نہیں دیتے.
سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ ابھی تک وہاں وڈیرا سسٹم موجود ہے. میرے خیال سے وڈیرا سسٹم ایک نہایت ہی ناکام سسٹم ہے ویسے تو پاکستان میں سب کے سب سسٹم ناکام ہی ہیں مگر وڈیروں کے ظلم و ستم کے چرچے آئے دن اخبارات کی سرخیوں کی نذر ہوتے ہیں مگر ان کے خلاف آواز اٹھانے والا کوئی نہیں.
اندرون سندھ میں کافی ہندو بھی رہتے ہیں اور سب سے اچھی بات یہ کہ (اکثر اوقات) مسلمان اور ہندو مل جل کر رہتے ہیں. مکرانیوں کی بھی خاصی تعداد موجود ہیں. مکرانی مرد یوں تو محنتی ہوتے ہیں لیکن کچھ کاہل اور نشئی بھی ہیں. ان کی بیویاں لوگوں کے گھروں میں کام کرتے ہیں پیسہ کماتی ہیں اور ایسے کاہل اور نشئی مرد شراب پیتے جوا کھیلتے ہیں. مکرانی بھی دو قسم کے ہیں. ایک کالے مکرانی اور ایک گورے مکرانی. گورے مکرانی یہ کہتے ہیں کہ کالے مکرانی ان کے نوکر ہیں جب کہ کالے مکرانیوں کا بھی گورے مکرانیوں کے بارے میں یہی خیال ہے. البتہ گورے مکرانی لوگوں کے گھروں کے کام نہیں کرتے اپنی ریڑھی لگا لیتے ہیں.
میرا ہمیشہ دل چاہتا تھا تھر دیکھوں. لیکن سوچنے میں ایک خواب سا لگتا کہ کون پاکستان کے آخری کونے میں لے کے جائے گا. مگر بدولت میرے شوہر نامدار تھر دیکھنے کا موقع مجھے بہت قریب سے ملا. وہ جو ڈراموں، تصویروں میں دیکھا کرتی تھی. تھر پاکستان کا وہ علاقہ جہاں وقت شاید سولہویں صدی میں ٹھہر گیا ہے آگے ہی نہیں بڑھ پایا.
غربت کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے. وہاں کے لوگوں کا رہن سہن دیکھ کر میں نے ایک یہ بار یہ ضرور سوچا تھا کہ کاش یہ سب میں ڈراموں اور تصویروں میں دیکھتی. کچے مکان جو بارش آنے پر ٹوٹ جانے کا خوف ہو، بجلی کی جگہ موم بتی یا لال ٹائن، گیس کی جگہ لکڑیاں جلا کر کام کیا جاتا ہے. اور پانی کے لیے آج بھی وہی قدیم طریقہ جو برسوں خواتین کرتی رہیں. گو کہ وہ بسنے والے لوگ انتہائی بنیادی ضروریات سے محروم مگر زندہ ہے. تھر کی عورتیں بھی نہایت محنتی ہیں. شادی شدہ خواتین کندھوں تک چوڑیاں پہن کر رکھتی ہیں، اور غیر شادی شدہ کہنی تک، لیکن اتنی چوڑیاں پہن کر وہ سب کام کیسے کر لیتی ہیں میرے کئی بار یہ سوچنے پر بھی معمہ حل نہیں ہو سکا.
جانوروں میں سب سے خوبصورت مجھے وہاں کثرت سے پائی جانے والی سفید گائے لگی. گوری چٹی، اور بے تحاشا معصوم. پنجاب میں ویسی گائے میں نے کم ہی دیکھی ہے.
آوارہ کتے بھی وہاں کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں. ایک دوست نے بتایا کہ کسی زمانے میں چائنیز وہاں آتے تھے کتے کھانے کے لیے پکڑنے آیا کرتے تھے اور اپنی گاڑیاں بھر کے لے جایا کرتے. ان کے جانے کے بعد آوارہ کتے کم ہوجاتے. اب عرصہ ہوا نہیں آئے اسی لیے کتے زیادہ ہو گئے ہیں.ویسے اس وقت میرے دماغ میں آئیڈیا آیا تھا کہ کیوں نا کتے چائنا ایکسپورٹ کرنے کا بزنس شروع کیا جائے، آخر سی پیک ہمارے بھی کسی کام آنی چاہیے لیکن پھر یہ سوچ کر خیال ترک کر دیا کہ کہیں میرے اس ارادے کی خبر لاہوریوں کو نا ہو جائے. ورنہ چائنا جانے سے پہلے سی پیک لاہور سے ہی گزرتی ہے اور یہ کتے چین پہنچنے سے پہلے لاہوریوں کے پیٹ میں پہنچ جائیں گے۔
یوں تو میں اندرون سندھ صرف دو مرتبہ ہی گئی ہوں گو کہ پوری طرح سے وہاں کی ثقافت و کلچر کو دیکھنے پرکھنے کا موقع نہیں مل سکا لیکن ایک اور صوبے میں جانا ان کی زبان وہاں بسنے والے لوگوں کا رہن سہن، عادات و اطوار میرے جیسی بندی کے لیے ایک ایڈونچر سے کم نہیں. ایک دفعہ اس ایڈونچر کا آغاز گرین لائن ٹرین اسلام آباد سے حیدرآباد تک کیا تھا، اور دوسری بار قراقرم فیصل آباد سے حیدرآباد تک. ان دونوں ٹرینوں کے اوقات (ان لوگوں کے لیے جو ٹرین کا سفر کرنا چاہتے ہوں) بالکل ٹھیک ہیں.
تو بات ہو رہی تھی اندرون سندھ کی. حیدرآباد سے ٹرین نے ہم سے اجازت لی اور ہمیں سٹیشن پر چھوڑ کر اکیلی کراچی چلی گئی. استقبالیہ گاڑی تیار تھی. بھلا ہو فرحان بھائی کا. میں تو اندرون سندھ جانے والی کوچ کو دیکھ کر ہی الٹی کر دوں. لیکن فرحان بھائی زندہ باد. تو گاڑی میں عمر کوٹ تک کے سفر میں آپ کو کافی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے. بشرطیکہ کہ اتنا لمبا(ٹرین کا) سفر کرنے کے بعد آپ کے اندر کچھ اور بھی دیکھنے کی قوت موجود ہو. میں ذاتی طور پر لمبے سفر سے کتراتی ہوں. بلکہ یہ سوچ ہی مجھے وحشت زدہ کر دیتی ہے کہ مجھے اتنا لمبا سفر کرنا پڑے گا. بہرحال یہ خوشی کہ ایک صوبہ دیکھنے کو ملے گا مجھے اتنا لمبا سفر کروا کے لے گئی. حیدر آباد سے اندرون سندھ کی جانب رواں دواں سڑک کے اوپر جگہ جگہ آپ کو پیپلز پارٹی کے نئے نکور بینرز بورڈز نظر آئیں گے اور گاڑی کے نیچے سڑک باسی پرانی ٹوٹی پھوٹی.... معلوم ہوا کہ لوگ پیسے لے کر کھا لیتے ہیں سڑکیں روتی رہتی ہیں. دل سے شہباز شریف کے لیے دعا نکلی کہ چلو اور کچھ نہیں تو سڑکیں بنا دیں پنجاب کی. اگر وہ بھی نا بناتے تو ہم کیا کر سکتے تھے. راستے میں جاتے ہوئے آپ کو تھادل (مشروب) جگہ جگہ ملے گا. سنا ہے سخت گرمی میں اس کا کوئی نعم البدل نہیں. بھابھی (فرحان بھائی کی بیوی) بتاتی ہیں کہ یونیورسٹی کے زمانے میں سخت گرمی میں لوکل بس جب آ کر تھادل کی دکان کے پاس سٹاپ لیتی تو ہم تھادل پی کر فریش ہو جاتے تھے اور پھر دوبارہ بس میں بیٹھ کر سو جاتے. یہ انکشاف بھی ہوا سلانے کے لیے اس میں بھنگ ڈالی جاتی ہے. کتنا پرسکون کر دینے والا احساس ہے کہ سخت گرمی، لوکل بس، اس میں بھنگ والی تھادل پیتے ہی بندہ سو جائے. نیند تو ویسے بھی بڑی نعمت ہے سفر میں آجائے تو جلدی کٹ جاتا ہے. ارے ہاں یہ بتانا تو بھول ہی گئی کہ ہمارے یہاں پنجاب میں تھادل کو سردائی کہتے ہیں جب ہم چھوٹے تھے تو گرمیوں میں ہماری اماں بیڈ ٹی کی جگہ بیڈ سردائی گھوٹ کر پلایا کرتی تھیں.
اندرون سندھ کی اپنی کچھ روایات ہیں. مجموعی طور پر وہاں کے لوگ بہت محبت، عزت کرنے والے اور بے حد مہمان نواز ہیں. گھر میں آئے اجنبی کو بھی کھانا کھائے بغیر جانے نہیں دیتے.
سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ ابھی تک وہاں وڈیرا سسٹم موجود ہے. میرے خیال سے وڈیرا سسٹم ایک نہایت ہی ناکام سسٹم ہے ویسے تو پاکستان میں سب کے سب سسٹم ناکام ہی ہیں مگر وڈیروں کے ظلم و ستم کے چرچے آئے دن اخبارات کی سرخیوں کی نذر ہوتے ہیں مگر ان کے خلاف آواز اٹھانے والا کوئی نہیں.
اندرون سندھ میں کافی ہندو بھی رہتے ہیں اور سب سے اچھی بات یہ کہ (اکثر اوقات) مسلمان اور ہندو مل جل کر رہتے ہیں. مکرانیوں کی بھی خاصی تعداد موجود ہیں. مکرانی مرد یوں تو محنتی ہوتے ہیں لیکن کچھ کاہل اور نشئی بھی ہیں. ان کی بیویاں لوگوں کے گھروں میں کام کرتے ہیں پیسہ کماتی ہیں اور ایسے کاہل اور نشئی مرد شراب پیتے جوا کھیلتے ہیں. مکرانی بھی دو قسم کے ہیں. ایک کالے مکرانی اور ایک گورے مکرانی. گورے مکرانی یہ کہتے ہیں کہ کالے مکرانی ان کے نوکر ہیں جب کہ کالے مکرانیوں کا بھی گورے مکرانیوں کے بارے میں یہی خیال ہے. البتہ گورے مکرانی لوگوں کے گھروں کے کام نہیں کرتے اپنی ریڑھی لگا لیتے ہیں.
میرا ہمیشہ دل چاہتا تھا تھر دیکھوں. لیکن سوچنے میں ایک خواب سا لگتا کہ کون پاکستان کے آخری کونے میں لے کے جائے گا. مگر بدولت میرے شوہر نامدار تھر دیکھنے کا موقع مجھے بہت قریب سے ملا. وہ جو ڈراموں، تصویروں میں دیکھا کرتی تھی. تھر پاکستان کا وہ علاقہ جہاں وقت شاید سولہویں صدی میں ٹھہر گیا ہے آگے ہی نہیں بڑھ پایا.
غربت کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے. وہاں کے لوگوں کا رہن سہن دیکھ کر میں نے ایک یہ بار یہ ضرور سوچا تھا کہ کاش یہ سب میں ڈراموں اور تصویروں میں دیکھتی. کچے مکان جو بارش آنے پر ٹوٹ جانے کا خوف ہو، بجلی کی جگہ موم بتی یا لال ٹائن، گیس کی جگہ لکڑیاں جلا کر کام کیا جاتا ہے. اور پانی کے لیے آج بھی وہی قدیم طریقہ جو برسوں خواتین کرتی رہیں. گو کہ وہ بسنے والے لوگ انتہائی بنیادی ضروریات سے محروم مگر زندہ ہے. تھر کی عورتیں بھی نہایت محنتی ہیں. شادی شدہ خواتین کندھوں تک چوڑیاں پہن کر رکھتی ہیں، اور غیر شادی شدہ کہنی تک، لیکن اتنی چوڑیاں پہن کر وہ سب کام کیسے کر لیتی ہیں میرے کئی بار یہ سوچنے پر بھی معمہ حل نہیں ہو سکا.
جانوروں میں سب سے خوبصورت مجھے وہاں کثرت سے پائی جانے والی سفید گائے لگی. گوری چٹی، اور بے تحاشا معصوم. پنجاب میں ویسی گائے میں نے کم ہی دیکھی ہے.
آوارہ کتے بھی وہاں کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں. ایک دوست نے بتایا کہ کسی زمانے میں چائنیز وہاں آتے تھے کتے کھانے کے لیے پکڑنے آیا کرتے تھے اور اپنی گاڑیاں بھر کے لے جایا کرتے. ان کے جانے کے بعد آوارہ کتے کم ہوجاتے. اب عرصہ ہوا نہیں آئے اسی لیے کتے زیادہ ہو گئے ہیں.ویسے اس وقت میرے دماغ میں آئیڈیا آیا تھا کہ کیوں نا کتے چائنا ایکسپورٹ کرنے کا بزنس شروع کیا جائے، آخر سی پیک ہمارے بھی کسی کام آنی چاہیے لیکن پھر یہ سوچ کر خیال ترک کر دیا کہ کہیں میرے اس ارادے کی خبر لاہوریوں کو نا ہو جائے. ورنہ چائنا جانے سے پہلے سی پیک لاہور سے ہی گزرتی ہے اور یہ کتے چین پہنچنے سے پہلے لاہوریوں کے پیٹ میں پہنچ جائیں گے۔