اندھی غلامی۔

خواجہ طلحہ

محفلین
غیر جانبداری سے کہ ان صاحب کا کیا مذہب ہے،یا کہ یہ صاحب کس جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔میں اہل فورم سے یہ جاننا چاہ رہ ہوں کہ جو معلومات اس بیان میں دی جارہی ہیں ،کس حد تک درست ہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
میں متفق نہیں ہوں ۔ میانہ روی کا فقدان ہے ۔ ایک طبقے کو نشانہ بناکر اس کا اطلاق سارے معاشرے پر کیا جا رہا ہے ۔ ہر کسی کو بنیادی اسلامی تعلیمات کا نہ صرف علم ہے بلکہ اس کا مطالعہ بھی کرتے ہیں ۔ یہ ایک رویہ ہے ۔ جو اس چیز پر باور کرتا ہے کہ ڈاکٹر ، سائنسدان ، انجینئر اور استاد پیدا نہیں ہونے چاہیئےتا کہ مغرب کے مدمقابل نہ کھڑا ہونے کی سکت نہیں رہے ۔ ہر گھر سے ملا پیدا کرنے کی رسم کی پیروی ہے ۔ جو ایک نیا اسلام پیدا کرے ۔ رہی اسلامی تعلمیات اور پھر اس میں اس حد تک جانا کہ انسان عالم یا ملا بن جائے تو میں ابھی اپنی آنکھ سے ملک کے ایک مشہور عالم (جو میرے جاننے والے بھی ہیں مگر ان کا نام لینا نہیں چاہتا ) کے صاحبزادے جو خود بھی ایک عالم ہیں ۔ ان کے بارے میں سنا کہ وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں ۔ معلوم ہوا کہ موصوف کثرتِ شراب نوشی سے اس حال پر پہنچے ہیں ۔ لہذا اس نظریئے کا پرچار کرنا کہ او لیول اور دیگر سائنسی علوم چھوڑ کر صرف تصوف میں یا پھر ملائیت میں اپنی زندگی صرف کردو تو یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے ۔ جس سے مسلم امہ کو ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی سے دور رکھنا مقصود ہے اور کچھ بھی نہیں ۔
 

خواجہ طلحہ

محفلین
میرا مقصد کچھ سازشی یا غیر سازشی منصوبوں سے متعلق جاننا ہے۔جیسا کہ پارٹ 4 میں بیان کیا جارہا ہے۔
 

dxbgraphics

محفلین
واقعی سوچنے والی بات ہے کہ مغرب نے آزادی کے نام پر عورت کو گرل فرینڈ بنا کر اس کی زندگی برباد کر دی گئی ہے۔
 

dxbgraphics

محفلین
میں متفق نہیں ہوں ۔ میانہ روی کا فقدان ہے ۔ ایک طبقے کو نشانہ بناکر اس کا اطلاق سارے معاشرے پر کیا جا رہا ہے ۔ ہر کسی کو بنیادی اسلامی تعلیمات کا نہ صرف علم ہے بلکہ اس کا مطالعہ بھی کرتے ہیں ۔ یہ ایک رویہ ہے ۔ جو اس چیز پر باور کرتا ہے کہ ڈاکٹر ، سائنسدان ، انجینئر اور استاد پیدا نہیں ہونے چاہیئےتا کہ مغرب کے مدمقابل نہ کھڑا ہونے کی سکت نہیں رہے ۔ ہر گھر سے ملا پیدا کرنے کی رسم کی پیروی ہے ۔ جو ایک نیا اسلام پیدا کرے ۔ رہی اسلامی تعلمیات اور پھر اس میں اس حد تک جانا کہ انسان عالم یا ملا بن جائے تو میں ابھی اپنی آنکھ سے ملک کے ایک مشہور عالم (جو میرے جاننے والے بھی ہیں مگر ان کا نام لینا نہیں چاہتا ) کے صاحبزادے جو خود بھی ایک عالم ہیں ۔ ان کے بارے میں سنا کہ وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں ۔ معلوم ہوا کہ موصوف کثرتِ شراب نوشی سے اس حال پر پہنچے ہیں ۔ لہذا اس نظریئے کا پرچار کرنا کہ او لیول اور دیگر سائنسی علوم چھوڑ کر صرف تصوف میں یا پھر ملائیت میں اپنی زندگی صرف کردو تو یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے ۔ جس سے مسلم امہ کو ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی سے دور رکھنا مقصود ہے اور کچھ بھی نہیں ۔

ظفری بھائی۔ میرے خیال میں انہوں نے غلط نہیں کہا کہ پہلے انہیں بیٹا بیٹی بناو پھر جو مرضی بناو۔ یہاں تو کہیں بھی سائنس و ٹیکنالوجی سے دور رکھنے کی بات نہیں کی مولانا صاحب نے۔
 

خواجہ طلحہ

محفلین
ہر کسی کو بنیادی اسلامی تعلیمات کا نہ صرف علم ہے بلکہ اس کا مطالعہ بھی کرتے ہیں ۔
کالج کے زمانے میں ایک مرتبہ استاد محترم نےپوری کلاس سے غسل کے فرائض سے متعلق پوچھا۔ تقریبا سبھی ہم جماعت 16 سے 17 سال کی عمر میں تھے۔ 35 یا 40 لڑکوں میں سے صرف 2 لڑکے اس کے بارے میں بتا سکے، باقی سب لا علم تھے۔
 

ظفری

لائبریرین
ظفری بھائی۔ میرے خیال میں انہوں نے غلط نہیں کہا کہ پہلے انہیں بیٹا بیٹی بناو پھر جو مرضی بناو۔ یہاں تو کہیں بھی سائنس و ٹیکنالوجی سے دور رکھنے کی بات نہیں کی مولانا صاحب نے۔

آپ سمیت ایک دو سے اور درخواست ہے کہ میری پوری پوسٹ کو کم از کم ایک دفعہ پڑھنے کی زحمت گوارا کر لیا کریں ۔ یا پھر کسی اور سے میری باتیں سمجھنے کی کوشش کیا کریں ۔ اگر “ ایک طبقے “ والی بات سمجھ آگئی ہوتی تو آپ یہ پوسٹ نہیں لکھتے ۔
کوشش کیا کریں کہ میری بات سمجھا کریں ۔ ورنہ میری کسی پوسٹ سے اقتباس سے گریز کریں ۔ لکیر کا فقیر بن کر رہنا کوئی اچھی بات نہیں ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
کالج کے زمانے میں ایک مرتبہ استاد محترم نےپوری کلاس سے غسل کے فرائض سے متعلق پوچھا۔ تقریبا سبھی ہم جماعت 16 سے 17 سال کی عمر میں تھے۔ 35 یا 40 لڑکوں میں سے صرف 2 لڑکے اس کے بارے میں بتا سکے، باقی سب لا علم تھے۔

خواجہ صاحب ۔۔۔۔ آپ نے جس بات کا ذکر کیا ہے ۔ یہ معاشرے میں عام ہے ۔ لڑکوں کو گھر میں یہ نہیں بتایا جاتا کہ ان کو غسل یا استنجا کیسے کرنا ہے ۔ اس میں اخلاقی قدروں کے علاوہ کلچر اور روایتوں کا دخل ہے ۔ جس کی وجہ سے لڑکوں ( مردوں ) کو یہ سعادت عمرِ اوائل مٰیں نصیب ہو نہیں پاتی ۔ وقت اور مطالعہ سے مرد اس مقام پر پہنچتے ہیں کہ وہ طہارت کے تمام قاعدوں سے متعارف ہو سکیں ۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ معاملہ بلکل برعکس ہے ۔ اس میں مائیں اپنی بیٹوں کے بہت قریب ہوتیں ہیں ۔ ( جبکہ باپ اور بیٹے میں یہ فاصلہ بہت ہوتا ہے ) سو خواتین کو ہر بات کا علم کم عمری میں ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ مائیں ان کو ہر طرح سے بہت پہلے ہی گائیڈ کردیتیں ہیں ۔ جبکہ لڑکے ایک مخصوص عمر اور مطالعے سے اس منصب پر فائز ہوتے ہیں ۔
لہذا ایسا کہنا کہ غسل کے آداب صرف اس وجہ سے لڑکوں کو نہیں معلوم تھے کہ ان کے گھر میں اسلامی تربیت کا کوئی اہتمام نہیں تھا ۔ یہ بلکل غلط نظریہ ہے ۔ میرا خیال ہے کہ کوئی بھی یہاں آکر اس بات کی تائید نہیں کرے گا انہیں ان کے گھر والوں نے بچپن یا لڑکپن میں ہی غسل کے آداب سیکھا دیئے گئے تھے ۔
 

حسن جاوید

محفلین
(کالج کے زمانے میں ایک مرتبہ استاد محترم نےپوری کلاس سے غسل کے فرائض سے متعلق پوچھا۔ تقریبا سبھی ہم جماعت 16 سے 17 سال کی عمر میں تھے۔ 35 یا 40 لڑکوں میں سے صرف 2 لڑکے اس کے بارے میں بتا سکے، باقی سب لا علم تھے۔ )

اس چوک پر ۔۔
میں ایک دن کالج گیا ایک لڑکے کو روکا اس سے غسل کے فرائض اور طریقہ کے بارے میں پوچھا اس نے بتایا لیکن طریقہ چینج تھا۔۔
کچھ دیر بعد ایک اور کو روکا اس سے بھی پوچھا اس نے بھی بتایا لیکن اسکا پہلے والے سے بھی طریقہ چینج تھا۔۔۔
اسی طرح 2 اور سے پوچھا انہوں نے بھی طریقہ چینج بتایا۔۔
کسی کو بھی پاک ہونے کا صیحیح طریقہ نہیں آتا۔۔۔
کتنے افسوس کی بات ہے۔۔
 

ظفری

لائبریرین
یعنی آپ یہاں صرف یہ کہنے آئے ہیں کہ صرف آپ ہی کو “ صحیح غسل “ کا طریقہ معلوم تھا ۔
ماشاءاللہ ۔۔۔۔۔۔ جزاک اللہ ۔۔ سبحان اللہ ۔۔۔۔۔ اور کیا کہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!!!!!!!!!!!
 

حسن جاوید

محفلین
ظفری بھائی آپ ہر بات کا الٹا مطلب لیتے ہو۔۔
میرے کہنے کا مطلب تھا کہ کالج لائف میں کم از کم اساتزہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کو ایسی باتوں سے آگاہ کریں۔۔
کیونکہ بچے اس عمر میں استاد کی زیادہ سنتے ہیں۔
 

خواجہ طلحہ

محفلین
خواجہ صاحب ۔۔۔۔ آپ نے جس بات کا ذکر کیا ہے ۔ یہ معاشرے میں عام ہے ۔ لڑکوں کو گھر میں یہ نہیں بتایا جاتا کہ ان کو غسل یا استنجا کیسے کرنا ہے ۔ اس میں اخلاقی قدروں کے علاوہ کلچر اور روایتوں کا دخل ہے ۔ جس کی وجہ سے لڑکوں ( مردوں ) کو یہ سعادت عمرِ اوائل مٰیں نصیب ہو نہیں پاتی ۔ وقت اور مطالعہ سے مرد اس مقام پر پہنچتے ہیں کہ وہ طہارت کے تمام قاعدوں سے متعارف ہو سکیں ۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ معاملہ بلکل برعکس ہے ۔ اس میں مائیں اپنی بیٹوں کے بہت قریب ہوتیں ہیں ۔ ( جبکہ باپ اور بیٹے میں یہ فاصلہ بہت ہوتا ہے ) سو خواتین کو ہر بات کا علم کم عمری میں ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ مائیں ان کو ہر طرح سے بہت پہلے ہی گائیڈ کردیتیں ہیں ۔ جبکہ لڑکے ایک مخصوص عمر اور مطالعے سے اس منصب پر فائز ہوتے ہیں ۔
لہذا ایسا کہنا کہ غسل کے آداب صرف اس وجہ سے لڑکوں کو نہیں معلوم تھے کہ ان کے گھر میں اسلامی تربیت کا کوئی اہتمام نہیں تھا ۔ یہ بلکل غلط نظریہ ہے ۔ میرا خیال ہے کہ کوئی بھی یہاں آکر اس بات کی تائید نہیں کرے گا انہیں ان کے گھر والوں نے بچپن یا لڑکپن میں ہی غسل کے آداب سیکھا دیئے گئے تھے ۔

شکریہ پیارے ظفری بھائی آپ نے بہت وضاحت سے بات سمجھا دی۔غسل والے بات تو ایک مثال کے طورپر لکھی تھی۔
لیکن زندگی کے تجربے میں آیا اکثر لوگوں کو وضو کے فرائض بھی نہیں پتہ ہوتے ۔ اور بازاروں میں جا کر اگر ہم دیکھیں کتنے لوگ ہیں جن کو اسلامی کاروباری اصولوں کا علم ہے؟۔
۔ ہمارے زمانے میں بچوں کی دینی تعلیم قرآن کو ناظرہ پڑھانا ہوتا تھا۔اور ہم عربی سے نابلد اس گائیڈ کو کیسے سمجھ سکتے تھے۔آج کل کا علم نہیں ۔
دین اسلام زندگی گزارنے کی ایک مکمل گائیڈ ہے۔جس کی بنیادی تعلیم بھی ہم بچوں کی تربیت میں شامل نہیں تھی۔ یہ بات ایک تلخ حقیقت ہے۔ اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
معافی کا طلبگار ہوں کہ بات کسی اور طرف چل پڑی ہے۔ ورنہ اس تھریڈ سے میر ا مقصد مٖغرب کے ان نظریات کی سچائی جاننا تھا جو کہ اس بیان میں صاحب بیان نے ذکر کیے ہیں۔
اور سبھی پیارے دوستوں سے دراخواست ہےکہ پیار اور تحمل سے میرے سوال کا دلیل کے ساتھ جواب دیں ۔ اور مقابلے کی فضا نہ بنائیں۔ اس سے ہم میں سے کسی کو فائدہ نہیں ہونا ہے۔ مقابلے یا زچ ہونے سے وہ احباب جو اہل علم ہوں اس تھریڈ میں نہیں آئیں گے۔ اور مجبورا دھاگہ مقفل کردیا جاتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
ناروے میں سٹا ہے، چوری ہے، جوا ہے، آبادی کم ہے، سود ہے۔۔۔ اسلئے غریب کم ہیں اور کم از کم بھوک کا مسئلہ نہیں ہے۔ رہائش اور سماجی مسائل ہزاروں ہیں :)
 

arifkarim

معطل
میں متفق نہیں ہوں ۔ میانہ روی کا فقدان ہے ۔ ایک طبقے کو نشانہ بناکر اس کا اطلاق سارے معاشرے پر کیا جا رہا ہے ۔ ہر کسی کو بنیادی اسلامی تعلیمات کا نہ صرف علم ہے بلکہ اس کا مطالعہ بھی کرتے ہیں ۔ یہ ایک رویہ ہے ۔ جو اس چیز پر باور کرتا ہے کہ ڈاکٹر ، سائنسدان ، انجینئر اور استاد پیدا نہیں ہونے چاہیئےتا کہ مغرب کے مدمقابل نہ کھڑا ہونے کی سکت نہیں رہے ۔ ہر گھر سے ملا پیدا کرنے کی رسم کی پیروی ہے ۔ جو ایک نیا اسلام پیدا کرے ۔ رہی اسلامی تعلمیات اور پھر اس میں اس حد تک جانا کہ انسان عالم یا ملا بن جائے تو میں ابھی اپنی آنکھ سے ملک کے ایک مشہور عالم (جو میرے جاننے والے بھی ہیں مگر ان کا نام لینا نہیں چاہتا ) کے صاحبزادے جو خود بھی ایک عالم ہیں ۔ ان کے بارے میں سنا کہ وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں ۔ معلوم ہوا کہ موصوف کثرتِ شراب نوشی سے اس حال پر پہنچے ہیں ۔ لہذا اس نظریئے کا پرچار کرنا کہ او لیول اور دیگر سائنسی علوم چھوڑ کر صرف تصوف میں یا پھر ملائیت میں اپنی زندگی صرف کردو تو یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے ۔ جس سے مسلم امہ کو ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی سے دور رکھنا مقصود ہے اور کچھ بھی نہیں ۔

آپکی اس تحریر کا اس ویڈیو میں موجود دلائل سےکیا تعلق ہے؟
 

ظفری

لائبریرین
ظفری بھائی آپ ہر بات کا الٹا مطلب لیتے ہو۔۔
میرے کہنے کا مطلب تھا کہ کالج لائف میں کم از کم اساتزہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کو ایسی باتوں سے آگاہ کریں۔۔
کیونکہ بچے اس عمر میں استاد کی زیادہ سنتے ہیں۔

جس طرح ہر ادارے کا ایک اپنا طریقہ کار ہوتا ہے ۔ اسی طرح ہر استاد کا بھی اپنا دائرہ کار ہوتا ہے ۔ اب ریاضی کے استاد سے آپ یہ تو امید نہیں کرسکتے کہ وہ آپ کے غسل کے جامع اصول متعارف کروائے ۔ بلکل اسی طرح اسلامیات کے استاد سے بھی آپ یہ امید نہیں کرسکتے کہ وہ آپ کو نصاب سے باہر کی چیزیں کی بابت بتائے ۔ یہ چیزیں انسان بتدریج سیکھتا ہے ۔ یہ مرحلہ ایک مخصوص عمر میں ایک خاص طبقے تک پہنچنے کے بعد وقوع پذیر ہوتا ہے ۔ اپنے تئیں ہر انسان اپنے آُ کو پاک رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس میں عام غسل بھی ہے ۔
میرا جھگڑا صرف یہ ہے کہ آپ لوگ ایسے ایسے موضوعات کو تختہِ مشق بناتے ہو ۔ جن سے کسی قسم کی جوہری تبدیلیاں ناگزیر ہیں ۔ اور جن موضوعات پر غورِو فکرکی ضرورت ہے ۔ وہ آنے والی نسلوں کے لیئے چھوڑ دیتے ہو ۔ جیسا کہ ہمارے بزرگوں نے ہمارے لیئے چھوڑ دیا تھا ۔ امید ہے میرا نکتہِ اعتراض سمجھ آگیا ہوگا ۔
 
Top