خواجہ طلحہ
محفلین
غیر جانبداری سے کہ ان صاحب کا کیا مذہب ہے،یا کہ یہ صاحب کس جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔میں اہل فورم سے یہ جاننا چاہ رہ ہوں کہ جو معلومات اس بیان میں دی جارہی ہیں ،کس حد تک درست ہیں۔
میں متفق نہیں ہوں ۔ میانہ روی کا فقدان ہے ۔ ایک طبقے کو نشانہ بناکر اس کا اطلاق سارے معاشرے پر کیا جا رہا ہے ۔ ہر کسی کو بنیادی اسلامی تعلیمات کا نہ صرف علم ہے بلکہ اس کا مطالعہ بھی کرتے ہیں ۔ یہ ایک رویہ ہے ۔ جو اس چیز پر باور کرتا ہے کہ ڈاکٹر ، سائنسدان ، انجینئر اور استاد پیدا نہیں ہونے چاہیئےتا کہ مغرب کے مدمقابل نہ کھڑا ہونے کی سکت نہیں رہے ۔ ہر گھر سے ملا پیدا کرنے کی رسم کی پیروی ہے ۔ جو ایک نیا اسلام پیدا کرے ۔ رہی اسلامی تعلمیات اور پھر اس میں اس حد تک جانا کہ انسان عالم یا ملا بن جائے تو میں ابھی اپنی آنکھ سے ملک کے ایک مشہور عالم (جو میرے جاننے والے بھی ہیں مگر ان کا نام لینا نہیں چاہتا ) کے صاحبزادے جو خود بھی ایک عالم ہیں ۔ ان کے بارے میں سنا کہ وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں ۔ معلوم ہوا کہ موصوف کثرتِ شراب نوشی سے اس حال پر پہنچے ہیں ۔ لہذا اس نظریئے کا پرچار کرنا کہ او لیول اور دیگر سائنسی علوم چھوڑ کر صرف تصوف میں یا پھر ملائیت میں اپنی زندگی صرف کردو تو یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے ۔ جس سے مسلم امہ کو ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی سے دور رکھنا مقصود ہے اور کچھ بھی نہیں ۔
کالج کے زمانے میں ایک مرتبہ استاد محترم نےپوری کلاس سے غسل کے فرائض سے متعلق پوچھا۔ تقریبا سبھی ہم جماعت 16 سے 17 سال کی عمر میں تھے۔ 35 یا 40 لڑکوں میں سے صرف 2 لڑکے اس کے بارے میں بتا سکے، باقی سب لا علم تھے۔ہر کسی کو بنیادی اسلامی تعلیمات کا نہ صرف علم ہے بلکہ اس کا مطالعہ بھی کرتے ہیں ۔
ظفری بھائی۔ میرے خیال میں انہوں نے غلط نہیں کہا کہ پہلے انہیں بیٹا بیٹی بناو پھر جو مرضی بناو۔ یہاں تو کہیں بھی سائنس و ٹیکنالوجی سے دور رکھنے کی بات نہیں کی مولانا صاحب نے۔
بہت غلط۔۔۔۔۔
اسی لیے دنیا عزاب کا شکار ہے۔
کالج کے زمانے میں ایک مرتبہ استاد محترم نےپوری کلاس سے غسل کے فرائض سے متعلق پوچھا۔ تقریبا سبھی ہم جماعت 16 سے 17 سال کی عمر میں تھے۔ 35 یا 40 لڑکوں میں سے صرف 2 لڑکے اس کے بارے میں بتا سکے، باقی سب لا علم تھے۔
خواجہ صاحب ۔۔۔۔ آپ نے جس بات کا ذکر کیا ہے ۔ یہ معاشرے میں عام ہے ۔ لڑکوں کو گھر میں یہ نہیں بتایا جاتا کہ ان کو غسل یا استنجا کیسے کرنا ہے ۔ اس میں اخلاقی قدروں کے علاوہ کلچر اور روایتوں کا دخل ہے ۔ جس کی وجہ سے لڑکوں ( مردوں ) کو یہ سعادت عمرِ اوائل مٰیں نصیب ہو نہیں پاتی ۔ وقت اور مطالعہ سے مرد اس مقام پر پہنچتے ہیں کہ وہ طہارت کے تمام قاعدوں سے متعارف ہو سکیں ۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ معاملہ بلکل برعکس ہے ۔ اس میں مائیں اپنی بیٹوں کے بہت قریب ہوتیں ہیں ۔ ( جبکہ باپ اور بیٹے میں یہ فاصلہ بہت ہوتا ہے ) سو خواتین کو ہر بات کا علم کم عمری میں ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ مائیں ان کو ہر طرح سے بہت پہلے ہی گائیڈ کردیتیں ہیں ۔ جبکہ لڑکے ایک مخصوص عمر اور مطالعے سے اس منصب پر فائز ہوتے ہیں ۔
لہذا ایسا کہنا کہ غسل کے آداب صرف اس وجہ سے لڑکوں کو نہیں معلوم تھے کہ ان کے گھر میں اسلامی تربیت کا کوئی اہتمام نہیں تھا ۔ یہ بلکل غلط نظریہ ہے ۔ میرا خیال ہے کہ کوئی بھی یہاں آکر اس بات کی تائید نہیں کرے گا انہیں ان کے گھر والوں نے بچپن یا لڑکپن میں ہی غسل کے آداب سیکھا دیئے گئے تھے ۔
میں متفق نہیں ہوں ۔ میانہ روی کا فقدان ہے ۔ ایک طبقے کو نشانہ بناکر اس کا اطلاق سارے معاشرے پر کیا جا رہا ہے ۔ ہر کسی کو بنیادی اسلامی تعلیمات کا نہ صرف علم ہے بلکہ اس کا مطالعہ بھی کرتے ہیں ۔ یہ ایک رویہ ہے ۔ جو اس چیز پر باور کرتا ہے کہ ڈاکٹر ، سائنسدان ، انجینئر اور استاد پیدا نہیں ہونے چاہیئےتا کہ مغرب کے مدمقابل نہ کھڑا ہونے کی سکت نہیں رہے ۔ ہر گھر سے ملا پیدا کرنے کی رسم کی پیروی ہے ۔ جو ایک نیا اسلام پیدا کرے ۔ رہی اسلامی تعلمیات اور پھر اس میں اس حد تک جانا کہ انسان عالم یا ملا بن جائے تو میں ابھی اپنی آنکھ سے ملک کے ایک مشہور عالم (جو میرے جاننے والے بھی ہیں مگر ان کا نام لینا نہیں چاہتا ) کے صاحبزادے جو خود بھی ایک عالم ہیں ۔ ان کے بارے میں سنا کہ وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں ۔ معلوم ہوا کہ موصوف کثرتِ شراب نوشی سے اس حال پر پہنچے ہیں ۔ لہذا اس نظریئے کا پرچار کرنا کہ او لیول اور دیگر سائنسی علوم چھوڑ کر صرف تصوف میں یا پھر ملائیت میں اپنی زندگی صرف کردو تو یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے ۔ جس سے مسلم امہ کو ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی سے دور رکھنا مقصود ہے اور کچھ بھی نہیں ۔
ظفری بھائی آپ ہر بات کا الٹا مطلب لیتے ہو۔۔
میرے کہنے کا مطلب تھا کہ کالج لائف میں کم از کم اساتزہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کو ایسی باتوں سے آگاہ کریں۔۔
کیونکہ بچے اس عمر میں استاد کی زیادہ سنتے ہیں۔