جاسم محمد
محفلین
انسانی بافتوں اور رگوں کے ساتھ دنیا کا پہلا تھری ڈی پرنٹڈ دل تیار
ویب ڈیسک منگل 16 اپريل 2019
اسرائیلی ماہرین نے چیری کی جسامت کا ایک ننھا منا دل بنایا ہے جس کے اندر انسانی بافتیں، خلیات اور رگوں کے ساتھ ساتھ خانے اور والو بھی بنائے گئے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
تل ابيب: اسرائیلی سائنسدانوں نے تھری ڈی پرنٹر سے چھاپا ہوا ایک چھوٹا سا دل بنایا ہے جس میں انسانی بافتیں (ٹشوز) اور خون کی رگیں موجود ہیں۔ اسے ماہرین نے ایک اہم کارنامہ قرار دیا ہے۔
اس کارنامے کے باوجود انسان تو کیا جانوروں میں بھی تھری ڈی پرنٹڈ دل کی منزل ابھی بہت دور ہے۔ تل ابیب یونیورسٹی کے ماہرین نے جو دل بنایا ہے وہ انسانی تو ضرور ہے لیکن اس کی جسامت ایک چھوٹے خرگوش کے دل جیسی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ دل کے اہم حصے اور رگیں بھی پرنٹر سے چھاپ کر متاثرہ مریضوں میں منتقل کی جاسکیں گی۔
پروفیسر تل دویر نے بتایا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ پورے دل کے خلیات(سیلز)، خون کی رگیں، والو اور خانے تیار کئے گئے ہیں۔ اس سے قبل ماضی میں صرف دل کی ساختیں بنائی گئی تھیں اور ان کی اندرونی باریکیوں کو تیار نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن مریضوں کے لیے اس ٹیکنالوجی کی عملی تعبیر ابھی بہت دور ہے اور اس پیشرفت کو تو پہلا قدم کہا جاسکتا ہے۔
پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ دل کی جسامت چیری جتنی ہے اور اس کی تفصیلات ایڈوانسڈ سائنس نامی جریدے میں شائع ہوئی ہیں۔ اس دل کے خلیات سکڑتو سکتےہیں لیکن پمپ نہیں کرسکتے تاہم سائنسدانوں نے کہا کہ ایک سال میں وہ جانوروں میں ان کی منتقلی کے قابل ہوجائیں گے۔
ڈاکٹر تل دویر نے بتایا کہ اگلے دس برس میں دنیا کے جدید ترین ہسپتالوں میں انسانی اعضا پرنٹر سے چھاپے جائیں گے اور انہیں منتقل بھی کیا جاسکے گا۔ ان کے مطابق دل کی بیماریاں دنیا بھر میں عام ہیں اور سب سے زیادہ ہلاکتوں کی وجہ بن رہی ہیں۔ ایک تو دل کے عطیات کم ہیں اور دوم منتقلی کے بعد جسم انہیں مسترد کردیتا ہے ۔ اسی وجہ سے انسانی چکنائیوں سے خاص سیاہی بنائی گئی ہے جس سے تھری ڈی قلب بنایا گیا ہے۔
ویب ڈیسک منگل 16 اپريل 2019
اسرائیلی ماہرین نے چیری کی جسامت کا ایک ننھا منا دل بنایا ہے جس کے اندر انسانی بافتیں، خلیات اور رگوں کے ساتھ ساتھ خانے اور والو بھی بنائے گئے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
تل ابيب: اسرائیلی سائنسدانوں نے تھری ڈی پرنٹر سے چھاپا ہوا ایک چھوٹا سا دل بنایا ہے جس میں انسانی بافتیں (ٹشوز) اور خون کی رگیں موجود ہیں۔ اسے ماہرین نے ایک اہم کارنامہ قرار دیا ہے۔
اس کارنامے کے باوجود انسان تو کیا جانوروں میں بھی تھری ڈی پرنٹڈ دل کی منزل ابھی بہت دور ہے۔ تل ابیب یونیورسٹی کے ماہرین نے جو دل بنایا ہے وہ انسانی تو ضرور ہے لیکن اس کی جسامت ایک چھوٹے خرگوش کے دل جیسی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ دل کے اہم حصے اور رگیں بھی پرنٹر سے چھاپ کر متاثرہ مریضوں میں منتقل کی جاسکیں گی۔
پروفیسر تل دویر نے بتایا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ پورے دل کے خلیات(سیلز)، خون کی رگیں، والو اور خانے تیار کئے گئے ہیں۔ اس سے قبل ماضی میں صرف دل کی ساختیں بنائی گئی تھیں اور ان کی اندرونی باریکیوں کو تیار نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن مریضوں کے لیے اس ٹیکنالوجی کی عملی تعبیر ابھی بہت دور ہے اور اس پیشرفت کو تو پہلا قدم کہا جاسکتا ہے۔
پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ دل کی جسامت چیری جتنی ہے اور اس کی تفصیلات ایڈوانسڈ سائنس نامی جریدے میں شائع ہوئی ہیں۔ اس دل کے خلیات سکڑتو سکتےہیں لیکن پمپ نہیں کرسکتے تاہم سائنسدانوں نے کہا کہ ایک سال میں وہ جانوروں میں ان کی منتقلی کے قابل ہوجائیں گے۔
ڈاکٹر تل دویر نے بتایا کہ اگلے دس برس میں دنیا کے جدید ترین ہسپتالوں میں انسانی اعضا پرنٹر سے چھاپے جائیں گے اور انہیں منتقل بھی کیا جاسکے گا۔ ان کے مطابق دل کی بیماریاں دنیا بھر میں عام ہیں اور سب سے زیادہ ہلاکتوں کی وجہ بن رہی ہیں۔ ایک تو دل کے عطیات کم ہیں اور دوم منتقلی کے بعد جسم انہیں مسترد کردیتا ہے ۔ اسی وجہ سے انسانی چکنائیوں سے خاص سیاہی بنائی گئی ہے جس سے تھری ڈی قلب بنایا گیا ہے۔