ہمارے بہت سے مسلمان بھائی بہن ستاروں کے اثر کے قائل ہیں۔ ''آپ کا یہ ہفتہ کیسے گزرے گا'' جیسے سلسلے اخبارات میں مستقل حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک نجی ٹیلی وژن نے ملکی مستقبل کے بارے میں نجومیوں کی رائے کو خبروں کا حصہ بنا دیا۔ میں اس بارے میں وارد آیات اور احادیث بغیر کسی تبصرے کے پیش کر رہا ہوں۔ قرآن کریم کی آیت کا حوالہ دیتے وقت سورت کا نام اور آیت نمبر لکھی گئی ہے۔ جبکہ حدیث کے حوالہ جات میں حدیث نمبر کے ساتھ ساتھ ''کتاب'' اور ''باب'' بھی درج کر دیےگیے ہیں۔ علاوہ ازیں میں نے صرف صحیح البخاری اور صحیح المسلم کی روایات لکھی ہیں تاکہ صحیحیا ضعیف حدیث کا سوال ہی پیدا نہ ہو۔ ان دونوں کتابوں کی احادیث کے صحیح ہونے پر علماء کا اتفاق ہے۔
مستقبل کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔
قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ (سورۃ النمل۔65)
''فرمادیجئے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں ان میں سے کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا سوائے اللہ کے''
اور فرمایا:
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ (الانعام۔59)
''اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بحروبر میں جو کچھ ہے وہ اس سے واقف ہے۔ درخت سے گرنے والا کوئی پتہ ایسا نہیں جس کا اسے علم نہ ہو۔ زمین کے تاریک پردوں میں کوئی ایسا دانہ نہیں جس سے وہ باخبر نہ ہو۔ خشک و تر سب ایک کھلی کتاب میں لکھا ہوا ہے۔''
وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (لقمان۔ 34)
''کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کچھ کرے گا، نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ وہ کس زمین پر مرے گا۔ اللہ تعالیٰ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔''
ستاروں میں تاثیر ماننا کفر ہے
عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللّهِ صَلاَةَ الصُّبْحِ بِالْحُدَيْبِيَةِ فِي إِثْرِ السَّمَاءِ كَانَتْ مِنَ اللَّيْلِ. فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ: «هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟» قَالُوا: الله وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «قَالَ: أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ. فَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِفَضْلِ الله وَرَحْمَتِهِ، فَذٰلِكَ مُؤْمِنٌ بِي كَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ. وَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا، فَذٰلِكَ كَافِرٌ بِي مُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ (صحیح المسلم حدیث نمبر193۔ کتاب الایمان باب کفر من قال مطرنا بالنوء)
''زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر ہمیں صبح کی نماز پڑھائی جبکہ رات کو بارش ہو چکی تھی۔ جب انہوں نے سلام پھیرا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے:
''کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟''
صحابہ نے کہا '' اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔''
فرمایا:
''(اللہ تعالیٰ نے) ارشاد فرمایا ہے کہ میرے بندوں میں سے کچھ مومن ہوگئے ہیں اور کچھ کافر۔ جس نے کہا کہ ہم پر اللہ کے فضل اور رحمت سے بارش ہوئی ہے وہ مجھ پر ایمان لایا اور جس نے کہا کہ یہ بارش فلاں فلاں برج کے اثر سے ہوئی ہے اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور ستاروں پر ایمان لایا۔''
عربی میں ''بنوء'' کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اردو میں اس کے لیے مختلف الفاظ مستعمل ہیں جیسے ''نچھتر، برج، طالع، نصیبہ، منزل'' وغیرہ۔ اصطلاح میں ان سے مراد وہ ستارے ہیں جن کے آثار و خواص لوگوں نے مقرر کر رکھے ہیں اور ان کو دیکھ کر نحوست یا خوش بختی کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔
''أَرْبَعٌ فِي أُمَّتِي مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ لا يَتْرُكُونَهُنَّ: الْفَخْرُ فِي الأَحْسَابِ، وَالطَّعْنُ فِي الأَنْسَابِ، وَالاسْتِسْقَاءُ بِالنُّجُومِ، وَالنِّيَاحَةُ''۔ (صحیح المسلم حدیث نمبر2114۔ کتاب الجنائز،باب التشديد في النياحة)
''میری امت میں جاہلیت کے چار کام ایسے ہیں جنہیں وہ نہیں چھوڑیں گے، حسب و نسب پر فخر کرنا، دوسروں کے نسب و خاندان پر طعنہ زنی کرنا، تاروں کے اثر سے بارش ہونے کا عقیدہ رکھنا اور کسی مرنے والے پر بین کرنا۔''
صحیح البخاری میں صحابی رسول قتادہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے۔ کہ '' اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کو تین چیزوں کے لیے بنایا ہے:
آسمان کی زینت کے لیے
شیاطین کو مارنے اور بھگانے کے لیے
بحر و بر میں راستہ معلوم کرنے کے لیے
جو شخص ان کے علاوہ ان میں کچھ اور سمجھتا ہے اس نے غلطی کی اور (ہر بھلائی سے ) اپنا حصہ برباد کر لیا۔''
نجومییوں سے کچھ پوچھنے کا گناہِ عظیم
مَنْ أَتَىٰ عَرَّافاً فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلاَةُ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً (صحیح المسلم حدیث نمبر 5773۔ کتاب السلام، باب تحريم الكهانة وإتيان الكهان)
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
'' جو (مستقبل کی باتیں) بتانے والے کسی (نجومی) کے پاس آیا اور اس سے کچھ پوچھا تو اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہو گی۔''
حدیث میں اصل لفظ 'عراف'' استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان کی مستند لغت ''لسان العرب'' میں اس کا مطلب ''ال۔مُنَ۔جِّم'' بتایا گیا ہے یعنی ''نجومی یا ستاروں کے ذریعے مستقبل کا حال بتانے والا۔''[/size]
نجومیوں کی کچھ باتیں سچ کیوں ہوتی ہیں[/color
قَالَتْ عَائِشَةُ : سَأَلَ أُنَاسٌ رَسُولَ اللّهِ عَنِ الْكُهَّانِ؟ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللّهِ : «لَيْسُوا بِشَيْءٍ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللّهِ فَإِنَّهُمْ يُحَدِّثُونَ أَحْيَاناً الشَّيْءَ يَكُونُ حَقًّا. قَالَ رَسُولُ اللّهِ : «تِلْكَ الْكَلِمَةُ مِنَ الْجِنِّ يَخْطَفُهَا الْجِنِّي. فَيَقُرُّهَا فِي أُذُنِ وَلِيِّهِ قَرَّ الدَّجَاجَة، فَيَخْلِطُونَ فِيهَا أَكْثَرَ مِنْ مِائَةِ كَذْبَةٍ (مسلم حدیث نمبر 5769۔ کتاب السلام باب تحریم الکھانۃ و اتیان الکھان)
اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کاہنوں(نجومیوں) کے بارے میں پوچھا؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ''وہ کچھ نہیں ہیں'' (یعنی ان کی کوئی حیثیت نہیں اور کسی اعتبار کے لائق نہیں ہیں)۔ لوگوں نے کہا '' اے اللہ رسول! ان کی بعض باتیں سچ نکلتی ہیں (اس کی کی وجہ ہے)''۔ انہوں نے فرمایا کہ ''وہ سچی بات وہی ہے جس کو کوئی جن (فرشتوں کی بات چیت کے دوران) اُڑا لیتا ہے اور اپنے دوست کے کان میں ڈال دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہ اس میں اپنی طرف سے اور سو جھوٹ ملاتے ہیں (اور لوگوں سے کہتے ہیں)۔ہمیں چاہیے کہ اپنے عقیدے قرآن و حدیث کے مطابق رکھیں اور ہر قسم کی گمراہیوں سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
مستقبل کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔
قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ (سورۃ النمل۔65)
''فرمادیجئے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں ان میں سے کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا سوائے اللہ کے''
اور فرمایا:
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ (الانعام۔59)
''اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بحروبر میں جو کچھ ہے وہ اس سے واقف ہے۔ درخت سے گرنے والا کوئی پتہ ایسا نہیں جس کا اسے علم نہ ہو۔ زمین کے تاریک پردوں میں کوئی ایسا دانہ نہیں جس سے وہ باخبر نہ ہو۔ خشک و تر سب ایک کھلی کتاب میں لکھا ہوا ہے۔''
وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (لقمان۔ 34)
''کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کچھ کرے گا، نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ وہ کس زمین پر مرے گا۔ اللہ تعالیٰ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔''
ستاروں میں تاثیر ماننا کفر ہے
عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللّهِ صَلاَةَ الصُّبْحِ بِالْحُدَيْبِيَةِ فِي إِثْرِ السَّمَاءِ كَانَتْ مِنَ اللَّيْلِ. فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ: «هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟» قَالُوا: الله وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «قَالَ: أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ. فَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِفَضْلِ الله وَرَحْمَتِهِ، فَذٰلِكَ مُؤْمِنٌ بِي كَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ. وَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا، فَذٰلِكَ كَافِرٌ بِي مُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ (صحیح المسلم حدیث نمبر193۔ کتاب الایمان باب کفر من قال مطرنا بالنوء)
''زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر ہمیں صبح کی نماز پڑھائی جبکہ رات کو بارش ہو چکی تھی۔ جب انہوں نے سلام پھیرا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے:
''کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟''
صحابہ نے کہا '' اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔''
فرمایا:
''(اللہ تعالیٰ نے) ارشاد فرمایا ہے کہ میرے بندوں میں سے کچھ مومن ہوگئے ہیں اور کچھ کافر۔ جس نے کہا کہ ہم پر اللہ کے فضل اور رحمت سے بارش ہوئی ہے وہ مجھ پر ایمان لایا اور جس نے کہا کہ یہ بارش فلاں فلاں برج کے اثر سے ہوئی ہے اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور ستاروں پر ایمان لایا۔''
عربی میں ''بنوء'' کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اردو میں اس کے لیے مختلف الفاظ مستعمل ہیں جیسے ''نچھتر، برج، طالع، نصیبہ، منزل'' وغیرہ۔ اصطلاح میں ان سے مراد وہ ستارے ہیں جن کے آثار و خواص لوگوں نے مقرر کر رکھے ہیں اور ان کو دیکھ کر نحوست یا خوش بختی کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔
''أَرْبَعٌ فِي أُمَّتِي مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ لا يَتْرُكُونَهُنَّ: الْفَخْرُ فِي الأَحْسَابِ، وَالطَّعْنُ فِي الأَنْسَابِ، وَالاسْتِسْقَاءُ بِالنُّجُومِ، وَالنِّيَاحَةُ''۔ (صحیح المسلم حدیث نمبر2114۔ کتاب الجنائز،باب التشديد في النياحة)
''میری امت میں جاہلیت کے چار کام ایسے ہیں جنہیں وہ نہیں چھوڑیں گے، حسب و نسب پر فخر کرنا، دوسروں کے نسب و خاندان پر طعنہ زنی کرنا، تاروں کے اثر سے بارش ہونے کا عقیدہ رکھنا اور کسی مرنے والے پر بین کرنا۔''
صحیح البخاری میں صحابی رسول قتادہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے۔ کہ '' اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کو تین چیزوں کے لیے بنایا ہے:
آسمان کی زینت کے لیے
شیاطین کو مارنے اور بھگانے کے لیے
بحر و بر میں راستہ معلوم کرنے کے لیے
جو شخص ان کے علاوہ ان میں کچھ اور سمجھتا ہے اس نے غلطی کی اور (ہر بھلائی سے ) اپنا حصہ برباد کر لیا۔''
نجومییوں سے کچھ پوچھنے کا گناہِ عظیم
مَنْ أَتَىٰ عَرَّافاً فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلاَةُ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً (صحیح المسلم حدیث نمبر 5773۔ کتاب السلام، باب تحريم الكهانة وإتيان الكهان)
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
'' جو (مستقبل کی باتیں) بتانے والے کسی (نجومی) کے پاس آیا اور اس سے کچھ پوچھا تو اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہو گی۔''
حدیث میں اصل لفظ 'عراف'' استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان کی مستند لغت ''لسان العرب'' میں اس کا مطلب ''ال۔مُنَ۔جِّم'' بتایا گیا ہے یعنی ''نجومی یا ستاروں کے ذریعے مستقبل کا حال بتانے والا۔''[/size]
نجومیوں کی کچھ باتیں سچ کیوں ہوتی ہیں[/color
قَالَتْ عَائِشَةُ : سَأَلَ أُنَاسٌ رَسُولَ اللّهِ عَنِ الْكُهَّانِ؟ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللّهِ : «لَيْسُوا بِشَيْءٍ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللّهِ فَإِنَّهُمْ يُحَدِّثُونَ أَحْيَاناً الشَّيْءَ يَكُونُ حَقًّا. قَالَ رَسُولُ اللّهِ : «تِلْكَ الْكَلِمَةُ مِنَ الْجِنِّ يَخْطَفُهَا الْجِنِّي. فَيَقُرُّهَا فِي أُذُنِ وَلِيِّهِ قَرَّ الدَّجَاجَة، فَيَخْلِطُونَ فِيهَا أَكْثَرَ مِنْ مِائَةِ كَذْبَةٍ (مسلم حدیث نمبر 5769۔ کتاب السلام باب تحریم الکھانۃ و اتیان الکھان)
اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کاہنوں(نجومیوں) کے بارے میں پوچھا؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ''وہ کچھ نہیں ہیں'' (یعنی ان کی کوئی حیثیت نہیں اور کسی اعتبار کے لائق نہیں ہیں)۔ لوگوں نے کہا '' اے اللہ رسول! ان کی بعض باتیں سچ نکلتی ہیں (اس کی کی وجہ ہے)''۔ انہوں نے فرمایا کہ ''وہ سچی بات وہی ہے جس کو کوئی جن (فرشتوں کی بات چیت کے دوران) اُڑا لیتا ہے اور اپنے دوست کے کان میں ڈال دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہ اس میں اپنی طرف سے اور سو جھوٹ ملاتے ہیں (اور لوگوں سے کہتے ہیں)۔ہمیں چاہیے کہ اپنے عقیدے قرآن و حدیث کے مطابق رکھیں اور ہر قسم کی گمراہیوں سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے (آمین)