انسان خلاء حقیقی یا مفروضہ

مستشنیات ہر اصول اور قانون میں ہوتی ہیں ماسوائے الوہی قوانین کے جسے مالک کون و مکان اپنی صناعی میں اپنی مرضی کے مطابق استشناء عطا فرما دے۔ رشتے ۔ تعلق ۔ ناطے ۔ زندگی ۔ خلا ایسا موضوع ہے جس پر کتابیں سیاہ کی جا چکی ہیں۔ عشاق اپنے محبوب کی مدحت میں دیوان پر دیوان کالے کر گئے ۔ ماؤں کے لیئے بچے کی یاد آخری سہارا بچی۔ بیویوں کے لیئے انکے سرتاج کا دنیا سے جانا قیامت برپا کر گیا۔ بہنوں کو بھائی کی یاد نے دیوانہ کر دیا۔ یہ سب ایک حد اور ایک وقت تک اثر انداز ہوتے ہیں یقینا اور یہ خلا وقتی ہوتا ہے۔ مشہور ہے کہ مرنے والے پر صبر آجاتا ہے گم شدہ پر کوئی کیسے صبر کرے۔
یقینا یہ تمام رشتے ایسے ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں لیکن ذرا غور کریں تو گھومتے تو یہ سب آپ کے ہی گرد ہیں۔ میں ایک بھائی بیٹا باپ خاوند دوست بھانجا بھتیجا ہوں بالکل اسی طرح جیسے کوئی بہن بیوی ماں بیٹی بھانجی بھتیجی ہوتی ہے ہر رشتہ کسی دوسرے رشتے کو اپنے پہلو سے تکمیل فراہم کر رہا ہے اور یہی رشتوں کا حسن ہے اب بات سفاک لگتی ہے لیکن ایک رائے کے مطابق ہے حقیقت کہ خلا انسانوں کا پیدا نہیں ہوتا۔ ان سے وابستہ جذباتی اور مادی ملکیت کا پیدا ہوتا ہے۔ کسی بھی رشتے دار کی وفات پرہمیں جو احساس ملکیت اور تکمیل اس کی موجودگی میں مل رہا ہوتا ہے وہ اچانک چھن جاتا ہے یہ احساس ہوتا ہے کہ کوئی ہے جو ہماری دنیا (جسے ہم اپنی سمجھ کر اس پر ٹیڈی خدا بن کر بیٹھ گئے ہوتے ہیں اور تمام رشتے ناطے ہمارے اردگرد اکٹھے کر چکے ہوتے ہیں کہ وہ ہمیں خوش کریں) اتھل پتھل کر سکتا ہے اپنی بے بسی کا احساس ہوتا ہے ۔ اپنی خدائی ٹوٹنے پر ہمارے جیسا جعلی خدا بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ رشتوں سے بچھڑنے کا دکھ فطری ہے - لیکن ان رشتوں پر قائم بھرم۔مان۔انحصار ٹوٹنے پر ہم جتنا وقت اس بات کو سمجھنے میں لیتے ہیں کہ ہاں ہم بھی مخلوق ہیں اور ہمارے بس میں سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ تو ہے جو ہمارے بس میں ہرگز نہیں اور وہ سچائیوں میں سے ایک ایسی سچاِئی ہے جس کا ہم مشاہدہ ہر روز ہر فراق پر کرتے ہیں بس اتنا ہی خلا ہوتا ہے۔ جس دن سمجھ آگئی اس دن خلا ختم
زبردست فیصل بھائی ،
دراصل خلاء کا احساس انسان کی خود غرضی کرواتی ہے ، انسان کی خود غرضی کی کئی اقسام ہے ، جن کا شمار ایک مضمون میں شاید ممکن نہیں ہے ۔ لاتعداد مثالیں موجود ہیں اور انسان کی خواہشات کی کوئی حد نہیں ۔
 
انسان کا خلا ختم نہیں ہوتا مگر صرف اور صرف محبوبِ حقیقی کی یاد سے۔
محبوب حقیقی کی یاد سے ہمیں روکنے والی سب سے بڑی طاقت ہمارے اندر موجود ہمارا اپناوہ بت ہے جسے ہم ٹیڈی رب سمجھ بیٹھتے ہیں جبکہ مالک کون و مکاں نے سورۃ رحمٰن میں فرمایا
-------------------------------------------------------------------------------------------------------------

کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ (26) وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلالِ وَالإکْرَامِ (27) فَبِأَیِّ آلاء رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ=28= یَسْأَلُہُ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِی شَأْنٍ (29) فَبِأَیِّ آلاء رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ (30) سَنَفْرُغُ لَکُمْ أَیُّہَا الثَّقَلانِ (31) فَبِأَیِّ آلاء رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ (32)

جتنے روئے زمین پر موجود ہیں سب فنا ہوجاوینگے۔ (۲۶) اور آپ کے پروردگار کی ذات جو کہ عظمت اور احسان والی ہے باقی رہ جائیگی۔ (۲۷) سو(اے جن و انس ) تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کے منکر ہوجاؤگے ۔ (۲۸) اسی سے (اپنی اپنی حاجتیں) سب آسمان اور زمین والے مانگتے ہیں وہ ہر وقت کسی نہ کسی کام میں رہتا ہے ۔ (۲۹) سو(اے جن و انس ) تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کے منکر ہوجاؤگے ۔ (۳۰) اے جن و انس ہم عنقریب تمہارے (حساب وکتاب کے لئے) خالی ہوجاتے ہیں۔ (۳۱) سو(اے جن و انس ) تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کے منکر ہوجاؤگے ۔ (۳۲)

--------------------------------------------------------------------------------------------------------------
اور میرے دماغ نے مجھے یہ یوں سمجھایا


جیہڑا وی ایہندے اتے وے فنا ہونا ای ہونا اے (26) تے بچنی بس ہستی تیرے مالک دی پورے جلال تے عزت والے دی (27)تے کیہڑی اپنے رب دی دین تو ں مکرو گے=28=پچھن اوہدا اسماناں تے زمیناں والے ، اوہ تے روز کتے لگا ای ہندا اے (29)تے اپنے رب دی کیہڑی کیہڑی کرنی نوں چٹھلاوو گے(30) ہنے آں تہاڈے لئی ویہلے وڈیو بھاریو (31)اپنے رب دی کیہڑی کیہڑی توں مکرو گے(32)

ترجمہ کسی عالم کا نہیں ہے اور بطور ریفرنس کسی اور جگہ استعمال نہیں ہو سکتا۔ اس میں غلطی کا امکان بہر حال ہے کیونکہ میں نے اسے اپنے فہم کے مطابق لکھا ہے۔ اور پنجابی اختیار کرنے کی وجہ اس کی گہرائی اور باریکی ہے کیونکہ اس میں باریک سی دھمکی اپنی پوری آب و تاب سے محسوس ہوتی ہے اور اپنا اثر چھوڑتے ہوئے کپکپاہٹ طاری کرتا ہے
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
زبردست فیصل بھائی ،
دراصل خلاء کا احساس انسان کی خود غرضی کرواتی ہے ، انسان کی خود غرضی کی کئی اقسام ہے ، جن کا شمار ایک مضمون میں شاید ممکن نہیں ہے ۔ لاتعداد مثالیں موجود ہیں اور انسان کی خواہشات کی کوئی حد نہیں ۔
بچے کے حوالے سے کیا خیال ہے؟
 

الف نظامی

لائبریرین
بچے کے حوالے سے کیا خیال ہے؟
اللہ تعالی نے بندے سے اپنی محبت کے لیے بھی ماں کی محبت کو پیمانہ بنایا ہے۔
رب پالنے والا اور ماں بھی پالتی ہے۔ ماں کے دل میں بچے کے لیے شفقت و محبت اللہ تعالی نے پیدا کر دی۔
اول محبت دلِ معشوق میں پیدا ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے۔
 
بچے کے حوالے سے کیا خیال ہے؟
اولاد ۔ بچہ آپ کے وجود کا وہ حصہ ہوتا ہے جس کی تخلیق اللہ نے آپ کے وجود سے کی ہوتی ہے۔ اس سے محبت اور انس میں اس کی بڑھوتری میں آپ کا حصہ۔ اس کی زندگی میں آپ کا اختیار ۔ اور اس کے دنیاوی اور اخروی مستقبل میں آپ کا حصہ ایک بنیادی لالچ ہے جس کی بنیاد پر ہم ان سے دستبردار نہیں ہونا چاہیئے۔ باقی ہے تو سارا مال اللہ کا ہی اور اسی کی طرف لوٹنا ہے تو جسے اللہ صبر عطا فرمادے اس کے لیئے اس خلاء کو پورا کرنے کی سبیل تعلق باللہ اور مزید اولاد کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔
یہ اولاد دنیا کی زندگی کی زینت بھی ہے اور اسے ایک اور مقام پر فتنہ بھی کہا گیا ہے۔ باتیں دونوں حق ہیں ۔ اگر حدود اللہ کے اندر رہ کر ہو تو زینت اور اس سے باہر ہو تو فتنہ

اور اگر اس خلا کا پورا ہونا ممکن نہ ہوتا تو سورۃ الکہف میں قتل ہونے والے لڑکے کے متعلق یہ نہ کہا جاتا کہ اللہ اس کے والدین کے لیئے بہتر بدلہ عطا فرمائے گا
 

نور وجدان

لائبریرین
بچے کے حوالے سے کیا خیال ہے؟

اللہ تعالی نے بندے سے اپنی محبت کے لیے بھی ماں کی محبت کو پیمانہ بنایا ہے۔
رب پالنے والا اور ماں بھی پالتی ہے۔ ماں کے دل میں بچے کے لیے شفقت و محبت اللہ تعالی نے پیدا کر دی۔
اول محبت دلِ معشوق میں پیدا ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے۔

اولاد ۔ بچہ آپ کے وجود کا وہ حصہ ہوتا ہے جس کی تخلیق اللہ نے آپ کے وجود سے کی ہوتی ہے۔ اس سے محبت اور انس میں اس کی بڑھوتری میں آپ کا حصہ۔ اس کی زندگی میں آپ کا اختیار ۔ اور اس کے دنیاوی اور اخروی مستقبل میں آپ کا حصہ ایک بنیادی لالچ ہے جس کی بنیاد پر ہم ان سے دستبردار نہیں ہونا چاہیئے۔ باقی ہے تو سارا مال اللہ کا ہی اور اسی کی طرف لوٹنا ہے تو جسے اللہ صبر عطا فرمادے اس کے لیئے اس خلاء کو پورا کرنے کی سبیل تعلق باللہ اور مزید اولاد کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔
یہ اولاد دنیا کی زندگی کی زینت بھی ہے اور اسے ایک اور مقام پر فتنہ بھی کہا گیا ہے۔ باتیں دونوں حق ہیں ۔ اگر حدود اللہ کے اندر رہ کر ہو تو زینت اور اس سے باہر ہو تو فتنہ

خود غرضی خلا کی پیداوار ہے. بچے کی زندگی میں خلا خود غرضی ہے؟
 
خود غرضی خلا کی پیداوار ہے. بچے کی زندگی میں خلا خود غرضی ہے؟
بچے کے لیئے والدین سے بہتر اس کی تربیت اور خیال رکھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ لیکن اگر بچہ والدین کو کھو بیٹھے تو اللہ اس کے لیئے بدل نعمت عطا فرما دیتا ہے۔ جسے جیسے اور جن حالات میں بڑھنا ہے اس کے مطابق ہی اس کی شخصیت اور زندگی پر اس کے اثرات ہونگے۔ باقی بات خلا کی تو ہر خلا پر ہونے والا ہے۔
 
سمجھوتہ اور شکرگزاری ہی اصل میں ہر مسئلے کاحل ہے کیونکہ جو ہے وہ ہماری حیثیت سے زیادہ اللہ نے دے دیا ہے اور جو نہیں اس کے لیے اللہ پر بھروسہ رکھیں ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ سے کسی نے پوچھا اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ کو کبھی ہنستے یا مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا گیا
آپ نے فرمایا کہ جس نے منظر کربلا کا مشاہدہ بہت قریب سے کیا ہووہ کبھی ہنسنے یا مسکرانے کی جرات نہیں کر سکتا۔
معلوم ہوا کہ حضرت امام قدس سرہ کے تبسم آفریں تصورات پر واقعہ کربلا کی بھیانک یادیں ہمیشہ اثر انداز رہیں جو بشریت کا تقاضا تھا۔ جو لوگ حبِ آلِ زھرا میں سچے ہوں ، ان کی ذہنی اور قلبی کیفیات بھی اسی قسم کی ہوتی ہیں۔
عام ذہن کے لوگ چھوٹے موٹے واقعات اور انسانوں کے اچھے برے سلوک کو زیادہ دیر تک ذہن میں محفوظ نہیں رکھتے ، جب کہ حساس طبع افراد کا دل و دماغ انہیں ہمیشہ تازہ اور یاد رکھتا ہے اور وقت کے ساتھ احباب کے بدلتے ہوئے رویوں کا بہ نظرِ غائز جائزہ لیتا رہتا ہے۔ کبھی عہدِ طفولیت اور کبھی جوانی میں کسی لگائے گئے داغ کو یاد کر کے وقت گزارتا رہتا ہے ۔ بقول مولانا غنیمت کنجاہی قدس سرہ:
بہ داغ یاد ہائے رفتہ دل دارد تماشائے
بود طاوس را سیرِِ چمن بر گشت دیدن ہا
یعنی گذشتہ یادوں کے داغوں کو دیکھ کر دل نظارہ اندوزی کرتا ہے کیوں کہ طاوس کا اپنے پھیلے ہوئے پروں پر نظر دوڑانا اور پروں کے داغوں کو دیکھنا سیر چمن کے مترادف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح طاوس کو جب کبھی سیر چمن کی خواہش ہوتی ہے تو وہ کہیں اور جانے کے بجائے اپنے پر پھیلا لیتا ہے اور مڑ کر اپنے ماضی کے داغوں کا تماشا کر لیا کرتا ہے اور اسے سیر چمن تصور کر لیتا ہے اسی طرح جب تفکرات زمانہ میری طبیعت پر کیفیت انقباض پیدا کرتے ہیں تو جی بہلانے کی خاطر ماضی کی یادوں سے رابطہ قائم کرلیتا ہوں تا کہ کسی صورت وقت گزر جائے۔ بعض لوگ مندرجہ بالا انداز کو اپنا کر وقت گزارنے کے عادی ہوتے ہیں اور بعض یادِ رفتہ کو عذاب خیال کرتے ہیں۔ چنانچہ اس دور کا ایک شاعر کہتا ہے:
یاد ماضی عذاب ہے یارب!
چھین لے مجھے سے حافظہ میرا
یا کچھ لوگ مندرجہ ذیل رباعی کے مضمون پر عمل پیرا نظر آتے ہیں:
مے خوردن من نہ از برائے طرب است
نہ بہر ریا و ترکِ دین و ادب است
خواہم کے بہ بے خودی بر آرم نفسے
مے خوردن و مست بودنم زیں سبب است
میں عیاشی کے لیے شراب نہیں پیتا اور نہ ریاکاری اور دین و ادب کی توہین کی خاطر پیتا ہوں ، بلکہ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ خود فراموشی کے کچھ لمحات مجھے میسر آجائیں۔ میرا شراب پینا اور مست رہنا صرف اسی غرض سے ہے
مے سے غرض نشاط ہے کیا روسیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
بہر حال اسے ترغیبِ مے نوشی تصور نہیں کرنا چاہیے، بلکہ شاعر نے ان اشعار میں بے خودی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے جو دلیل جواز پیش کی ہے ، اسے دیکھنا چاہیے۔
ان سب باتوں سے افضل یہ ہے کہ انسان اللہ کا ذکر ،اس کی عبادت اور قرآن و حدیث کا مطالعہ کرے ۔ اس سے نہ صرف وقت اچھا گزرے گا بلکہ اجر و ثواب بھی ملے گا کیونکہ طمانیت قلب کے لیے رب العزت نے یہی نسخہ ارشاد فرمایا ہے:
الا بذکر اللہ تطمئن القلوب
اللہ کے ذکر سے ہی سکون قلب کی دولت عطا ہوتی ہے
(سید نصیر الدین نصیر ، محیط ِ ادب ، صفحہ96)
 
Top