محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
زبردست فیصل بھائی ،مستشنیات ہر اصول اور قانون میں ہوتی ہیں ماسوائے الوہی قوانین کے جسے مالک کون و مکان اپنی صناعی میں اپنی مرضی کے مطابق استشناء عطا فرما دے۔ رشتے ۔ تعلق ۔ ناطے ۔ زندگی ۔ خلا ایسا موضوع ہے جس پر کتابیں سیاہ کی جا چکی ہیں۔ عشاق اپنے محبوب کی مدحت میں دیوان پر دیوان کالے کر گئے ۔ ماؤں کے لیئے بچے کی یاد آخری سہارا بچی۔ بیویوں کے لیئے انکے سرتاج کا دنیا سے جانا قیامت برپا کر گیا۔ بہنوں کو بھائی کی یاد نے دیوانہ کر دیا۔ یہ سب ایک حد اور ایک وقت تک اثر انداز ہوتے ہیں یقینا اور یہ خلا وقتی ہوتا ہے۔ مشہور ہے کہ مرنے والے پر صبر آجاتا ہے گم شدہ پر کوئی کیسے صبر کرے۔
یقینا یہ تمام رشتے ایسے ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں لیکن ذرا غور کریں تو گھومتے تو یہ سب آپ کے ہی گرد ہیں۔ میں ایک بھائی بیٹا باپ خاوند دوست بھانجا بھتیجا ہوں بالکل اسی طرح جیسے کوئی بہن بیوی ماں بیٹی بھانجی بھتیجی ہوتی ہے ہر رشتہ کسی دوسرے رشتے کو اپنے پہلو سے تکمیل فراہم کر رہا ہے اور یہی رشتوں کا حسن ہے اب بات سفاک لگتی ہے لیکن ایک رائے کے مطابق ہے حقیقت کہ خلا انسانوں کا پیدا نہیں ہوتا۔ ان سے وابستہ جذباتی اور مادی ملکیت کا پیدا ہوتا ہے۔ کسی بھی رشتے دار کی وفات پرہمیں جو احساس ملکیت اور تکمیل اس کی موجودگی میں مل رہا ہوتا ہے وہ اچانک چھن جاتا ہے یہ احساس ہوتا ہے کہ کوئی ہے جو ہماری دنیا (جسے ہم اپنی سمجھ کر اس پر ٹیڈی خدا بن کر بیٹھ گئے ہوتے ہیں اور تمام رشتے ناطے ہمارے اردگرد اکٹھے کر چکے ہوتے ہیں کہ وہ ہمیں خوش کریں) اتھل پتھل کر سکتا ہے اپنی بے بسی کا احساس ہوتا ہے ۔ اپنی خدائی ٹوٹنے پر ہمارے جیسا جعلی خدا بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ رشتوں سے بچھڑنے کا دکھ فطری ہے - لیکن ان رشتوں پر قائم بھرم۔مان۔انحصار ٹوٹنے پر ہم جتنا وقت اس بات کو سمجھنے میں لیتے ہیں کہ ہاں ہم بھی مخلوق ہیں اور ہمارے بس میں سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ تو ہے جو ہمارے بس میں ہرگز نہیں اور وہ سچائیوں میں سے ایک ایسی سچاِئی ہے جس کا ہم مشاہدہ ہر روز ہر فراق پر کرتے ہیں بس اتنا ہی خلا ہوتا ہے۔ جس دن سمجھ آگئی اس دن خلا ختم
دراصل خلاء کا احساس انسان کی خود غرضی کرواتی ہے ، انسان کی خود غرضی کی کئی اقسام ہے ، جن کا شمار ایک مضمون میں شاید ممکن نہیں ہے ۔ لاتعداد مثالیں موجود ہیں اور انسان کی خواہشات کی کوئی حد نہیں ۔