انسان کیا ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

یاایہا الناس انتم الفقراءالی اللّٰہ واللّٰہ ھو الغنی الحمید (فاطر: ١٥)
”لوگو! تم ہی اللہ کے محتاج ہو، اللہ ہی ہے جو بے نیاز ہے اور آپ اپنی ذات میں حمد کے لائق“۔

عزیز دوستوں!۔
فقر بندگی کا ایک زبردست موضوع ہے۔ بلکہ فقر ہی بندگی ہے۔ انسان کیا ہے؟ محتاجیوں اور ضرورت مندیوں کا مجموعہ۔ اپنی یہ حقیقت پہچاننا، اس کا اعتراف اور احساس کرنا بندگی کا ایک زبردست عمل ہے۔ دوسری طرف اللہ کو ہر ضرورت سے بے نیاز اور ہر نقص سے مبرا جاننا اور یوں اللہ کو خود اس کی ذات میں قابل ستائش مان کر اس کی حمد کرنا عبادت کی ایک اعلیٰ صورت ہے۔

ان دونوں باتوں میں براہ راست تعلق ہے۔ جس قدر انسان اپنے فقر اور احتیاج کا احساس کرتا ہے اتنا ہی وہ اللہ کی بے نیازی کا معترف ہوتا اور اس کی مطلق حمد کا دم بھرتا ہے۔ جس قدر وہ اللہ کے غنی اور بے نیاز ہونے کی حقیقت سے آشنا ہوتا ہے اتنا ہی وہ اپنی اور سب مخلوق کی اللہ کے آگے محتاجی اور ضرورت مندی کا معترف ہوتا ہے اور اسی قدر اس پر خالق اور مخلوق کی حقیقت کا یہ فرق واضح ہو جاتا ہے۔ نہ صرف خالق اور مخلوق کا یہ فرق ظاہر ہوتا ہے بلکہ خالق اور مخلوق کا یہ تعلق بھی واضح ہوتا ہے۔ ایک بے نیاز اور دوسرا اس کامحتاج۔ ایک غنی اور دوسرا اس کے در کا فقیر۔

چنانچہ آدمی کا اپنے آپ کو فقیر اور محتاج جاننا اور اللہ کے غنی اور بے نیاز ہونے کا معترف ہونا ایک محنت طلب کام ہے اور دل کا ایک مسلسل عمل۔

البتہ انسان بہت جلد بھول جانے والا ہے۔ اِس کی ضرورت پوری ہو تو یہ اپنا فقر بھول جاتا ہے۔ اس کی مراد برآئے تو یہ اپنی یہ حقیقت کہ یہ محتاجیوں کا مجموعہ ہے اس کی نگاہ سے ہی روپوش ہو جاتی ہے۔ ایک شکم سیر کو ’بھوک‘ کا تصور کرنا بہت ہی دشوار ہو جاتا ہے۔ پیٹ بھرا نہیں کہ ضرورت مندی کا تصور ہی چلا گیا! اب جب تک دوبارہ بھوک نہیں لگتی یہ بھلا چنگا ہے! یہ لمحہء حاضر کا اسیر جاہل محظ ہے ظلوم اور جہول۔ تب اس میں تونگری اور بے نیازی آتی ہے جو کہ دراصل اللہ کی صفت ہے اور صفتِ بندگی کے سراسر منافی۔ انسان کا بے نیاز ہونا اور اپنے آپ کو غیر ضرورت مند جاننا دراصل اپنی اوقات بھول جانا ہے۔ یہ دہری جہالت ہے۔ ایک اس کا اپنے آپ کو محتاج نہ جاننا او دوسرا کسی مہربان کے ہاتھوں اپنی ضرورت پوری ہو جانے کو بے نیازی کے مترادف جان لینا۔ جو اپنی صفت سے ناآشنا رہے وہ اللہ کی معرفت بھی کبھی نہیں پاتا۔ اپنی ’بندگی‘ اور ’عاجزی‘ سے ناواقف اللہ کی ’خدائی‘ اور ’بے نیازی‘ کا کیونکر معترف ہوگا! ایسے آدمی کی نگاہ میں ’بندگی‘ اور ’خدائی‘ کے مابین بہت ہی تھوڑا فرق رہ جائے گا جو ممکن ہے کہ پلک جھپکنے میں جاتا رہے۔ شرک کر لینا بھی لوگوں کیلئے تبھی آسان ہو جاتا ہے۔

اسلامی عبادات ساری کی ساری دراصل اسی فقر کا اظہار ہیں۔ مخلوق کی اسی صفت کا اقرار ہیں۔ بندگی کا ہر عمل اللہ کے غنی مطلق اور لائق حمد ہونے کا اعتراف ہے۔ نماز ہے تو تب دُعا ہے تو تب۔ تسبیح ہے تو تب اور ذکر ہے تو تب۔ سب اسی حقیقت کا اعادہ ہے۔ البتہ روزہ اس حقیقت کا ایک بہت ہی منفرد اظہار ہے۔ روزہ ایک موحد کی زبان پر اس کے اس فقر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ روزہ کی صورت میں ایک موحد کا رواں رواں یہ بولتا ہے کہ وہ مجسم احتیاج ہے اور اس ذات کا سدا محتاج جو ہر عیب سے پاک، ہر ضرورت سے بے نیاز، غنی مطلق، لائق حمد اور احد اور صمد ہے اور جس کے آگے ہر مخلوق اپنی ضرورت کیلئے دست سوال درازکرتی اور ایک اسی کے فضل کے سہارے جیتی ہے اور جس کے در کا یوں محتاج ہونا کہ اس کی محتاجی اس کے ماسوا ہر ہستی سے اس کو بے نیاز کردے نہ صرف فضیلت کی بات ہے بلکہ انسان کی اصل دولت اور سرمایہء افتخار ہے۔ پس روزہ ایک انداز کی تسبیح ہے۔ یہ اپنے فقر کا بیان ہے اور خداکے بے عیب اور بے نیاز ہونے کا اقرار اور اس کے فضل کا اعتراف اور اس کی احسان مندی کا اظہار اور اس کی دین پر قناعت اور اس سے مانگنے کا ایک اسلوب۔

چنانچہ روزہ اس صفت بندگی کا اقرار ہے۔ یہ انسان کے فقر کا بیان ہے۔ اس کا مدعا یہ ہے کہ بندہ بھوکا ہے ___ اور بھوک بندے کی صفت ہے ___ جب تک کہ اللہ اس کو نہ کھلائے اور یہ کہ پاکی اور تعریف اس کی جو اس کی اس بھوک کا علاج اپنے پاکیزہ رزق سے کرتا ہے اور یہ کہ تعریف اس کی تب بھی جب بندہ بھوکا ہو اور تعریف اس کی تب بھی جب بندہ اس کا رزق کھائے اور اس رزق سے اپنی بھوک اور پیاس بجھائے۔ سو یہ ایک بے لوث تعلق ہے۔ گو یہ ایک محتاج اور ایک غنی کا تعلق ہے اور گو یہ اس کے فضل کا ہر دم سوالی ہے مگر اس کو یہ ظرف بھی نصیب ہوا ہے کہ اِس کیلئے اُس کی تعریف کرنا کچھ پیٹ بھرنے پر موقوف نہیں! سبحان اللہ روزہ کیسی خوبصورت عبادت ہے! اللہ کی تسبیح، اللہ کی بندگی، اللہ کی حمد اور اللہ کی فرمانبرداری کچھ اِس کی شکم سیری پر منحصرنہیں۔ یہ بھوکا رہ کر بھی اس کی ویسی ہی حمد اور تعریف کرے گا جیسی کہ شکم سیر ہو کر۔ اس لئے کہ وہ آپ اپنی ذات میں قابل ستائش ہے اور لائق حمد اور یہ آپ اپنی ذات میں احسان مند اور اُس کا ثنا خوان! وہ دے تو اُس کے دینے پر اُس کی تعریف وہ کبھی کسی وقت نہ بھی دے تو اُس کی حکمت پر پیشگی اعتماد اور اُس کی دانائی پر اُس کی تعریف اور اُس کے فیصلے پر کامل اطمینان اور اِس سے بھی بہتر صلہ پانے کی اُس سے امید اور آس۔ وہ دے کر کھانے سے روک دے تب بھی اُسی کی تعریف اور اُس کا حکم بسروچشم! لہ الحمد فی الاولی والاخرہ ولہ الحکم والیہ ترجعون۔

پس یہ ایک غیر مشروط بندگی ہے۔ ہر حال میں اللہ کی تعریف اور اللہ کی احسان مندی ہے اور اللہ کی طلب میں سچا ہونے کی ایک عاجزانہ مگر ایک عملی تعبیر۔

روزہ اگر میکانکی عمل نہیں بلکہ ایک شعوری عمل ہے اور ایمان اور احتساب کا پیدا کردہ ہے تو انسان کی بھوک اور پیاس ان سب احساسات کی ایک خاموش مگر خوبصورت زبان بن جاتی ہے۔ انسان سارا دن ان احساسات کو پالتا اور بڑھاتا ہے اور اسی کیفیت میں صبح سے شام کر لیتا ہے۔ یوں ایک مہینہ وہ یوں گزارتا ہے کہ صبح چڑھتے ہی ایمان کا یہ سبق بیک وقت شعور اور عمل کی زبان میں یاد کرنے لگتا ہے اور شام ڈھلنے تک اسی سبق کو یاد کئے چلا جاتا ہے۔ یہ سبق ایک بار ذہن نشین ہوجائے تو بھوک اور پیاس میں اللہ نے کچھ ایسی خاصیت رکھی ہے کہ یہ خود ہی اس سبق کی یاددہانی بنتی ہے۔ یہ ایک قدرتی انتظام ہے کہ دن کا زیادہ سے زیادہ حصہ انسان اس سبق کے یاد کرنے میں گزارے۔ جیسے جیسے بھوک پیاس میں شدت آتی ہے ویسے ویسے ہی یہ سبق یاد ہونے لگتا ہے اور اسی نسبت سے ایمان کی یہ غذا اس کی روح میں اترتی ہے۔ جس شخص کی بھوک اور پیاس کو ایسی خوبصورت زبان مل جائے اور وہ اس کیلئے اتنے سارے پیغام نشر کرے وہ مالک کی نگاہ میں بھلا کیوں نہ جچے گا۔ اب حال یہ ہوتا ہے کہ اس کے منہ کی ناخوشگوار بو اللہ کے ہاں مشک کی خوشبو سے بڑھ جاتی ہے۔

وسلام۔۔۔
 

Dilkash

محفلین
ماشااللہ بہت اچھے
مگر اپنے نام پر بھی ذرہ رحم کیجئیے۔

اس نام کے ساتھ اس قسم کا بیان کیسے لگتا ھے؟
شائد دوسرے دوست بہتر تبصرہ فرمائیں۔
 
یہ جو فقر کا سبق آپ پڑھا رہے ہیں، آپ اس پر عمل کرتے رہئے۔ آپ کے لئے اچھا فلسفہ ہے۔
یہ آیت تو صرف اللہ سے مانگنے کو کہتی ہے کہ تم سے زیادہ اللہ تعالی غنی ہے اور تم اسی سے کے سامنے فقیر ہو، چایے کتنے بھی غنی ہو جاؤ، اللہ کے سامنے فقیر ہو۔۔ اس کے آگے فرایض اس میں اس طرح شامل کرنا صرف اور صرف اسرئیلیات پر عمل ہے، کہ فقیر بن، اور پڑا رہ۔ اور کس قدر بے ربط تانا بانا بنا ہے آپ نے، شاید کسی اسرائیلیات کی کتاب سے کاپی پیسٹ‌کیا ہے ، بنا سوچے سمجھے۔ ہم فقیر ہیں اور اللہ تعالی غنی ہے۔ اس سے زیادہ اور اس کا کچھ مطلب کیوں نکالتے ہیں، سیدھی بات ہضم کنے میں‌کیا مشکل ہے؟

قرآن کا فلسفہ اس سے بالکل برعکس ہے۔ قرآن آپکو فقیر بننے کے لئے نہیں‌کہتا ہے۔ بلکہ امیر بننے کے لئے کہتا ہے۔ دیکھئے
[ayah]2:177[/ayah] [ARABIC] لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَ۔كِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُواْ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَ۔ئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَ۔ئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ [/ARABIC]

نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں

آپ پر ایمان لاتے ہی جو فرض‌ہوا ہے وہ کیا ہے؟
اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے،


ذرا سمجھائیے یہ فقیر بن کر آپ کس طرح اپنا مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کریں گے؟

تو یہ غیر قرانی فلسفہ آپ کو ہی مبارک ہو۔ فقیر مانگنے والا ہوتا ہے۔ اس طرح کے فلسفہ سے آپ مسلمان کو کیا سکھانا چھاہتے ہیں؟ یہ تو خالص اسرائیلیات ہے بھائی!

عبادات قطعاَ کوئی فقر نہیں ہے، یہ تو فرایض‌ہیں۔ ان کو کوئی دوسری شکل کیوں‌دیتے ہیں صاحب؟ اور ذاتی فرائض تک کیوں محدود رہتے ہو؟ اجتماعی فرایض‌سے کیوں‌بھاگتے ہوسرکار؟ آج تک کوئی اسرائیلیات کا حامی ایسا کیوں نہ پیدا ہوا جو مسلمانوں کو اللہ کی طرف سے پیش کردہ اجتماعی فرایض کی طرف بھی توجہ دلائے؟
 
Top