انسان کی بنیادی ضروریات

نیرنگ خیال

لائبریرین
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ صاحب دھاگہ کے ذہن میں وہ عوامل ہیں۔ جو فطرت کے عطا کردہ مظاہر کے علاوہ ہیں۔۔۔ یہ محض میری سوچ بھی ہو سکتی ہے۔۔۔ :)
 
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ صاحب دھاگہ کے ذہن میں وہ عوامل ہیں۔ جو فطرت کے عطا کردہ مظاہر کے علاوہ ہیں۔۔۔ یہ محض میری سوچ بھی ہو سکتی ہے۔۔۔ :)
اگر آپ اپنی رائے کی تفصیلات بیان کریں تو مجھے یقین ہے کہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی۔
 

x boy

محفلین
جزاک اللہ
بالکل درست ہے یہ سب پریکٹکل باتیں جس کا تعلق براہ راست آدم علیہ السلام کی اولادوں سے ہے۔
ایک حدیث ہے جو ان باتوں کی ترجمانی کرتا بلکہ یہ باتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی مختصر تفسیر ہے
مفہوم:
جوانی کو بڑھاپے سے پہلے غنیمت جانو
مال کو مسکینی سے پہلے غنیمت جانو
صحت کو بیمار ہونے سے پہلے غنیمت جانو
وقت کو مصروفیت سے پہلے غنیمت جانو
ذندگی کو موت سے پہلے غنیمت جانو


اللہ تبارک وتعالی نے انسان کوعقل دے کرعزت وتکریم اورامتیاز سے نوازا جس عقل کے ساتھ وہ اپنےپروردگار اور خالق و رازق کوپہچانتا ہے ، اوراسی عقل سے اچھا‏ئ وبرائ میں تمیز کرتا ہے اور جواس کے نفع اورنقصان کی اشیاء ہیں ان میں امتیاز کرتا اورحلال وحرام پہچانتا ہے ۔
اورپھر اللہ تعالی نے انسان کوپیدا کرکے ایسی ہی نہیں چھوڑدیا کہ وہ کسی منھج اورطریقے اور بغیر کسی لائحہ عمل کے اپنی زندگی گزارے ، بلکہ اللہ تعالی نے اسے پیدا فرمایا تواس کی بھلائ ورشد اورصراط مستقیم کی ھدایت کے لیے کتابیں نازل فرما‏ئيں اور انبیاءو رسل مبعوث فرمائے ۔

اللہ تبارک وتعالی نے لوگوں کوفطرت توحید پرپیدا فرمایا توجب بھی وہ اس سے منحرف ہوئے اللہ تعالی نے انبیاء مبعوث فرمائے جو کہ انہیں صراط مستقیم کی طرف لائيں ان میں سب سے پہلے نبی آدم علیہ السلام اورآخری محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہيں ، اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ دراصل لوگ ایک ہی جماعت تھے اللہ تعالی نے نبیوں کوخوشخبریاں دینے اورڈرانے والے بنا کربھیجا اور ان کے ساتھ سچی کتابیں نازل فرمائيں ، تا کہ لوگوں کے ہراختلافی امر کا فیصلہ ہوجائے } البقرۃ ( 213 ) ۔
انسان کواس کی دوسری ضروریات زندگی سے بھی زیا دہ دین کی ضرورت ہے کیونکہ انسان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ان مواقع کوجانے جس سے اللہ تعالی کی رضاحاصل ہوتی ہے اور اسی طرح ان مواقع کوبھی جانناضروری ہے جواس کی ناراضگی کاباعث بنتے ہیں ۔
اور اسی طرح ایسےکام اور حرکت کرنی بھی ضروری ہے جوکہ نافع اور اس کے اس کے نقصان کودورکرےاور یہ شریعت ہی ہےجوان اشیاء اور کاموں میں تمیزکرتی ہے کہ کونسی چیزنافع اور کونسی نقصان دہ ہے اور یہ شریعت ہی لوگوں کے درمیان اللہ تعالی کاعدل وانصاف ہے اور اس کے بندوں کےدرمیان اس کانوراورروشنی ہے ۔
تولوگوں کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ایسی شریعت کے بغیرزندگی گزارسکیں جس سے وہ یہ تمیزکر سکیں کہ انہوں نےکون ساکام کرنااور کون سانہیں کرنا ۔

تواگرانسان کے لئےارادہ ہے تو پھریہ بھی ضروری ہے کہ وہ جوچاہتا ہے اس کے لئےاس کی معر فت بھی ضروری ہے ، اور کیا وہ نفع مند ہے یا کہ نقصان دہ ، اور کیا وہ میری اصلاح کرےگا یا کہ اسے فسادمیں مبتلا کردے گا ؟

تواسے کچھ لوگ تواپنی فطرت اور بعض اپنی علتوں کے استدلال کے ساتھ جانتے ہوں گے اور بعض کواس کاعلم نہیں اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک کہ انہیں رسول بیان نہ کردیں اور انہیں اس کی راہ نہ دکھادیں اور رسول ان کے لئے اس کی تعرف نہ کر دیں
اللہ سبحانہ و تعالی بندوں کے رزق کا ضامن ہے اس علم اور کتاب کی بنا پر جو کہ پہلے سے اسے تھا اور اللہ تعالی کو اس کا علم تھا اور اس نے لکھ بھی دیا کہ کس کو رزق میں تنگی ہو گی اور کسے کشادگی اور تنگی میں اللہ تعالی کی حکمت یہ بھی ہے کہ وہ بندوں کو نعمتوں اور مصائب کے ساتھ آزماتا ہے ۔

جیسا کہ ارشاد باری ہے ۔

"ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی اور بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں "

اور فرمان ربانی ہے :

"انسان ( کا یہ حال ہے کہ ) جب اسے اس کا رب آزماتا ہے اور عزت و نعمت دیتا ہے تو وہ کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنایا ہے اور جب وہ آزماتا ہے اور اس کی روزی تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے میری اہانت کی( اور ذلیل کیا )" الفجر 15۔16۔

ھر اس کے بعد فریایا '' کلا '' ایسا ہر گز نہیں ۔ یعنی معاملہ ایسا نہیں جیسا کہ انسان گمان کر رہا ہے بلکہ اللہ تعالی اگر کسی کو نعمتیں دیتا یا تنگی ہوتی ہے ، تو وہ بطور امتحان اور آزمائش ہے نہ کہ اسے عزت دینے اور ذلیل کرنے کے لئے ، تو اس آزمائش سے پتہ چلتا ہے کہ کون صبر کرنے اور شکر کرنے والا اور کون آہ و بکا کرنے والا ہے ۔ ا ور اللہ تعالی ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے
 

سعادت

تکنیکی معاون
میں کافی سوچ و بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ انسان کی بنیادی ضروریات مندجہ ذیل ہیں۔ انہی بنیادی چیزوں میں کمی بیشی سے ہی انسانی زندگی میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

1- ایمان ۔ ایمان ہی انسان کو زندگی کی سمت متعین کرنے میں مدد کرتا ہے۔
2- عزت - لوگ عزت کی خاطر جان دینے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں-
3-تعلیم و تربیت - دنیا میں بہتر طریقے سے انسان اسی سے جی سکتا ہے۔
4- صحت - خراب صحت صرف اپنے لئے نہیں دوسروں کے لئے بھی مسائل پیدا کرتی ہے۔
5- روزگار- ایک جائز ذریعہ آمدنی ضروری ہے اس کے بغیر جرائم کا راستہ کھلنا آسان ہے۔
6- شریک حیات (بیوی یا شوہر ) - اس کے بغیر انسان کی طرف مائل ہوسکتا ہے۔

جو کچھ اوپر بیان کیا یہ میری ذاتی رائے ہے اس میں غلطی ہوسکتی ہے، احباب اس پر رائے دیں یا اس فہرست میں اضافہ کریں تو مجھے خوشی ہوگی ۔ علمی اور صحت مند گفتگو یقیناً زندگی کے بارے میں نئے مثبت راستے کھولے گی۔

کیا آپ کی نظر سے کبھی امریکی نفسیات دان ابراہم مازلو کی ”ضروریات کا درجہ وار سلسلہ“ (hierarchy of needs) نامی تھیوری گزری ہے؟

مازلو کے بقول انسانی ضروریات کو درجہ وار زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

۱۔ عضویاتی (physiological)
۲۔ حفاظت (safety)
۳۔ محبت/رفاقت (love/belonging)
۴۔ عزت (esteem)
۵۔ تشکیلِ ذات (self-actualization)

ان تمام درجوں کو سمجھانے کے لیے عمومی طور پر ایک ہرم (pyramid) کی شکل کا سہارا لیا جاتا ہے (اگرچہ خود مازلو نے اپنی تھیوری کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کبھی کسی ہرم کی شکل کا استعمال نہیں کیا تھا):

640px-Maslow%27s_Hierarchy_of_Needs.svg.png

مازلو کی تھیوری کے مطابق، جب انسان کی نچلے درجوں پر موجود ضروریات پوری ہوتی ہیں تو تب ہی وہ بالائی درجوں کی ضروریات کے بارے میں سوچتا ہے۔ مثال کے طور پر، سب سے نچلے درجے میں سانس، بھوک، پیاس وغیرہ جیسی ضرورتیں پوری نہ ہونے پر انسان کو اس بات کا خیال نہیں آئے گا کہ اس کے سر پر چھت ہے یا نہیں (دوسرا درجہ)۔ اسی طرح اپنی عزت کروانے اور دوسروں کی عزت کرنے کی ضرورت (چوتھا درجہ) انسان کے لیے اس وقت تک بے معٰنی ہو گی جب تک اس کی دوسروں کے ساتھ رفاقت اور پیار کرنے اور کیے جانے کی ضرورت (تیسرا درجہ) پوری نہیں ہو گی۔

مازلو کی یہ تھیوری گو کافی مشہور ہے، لیکن اس پر تنقید بھی بہت کی گئی ہے۔ بہت سے نفسیات دانوں نے اس تھیوری کے کئی پہلوؤں پر مختلف انداز سے روشنی ڈالی ہے، اور کچھ نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ کئی مرتبہ دو مختلف درجوں کی ضروریات انسان ایک وقت میں بھی محسوس کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، کچھ نفسیات دان اس بات کا ذکر بھی کرتے ہیں کہ انسان کا ذاتی اور ثقافتی پس منظر بھی مازلو کے بیان کردہ سلسلے کے درجوں کو اوپر نیچے کر سکتا ہے۔ (مزید تفصیلات کے لیے آپ وکی پیڈیا پر موجود اس تھیوری کے بارے میں لکھے گئے مضمون کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اوپر موجود ہرم کی تصویر بھی وکی پیڈیا ہی سے لی گئی ہے۔)

بہرحال، میری ذاتی رائے میں انسان کی انتہائی بنیادی ضرورت تو وہی ہے جو کسی بھی جاندار کی ہو سکتی ہے، یعنی اپنی بقا۔ :) البتہ جب بات انسان سے بڑھ کر اس کے ماحول، خصوصاً ارد گرد موجود معاشرے تک پہنچتی ہے، تب مازلو کی تھیوری یا اسی سے مِلتے جُلتے نفسیاتی اور عمرانی موضوعات کا مطالعہ کافی دلچسپ رہتا ہے۔
 
آخری تدوین:
کیا آپ کی نظر سے کبھی امریکی نفسیات دان ابراہم مازلو کی ”ضروریات کا درجہ وار سلسلہ“ (hierarchy of needs) نامی تھیوری گزری ہے؟

مازلو کے بقول انسانی ضروریات کو درجہ وار زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

۱۔ عضویاتی (physiological)
۲۔ حفاظت (safety)
۳۔ محبت/رفاقت (love/belonging)
۴۔ عزت (esteem)
۵۔ تشکیلِ ذات (self-actualization)

ان تمام درجوں کو سمجھانے کے لیے عمومی طور پر ایک ہرم (pyramid) کی شکل کا سہارا لیا جاتا ہے (اگرچہ خود مازلو نے اپنی تھیوری کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کبھی کسی ہرم کی شکل کا استعمال نہیں کیا تھا):

640px-Maslow%27s_Hierarchy_of_Needs.svg.png

مازلو کی تھیوری کے مطابق، جب انسان کی نچلے درجوں پر موجود ضروریات پوری ہوتی ہیں تو تب ہی وہ بالائی درجوں کی ضروریات کے مطابق سوچتا ہے۔ مثال کے طور پر، سب سے نچلے درجے میں سانس، بھوک، پیاس وغیرہ جیسی ضرورتیں پوری نہ ہونے پر انسان کو اس بات کا خیال نہیں آئے گا کہ اس کے سر پر چھت ہے یا نہیں (دوسرا درجہ)۔ اسی طرح اپنی عزت کروانے اور دوسروں کی عزت کرنے کی ضرورت (چوتھا درجہ) انسان کے لیے اس وقت تک بے معٰنی ہو گی جب تک اس کی دوسروں کے ساتھ رفاقت اور پیار کرنے اور کیے جانے کی ضرورت (تیسرا درجہ) پوری نہیں ہو گی۔

مازلو کی یہ تھیوری گو کافی مشہور ہے، لیکن اس پر تنقید بھی بہت کی گئی ہے۔ بہت سے نفسیات دانوں نے اس تھیوری کے کئی پہلوؤں پر مختلف انداز سے روشنی ڈالی ہے، اور کچھ نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ کئی مرتبہ دو مختلف درجوں کی ضروریات انسان ایک وقت میں بھی محسوس کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، کچھ نفسیات دان اس بات کا ذکر بھی کرتے ہیں کہ انسان کا ذاتی اور ثقافتی پس منظر بھی مازلو کے بیان کردہ سلسلے کے درجوں کو اوپر نیچے کر سکتا ہے۔ (مزید تفصیلات کے لیے آپ وکی پیڈیا پر موجود اس تھیوری کے بارے میں لکھے گئے مضمون کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اوپر موجود ہرم کی تصویر بھی وکی پیڈیا ہی سے لی گئی ہے۔)

بہرحال، میری ذاتی رائے میں انسان کی انتہائی بنیادی ضرورت تو وہی ہے جو کسی بھی جاندار کی ہو سکتی ہے، یعنی اپنی بقا۔ :) البتہ جب بات انسان سے بڑھ کر اس کے ماحول، خصوصاً ارد گرد موجود معاشرے تک پہنچتی ہے، تب مازلو کی تھیوری یا اسی سے مِلتے جُلتے نفسیاتی اور عمرانی موضوعات کا مطالعہ کافی دلچسپ رہتا ہے۔
بہت جاندار معلومات دیں آپ نے
 

ظفری

لائبریرین
میں کافی سوچ و بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ انسان کی بنیادی ضروریات مندجہ ذیل ہیں۔ انہی بنیادی چیزوں میں کمی بیشی سے ہی انسانی زندگی میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

1- ایمان ۔ ایمان ہی انسان کو زندگی کی سمت متعین کرنے میں مدد کرتا ہے۔
2- عزت - لوگ عزت کی خاطر جان دینے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں-
3-تعلیم و تربیت - دنیا میں بہتر طریقے سے انسان اسی سے جی سکتا ہے۔
4- صحت - خراب صحت صرف اپنے لئے نہیں دوسروں کے لئے بھی مسائل پیدا کرتی ہے۔
5- روزگار- ایک جائز ذریعہ آمدنی ضروری ہے اس کے بغیر جرائم کا راستہ کھلنا آسان ہے۔
6- شریک حیات (بیوی یا شوہر ) - اس کے بغیر انسان کی طرف مائل ہوسکتا ہے۔

جو کچھ اوپر بیان کیا یہ میری ذاتی رائے ہے اس میں غلطی ہوسکتی ہے، احباب اس پر رائے دیں یا اس فہرست میں اضافہ کریں تو مجھے خوشی ہوگی ۔ علمی اور صحت مند گفتگو یقیناً زندگی کے بارے میں نئے مثبت راستے کھولے گی۔
آپ نے ایک علمی اور معلوماتی بحث کا آغاز کیا ہے ۔آپ کے افکار بھی کافی غور طلب ہیں ۔ اس سے پہلے مازلو نے بھی تقریباً انہی نکات پر اپنی کتاب میں بحث کی ہے ۔ جس کا تذکرہ سعادت صاحب اوپر دے چکے ہیں ۔
میرا نکتہ نظر یہ ہے کہ انسانی ضرورتیں دو حصوں میں بٹی ہوئی ہیں ۔ ایک نفسانی جسے ہم نفسیات کہتے ہیں ۔ اور دوسری وہ ہیں جن کا تعلق مادیت ہے ۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں ۔ نفسیات سے خواہشیں وجود میں آتیں ہیں اور پھر ان سے منسلک وہ مادی چیزیں ہیں جس کی رسائی کے لیئے انسان کوشش کرتا ہے ۔ لہذاٰہمیں پہلے یہ متعین کرلینا چاہیئے کہ انسان کی بنیادی خواہشات اورمادی ضروریات میں کیا فرق ہے ۔ میرا اشارہ آپ کے ان چھ نکات پر ہے جس کو آپ نے انسان کی بنیادی ضرورت قرار دیا ہے ۔ مگر غور کیا جائے تو اس میں سے ایک بھی انسان کی دسترس میں اس طرح ممکن نہیں ہے کہ ان کی خواہش کی جائے اور وہ میسر آجائیں ۔ یعنی یہ بنیادی اُن چیزوں سے انحراف کر رہیں ہیں ۔ جو ہر حال میں انسان کو درکار ہیں ۔ جیسے ایک مشہور جملہ ہے کہ " روٹی ، کپڑا اور مکان " ۔ یہ ایک کُلی اتفاق ہے کہ یہ وہ بنیادی چیزیں ہیں ۔ جو ہر انسان کو ہر حال میں اس طرح چاہیئے کہ وہ معاشرے میں ایک انسان کی حیثیت کیساتھ رہ سکے ۔ اس کے بعد وہ نفیساتی خواہشیں عمل پیرا ہوتیں ہیں ۔ جو ان تین بنیادی چیزوں کو تقویت دیتیں ہیں ۔ یعنی میں اب ان نفسانی خواہشوں میں آپ کے چھ نکات کو شامل کرنا چاہوں گا ۔ مگر یہ بھی منحصر ہے کہ آپ کے پاس کیا ذرائع اور مواقع ہیں کہ آپ نے نکات کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں ۔ کیونکہ آپ نے ان میں کمی و بیشی کو زندگی کے مسائل سے گردانا ہے ۔ میں بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں مسئلہ یہ نہیں ہے کہ آپ کی بنیادی ضرورتیں کیا کیا ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ ان تک رسائی کس طرح کی جائے ۔ ؟
مجھے موقع ملا تو میں اس پر تفصیل سے لکھوں گا کہ ابھی عجلت میں میرا نکتہ نظر اتنا واضع نہیں ہے ۔
 

سعادت

تکنیکی معاون
بہت اہم نکتہ آپ نے اٹھایا ہے
ایک اور اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہر ایک شخص اپنی خواہشات کی لمبی لسٹ تو یاد رکھتا ہے لیکن اس بات کو نہیں سمجھتا کہ اصل میں اس کی ضروریات ہیں کیا کیا؟
ع ۔ ہزاروں خواہشیں ایسیں کہ ہر خواہش پہ دم نکلے​
 

x boy

محفلین
صد افسوس کہ یہ طالبعلم ”ذوالقرنین کے نظریۂ ارتقاء“ سے ابھی تک لا علم ہے۔ براہِ کرم مستفید فرمائیے۔ :lightbulb:
مجھے بھی اس شخص سے ملاقات کرنی ہے براہ راست ممکن نہیں تو کم از کم انٹر نیٹ پر ہی صحیح،
اب ہمیں کیا معلوم کے مولی موٹی ہے یا لمبی ہے تیز ہے یا میٹھی ہے کھانے کے بعد معلوم پڑے گا کہ یہ کس کھیت کی مولی ہے:grin:
 
Top