انصار عباسی نے اس کالم (اصل میں تو دو کالم ہیں معلوم نہیں کالم کیوں کہلاتا ہے) میں لکھا ہے:
"ورنہ ایک کتاب جس میں ایک بچی کی اپنی زندگی، اُس کی تعلیم کے حصول کے لئے جدوجہد اور قاتلانہ حملہ کی کہانی ہونی چاہیے تھی اس میں ملعون سلمان رشدی کی کتاب The Satanic Verses کے حوالے سے آزادی رائے کے حق میں بات کرنا، اللہ تعالیٰ کے مقرر کئے ہوئے قانون کے نفاذ پر اعتراض اٹھانا۔ ناموس رسالت کے قانون کو پاکستان مٰن سخت کئے جانے کی بات کرنا، قادیانوں اور مسیحی برادری پر پاکستان میں حملوں اور یہ کہنا کہ احمدی (قادیانی) اپنے آپ کو تو مسلمان کہتے ہیں جبکہ ہماری حکومت ان کو غیر مسلم سمجھتی ہے ایسے موضوعات تھے جو مسلمانوں اور اسلام مخالف قوتوں کے درمیان تناؤ کا باعث بنتے ہیں۔ یہ معاملات ایک سولہ سالہ بچی کی سمجھ سے بہت بڑے ہیں مگر ملالہ کا نام استعمال کر کے ان معاملات کو اس انداز میں اٹھایا گیا جو عمومی مسلمانوں کو دکھ پہنچاتے ہیں۔"
1- "ورنہ ایک کتاب جس میں ایک بچی کی اپنی زندگی، اُس کی تعلیم کے حصول کے لئے جدوجہد اور قاتلانہ حملہ کی کہانی ہونی چاہیے تھی۔۔۔"
اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ انصار عباسی نے کتاب پڑھنے کی زحمت نہیں اٹھائی اور چند اقتباسات پڑھ کر ہی آرٹیکل لکھ مارا۔ کیونکہ کتاب میں تفصیلاً ملالہ کا بچپن، سوات کی تاریخ، ملالہ کا سکول، اس کی تعلیم کے لئے جدوجہد، اس پر حملہ، اس کا علاج وغیرہ بیان کیا گیا ہے۔ اصل کتاب اسی بارے میں ہی ہے۔ لیکن ملالہ خلا میں نہیں رہتی وہ دنیا کے ایک حصے میں رہتی ہے جسے پاکستان کہا جاتا ہے۔ اور پاکستان کے بہت سارے مسائل ہیں ان میں سے شدت پسندی بھی ایک مسئلہ ہے۔ ملالہ پر حملہ بھی ایسے ہی لوگوں نے کیا۔ اب اس کی وجوہات کو بیان نہ کیا جائے تو پھر اس کتاب کا فائدہ؟ اچھی کہانی ہی پڑھنی ہے تو فِکشن اٹھا کر پڑھ لیں۔
تو اس کتاب میں شدت پسندی سے متعلق چیدہ چیدہ واقعات کا بھی ذکر ہے۔ اب اس کو آپ پاکستان کے خلاف سازش سمجھیں یا پھر حقائق کی پردہ پوشی وہ آپ پر منحصر ہے۔
2- "۔۔ اس میں ملعون سلمان رشدی کی کتاب The Satanic Verses کے حوالے سے آزادی رائے کے حق میں بات کرنا،۔۔"
اس سے ایسا تاثر ملتا ہے جیسے ملالہ نے کتاب میں ایسی بات کی ہے کہ رشدی کو کتاب میں مغلظات لکھنے کی کھلی آزادی تھی اور اس نے ٹھیک کیا۔
کتاب کے صفحہ 28 سے اقتباس:
My father’s college held a heated debate in a packed room. Many students argued that the book"
should be banned and burned and the fatwa upheld. My father also saw the book as offensive to Islam
but believes strongly in freedom of speech. ‘First, let’s read the book and then why not respond with
our own book,’ he suggested. He ended by asking in a thundering voice my grandfather would have
been proud of, ‘Is Islam such a weak religion that it cannot tolerate a book written against it? Not my
"Islam!’
ترجمہ: میرے والد کے کالج میں اس پر ایک بھرے کمرے میں مباحثہ منعقد ہوا۔بہت سارے طلبا نے یہ کہا کہ اس کتاب کو بین کر دینا چاہیے اور اس کو جلا دینا چاہیے اور (خمینی کے رشدی کو قتل کرنے والے ) فتویٰ پر عمل درامد ہونا چاہیے۔ میرے والد نے بھی اس کتاب کو اسلام کے لئے توہین آمیز ہی سمجھا لیکن آزادیِ اظہار پر مکمل یقین رکھتے ہیں، "پہلے، اس کتاب کو پڑھ لیتے ہیں پھر اس کا جواب اپنی کتاب لکھ کر دیتے ہیں" انہوں نے مشورہ دیا۔ آخر میں انہوں نے گرجدار آواز میں، جس پر میرے دادا فخر کرتے، اختتام کیا، "کیا اسلام ایک ایسا کمزور مذہب ہے کہ وہ اپنے خلاف ایک کتاب برداشت نہیں کر سکتا؟ میرا اسلام ایسا نہیں ہے!"
یعنی آزادی اظہار کی بات یہ ہے کہ کتاب کا جواب کتاب سے دینا چاہیے نا کہ توڑ پھوڑ کر کے اور لوگوں کو قتل کر کے۔ اس میں صاف لکھا ہے کی ملالہ کے والد نے اس کتاب کو توہین آمیز سمجھا۔ اس میں کہیں پر بھی رشدی یا اس کتاب کی حمایت یا تعریف کا پہلو نہیں نکلتا۔ اوریا مقبول جان اپنے ہر کالم اور پروگرام میں ملالہ پر رشدی کی حمایت کا الزام لگاتا ہے۔ آپ خود پڑھ کر بتائیں کہ یہاں پر رشدی کی حمایت کیسے ہوتی ہے؟
3-"۔۔اللہ تعالیٰ کے مقرر کئے ہوئے قانون کے نفاذ پر اعتراض اٹھانا۔۔۔"
ضیاء الحق کے قوانین اور اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ تو اگر کوئی ضیاء الحق کے بنائے ہوئے قوانین جیسے حدود آرڈیننس وغیرہ پر اعتراض کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب کیسے نکلتا ہے کہ یہ اللہ کے قوانین پر اعتراض ہے؟
4- "۔۔ناموس رسالت کے قانون کو پاکستان مٰن سخت کئے جانے کی بات کرنا،"
کتاب کے صفحہ 105 سے اقتباس:
In Pakistan we have something called the
Blasphemy Law, which protects the Holy Quran from desecration. Under General Zia’s Islamisation
campaign, the law was made much stricter so that anyone who ‘defiles the sacred name of the Holy
Prophet’ can be punished by death or life imprisonment. pp 105
ترجمہ: پاکستان میں ایک قانون ہے جس کا نام توہین کا قانون ہے، جو قرآن پاک کی توہین ہونے سے بچاتا ہے۔ جنرل ضیاء کے اسلامائزیشن کے دوران اس قانون کو مزید سخت کر دیا گیا کہ اب اگر کوئی رسول (ص) کی توہین کا مرتکب ہو تو اس کے لئے سزائے موت یا پھر عمر قید کی سزا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ قانون سخت نہیں کیا گیا؟ اور کیا اس قانون کے تحت بے گناہ لوگوں پر الزام تراشی نہیں کی جاتی؟ اگر ایسا ہے تو کتاب میں اس کا ذکر کرنا کیسے مسلمانوں کی دل آزاری کے زمرے میں آتا ہے؟
5- "۔۔قادیانوں اور مسیحی برادری پر پاکستان میں حملوں اور یہ کہنا کہ احمدی (قادیانی) اپنے آپ کو تو مسلمان کہتے ہیں جبکہ ہماری حکومت ان کو غیر مسلم سمجھتی ہے ۔۔"
صضحہ 49 سے اقتباس:
Now we are a country of 180 million and more than 96 per cent
are Muslim. We also have around two million Christians and more than two million Ahmadis, who
say they are Muslims though our government says they are not. Sadly those minority communities are
often attacked. pp 49
ترجمہ: ہمارے ملک میں 18 کروڑ لوگ بستے ہیں جن میں 96 فی صد مسلمان ہیں۔ ہمارے ہاں 20 لاکھ کے قریب عیسائی اور بیس لاکھ سے کچھ زائد احمدی بستے ہیں، جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں جبکہ ہماری حکومت کہتی ہے کہ یہ مسلمان نہیں ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ان اقلیتوں پر اکثر حملے ہوتے ہیں۔
اس میں ایسی کیا بات ہے جو حقیقت کے برعکس ہے؟ احمدی اپنے آپ کو مسلمان مانتے ہیں لیکن حکومت انہیں مسلمان تسلیم نہیں کرتی اور ان پر حملے بھی ہوتے ہیں۔
6- ایک اور ایشو جو اس کالم میں اٹھایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ملالہ نے حضور (ص) کے نام کیساتھ درود نہیں لکھا۔
یہ رہی علامہ اقبال کی کتاب
"Reconstruction of religious thought in Islam" جو کہ ان کی اپنی یونیورسٹی ETH Zurich پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی پرنٹ ہیں۔ اس میں مجھے کوئی دکھا دے کہ علامہ نے کتنی مرتبہ Prophet کے بعد (PBUH) لگایا ہے؟ مغرب میں اس طرح کے القابات لگانے کا رواج نہیں ہے۔ تو اکثر مسلمان لکھاری بھی یہ نہیں لگاتے۔ اس سے کسی قسم کی توہین نہیں ہوتی۔ ایسا objectivity برقرار رکھنے کے لئے کیا جاتا ہے۔