انصاف

نیلم

محفلین
ایک شہنشاہ جب دنیا کو فتح کرنے کے ارادے سے نکلا تو اس کا گزر افریقہ کی ایک ایسی بستی سے ہوا جو دنیا کے ہنگاموں سے دور اور بڑی پرسکون تھی۔ یہاں کے باشندوں نے جنگ کا نام تک نہ سنا تھا اور وہ فاتح اور مفتوح کے معنی سے ناآشنا تھے‘ بستی کے باشندے شہنشاہ اعظم کو مہمان کی طرح ساتھ لے کر اپنے سردار کی جھونپڑی میں پہنچے۔ سردار نے اس کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا اور پھلوں سے شہنشاہ کی تواضع کی۔

کچھ دیر میں دو قبائلی فریق مدعی اور مدعا الیہ کی حیثیت سے اندر داخل ہوئے۔ سردار کی یہ جھونپڑی عدالت کا کام بھی دیتی تھی۔

مدعی نے کہا۔
”میں نے اس شخص سے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا تھا۔ ہل چلانے کے دوران اس میں سے خزانہ برآمد ہوا میں نے یہ خزانہ اس شخص کو دینا چاہا لیکن یہ نہیں لیتا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ خزانہ میرا نہیں ہے کیوں کہ میں نے اس سے صرف زمین خریدی تھی۔ اور اسے صرف زمین کی قیمت ادا کی تھی، خزانے کی نہیں“

مدعا الیہ نے جواب میں کہا۔
”میرا ضمیر ابھی زندہ ہے۔ میں یہ خزانہ اس سے کس طرح لے سکتا ہوں‘ میں نے تو اس کے ہاتھ زمین فروخت کردی تھی۔ اب اس میں سے جو کچھ بھی برآمد ہو یہ اس کی قسمت ہے اور یہی اس کا مالک ہے ، میرا اب اس زمین اور اس میں موجود اشیاء سے کوئی تعلق نہیں ہے “

سردار نے غور کرنے کے بعد مدعی سے دریافت کیا۔
”تمہارا کوئی لڑکا ہے؟“

”ہاں ہے!“

پھر مدعا الیہ سے پوچھا۔
”اور تمہاری کوئی لڑکی بھی ہے؟“

”جی ہاں....“ مدعا الیہ نے بھی اثبات میں گردن ہلا دی۔

”تو تم ان دونوں کی شادی کرکے یہ خزانہ ان کے حوالے کردو۔“

اس فیصلے نے شہنشاہ کو حیران کردیا ۔ وہ فکر مند ہوکر کچھ سوچنے لگا۔

سردار نے متردد شہنشاہ سے دریافت کیا۔ ”کیوں کیا میرے فیصلے سے آپ مطمئن نہیں ہیں؟“

”نہیں ایسی بات نہیں ہے۔“ شہنشاہ نے جواب دیا۔ ”لیکن تمہارا فیصلہ ہمارے نزدیک حیران کن ضرور ہے۔“

سردار نے سوال کیا۔ ”اگر یہ مقدمہ آپ کے رو برو پیش ہوتا تو آپ کیا فیصلہ سناتے؟“

شہنشاہ نے کہا کہ ۔ ” پہلی تو بات یہ ہے کہ اگر یہ مقدمہ ہمارے ملک میں ہوتا تو زمین خریدنے والے اور بیچنے والے کے درمیان کچھ اس طرح کا جھگڑا ہوتا کہ بیچنے والا کہتا کہ : میں نے اسے زمین بیچی ہے اور اس سے زمین کی قیمت وصول کی ہے ، اب جبکہ خزانہ نکل آیا ہے تو اس کی قیمت تو میں نے وصول ہی نہیں کی ، اس لیے یہ میرا ہے ۔
جبکہ خریدنے والا کہتا کہ:
میں نے اس سے زمین خریدلی ہے ، تو اب اس میں جو کچھ ہے وہ میری ملکیت ہے اور میری قسمت ہے ۔

سردار نے شہنشاہ سے پوچھا کہ ، پھر تم کیا فیصلہ سناتے؟

شہنشاہ نے اس کے ذہن میں موجود سوچ کے مطابق فورا جواب دیا کہ:
ہم فریقین کو حراست میں لے لیتے اور خزانہ حکومت کی ملکیت قرار دے کر شاہی خزانے میں داخل کردیا جاتا۔“

”بادشاہ کی ملکیت!“ سردار نے حیرت سے پوچھا۔ ”کیا آپ کے ملک میں سورج دکھائی دیتا ہے؟“

”جی ہاں کیوں نہیں؟“

”وہاں بارش بھی ہوتی ہے....“

”بالکل!“

”بہت خوب!“ سردار حیران تھا۔ ”لیکن ایک بات اور بتائیں کیا آپ کے ہاں جانور بھی پائے جاتے ہیں جو گھاس اور چارہ کھاتے ہیں؟“

”ہاں ایسے بے شمار جانور ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں۔“

”اوہ خوب‘ میں اب سمجھا۔“ سردار نے یوں گردن ہلائی جیسے کوئی مشکل ترین بات اس کی سمجھ میں آگئی ہو۔ ”تو اس ناانصافی کی سرزمین میں شاید ان ہی جانوروں کے طفیل سورج روشنی دے رہا ہے اور بارش کھیتوں کو سیراب کررہی ہے۔“
 

نیلم

محفلین
تپش ہے یہ اپنے گناہوں کی
کہ میرے شہر کا موسم خوشگوار نہیں ہوتا
دن بھر کر کے نافرمانی اُس کی کہتے ہیں کہ
راضی پرودگار نہیں ہوتا.
 
جی ضرور۔۔۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ۔۔۔
ایک طوطا اور طوطی، اڑتے اڑتے جنگل میں بہت دور نکل آئے۔ انکا گذر ایک نہایت ویران بستی سے ہوا۔ بستی کی ویرانی دیکھ کر طوطی نے اپنے شوہر سے کہا
کس قدر ویران بستی ہے۔ ضرور یہاں آس پاس کوئی الّو رہتا ہوگا جسکی نحوست کی وجہ سے یہ بستی ویران ہوگئی۔
طوطا نے تائید میں سر ہلایا ہی تھا کہ اچانک درختوں کے جھنڈ سے کسی کے کھنکارنے کی آواز سنائی دی اور پل بھر میں ہی ایک الّو کھسیانی سی ہنسی ہنستے ہوئے آموجود ہوا۔
خوش آمدید، آئیے آئیے۔۔۔بڑی مدت کے بعد کوئی میرے غریب خانے کے پاس سے گذرا ہے۔ مجھے بیحد خوشی ہوگی اگر آپ کچھ دیر کیلئے اس الّو کو اپنی خدمت کا موقع دیں تو۔
طوطا اور طوطی جو اسکی اچانک آمد سے دہل سے گئے تھے، اپنے حواس مجتمع کئیے اور الّو کا شکریہ ادا کیا اور دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ اس نے تھوڑی دیر قبل کی انکی گفتگو نہیں سنی۔ اور انکار کرتے ہوئےعذر پیش کیا کہ وہ اپنے ٹھکانے سے کافی دور آچکے ہیں اور شام بھی سر پر ہے، پھر کبھی سہی۔ لیکن الّو نے بہت محبت کے ساتھ التجا کی کہ اسے مہمان نوازی کاموقع دیا جائے اور چونکہ رات سر پر ہے، اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ وہ آج کی شب الّو کے گھر میں قیام کریں۔
انہوں نے مروتاّ ہاں کر دی مبادا کہ الّو کی دلشکنی نہ ہو۔
چنانچے الّو نے انکے لئے مزیدار کھانے پکائے، اور انکی مہمانداری میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اگلے دن جب طوطا طوطی نے رخصت ہونا چاہا تو الّو نے دوبارہ نہایت لجاجت کے ساتھ التجا کی کہ اسے مزید خدمت کا موقع دیا جائے۔
مختصر یہ کہ انہوں نے تین دن الّو کے گھر قیام کیا اور اسکی مہمان نوازی اور اخلاق سے بیحد متاثر ہوئے۔ تین دل نے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ بس اب چلتے ہیں الّو پر مزید بوجھ نہیں ڈالنا چاہئیے۔
الّو نے حسبِ سابق مزید رکنے کی فرمائش کی لیکن انکے اصرار کو دیکھ کر ہتھیار ڈالدیئے۔ چنانچہ جب طوطا طوطی اس سے رخصت ہونے کیلئے پر تولنے لگے تو اچانک الّو نے طوطے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
ٹھیک ہے طوطا بھائی، جیسی آپکی مرضی۔ آپ جانا چاہتے ہیں تو بسروچشم۔ لیکن میری بیوی کا ہاتھ تو چھوڑئیے، اسے کیوں ساتھ میں لیکر جا رہے ہیں۔
طوطا طوطی اس مذاق سے بیحد محظوظ ہوئے اور جب اڑنے لگے تو الّو نے انکا راستہ روک لیا اور بڑی سنجیدگی سے کہنے لگا کہ
بھائی طوطے، یہ کہاں کی شرافت ہے؟۔۔۔ایک تو میں نے تین دن تمہاری مہمان نوازی اور خدمت کی، اور تم اس نیکی کا یہ صلہ دے رہے ہو کہ میری بیوی کو شاتھ لیجانے کی کوشش کر رہے ہو۔
الّو کی سنجیدگی کو دیکھ کرطوطا اور طوطی کے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے اور پیروں تلے سے زمین کھسکنے لگی۔ چنانچہ طوطے نے دوبارہ عرض کی کہ
الّو صاحب۔۔۔آپ یہ کیسی باتیں کررہے ہیں۔ جناب آپ اپنی شکل دیکھئے اور ہم دونوں کو دیکھئے۔ کیا کوئی بھی عقلمند آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ طوطی آپکی بیوی ہوسکتی ہے۔
لیکن الّو کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی اور وہ اسی طرح انکا راستہ روکے کھڑا رہا۔
یہ ماجرا دیکھ کر طوطا طوطی اپنی بے بسی پر رونا شروع ہوگئے۔ اچانک انہیں اسی ویران بستی کی طرف سے ایک آدمی آتا دکھائی دیا۔ اسے آلّو نے بھی آتا دیکھ لیا اور طوطے اور طوطی سے یوں کہنے لگا
رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ تم دونوں بیشک اس آدمی سے پوشھ لو۔ اگر اس نے تمہارے موقف کی حمایت کی تو میں اپنے موقف سے دستبردار ہوجاؤں گا اور تمہیں جانے دونگا، بصورت دیگر تمہیں اکیلے ہی جانا ہوگا طوطی کو یہاں چھوڑ کر۔
طوطا طوطی نے الّو کی یہ معقولیت پر مبنی بات سنی تو انکی جان میں جان آئی۔ اور وہ اس آدمی کے سامنے یہ مقدمہ پیش کرنے پر دل و جان سے راضی ہوگئے۔
چنانچہ اس آدمی کو بلا کر یہ سارا معاملہ اسکے گوش گذار کیا گیا۔ اس نے تمام روداد سن کر ان تینوں کا بڑی گہری نظر سے جائزہ لیا اور کہنے لگا کہ
تم تینوں کی یہ روداد سن کر اور حالات و واقعات اور قرائن کو دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ۔۔یہ الّو ٹھیک کہہ رہا ہے۔ تم دونوں جھوٹے ہو۔
یہ سن کر وہ دونوں ہی رونا شروع ہوگئے اور آدمی نے اپنی راہ لی۔
تھوڑی دیر کے بعد الّو کے کھنکارنے کی آواز سنائی دی اور اس نے کہا۔۔
طوطا بھائی، پریشان مت ہو،تمہاری بیوی تمہیں مبارک ہو، میں نے یہ سب صرف ایک بات کو ثابت کرنے کیلئے کیا تھا اور وہ یہ کہ
"جس بستی میں ایسا انصاف کرنے والے انسان رہتے ہوں، وہ کسی الّو کی نحوست کی وجہ سے ویران نہیں ہوتی"
:) :) :)
 

نیلم

محفلین
مختلف مذاہب کے درمیان مکالمہ اس دور کی شاید سب سے بڑی ضرورت ہے۔۔۔ ۔۔دنیا کا کوئی بھی مذہب، مذہبی تعصب کی اجازت نہیں دیتا۔۔۔ ۔ہاں یہ حقیقت ہے کہ کل جن کو عروج حاصل تھا، آج وہ اپنی کوتایوں کی وجہ سے زوال کا شکار ہیں، مذہبی تعصب کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں ، زمین ان پر تنگ کی جا رہی ہے، مذہب اور سائنس کے ٹکراؤ کی فضا پیدا کی جا رہی ہے۔
کیا وجہ ہے کہ فزکس میں کوائنٹم تھیوری کوتو حقیقت مان لیا جاتا ہے، لیکن روشنی کےاس سفر کی سب سے بڑی شہادت " واقعہ معراج"کو جھٹلایا جاتا ہے۔۔۔ ۔۔؟ٹائم مشین اور مستقبل میں سفر کے قصے تو سب کی زبان پر ہیں اور ان ایجادات کے ظہور کا انتظار بھی کیا جاتا ہے لیکن اسی روشنی کی رفتار سے براق پر سفر کرنے والے اور سات آسمانوں کی شہادت لانے والےپر یقین نہیں کیا جاتا ۔۔۔ ۔۔؟
فتح اور برتری کے جنون میں ایٹم بم بنانے والوں کو تو مہذب کہا جاتا ہے اور اپنے گھر کی حفاظت کے لئے پتھر اٹھانے والوں کو دہشت گرد کا رتبہ دے دیا جاتا ہے ۔۔۔ ۔۔یہ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ اور ایسے بہت سے دوسرے سوال ہیں جن کا جواب میں اپنی ہی اس نئی نسل سے چاہتا ہوں۔۔۔


ناول خدا اور محبت۔۔۔ از ہاشم ندیم
 
Top