[کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ بُرے وقت میں انسان کا سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان انضمام الحق بھی ورلڈ کپ کے بعد انہی دنوں سے گزر رہے تھے جو کسی طور بھی ان کے شاندار کریئر کے اچھے دن نہیں کہے جا سکتے۔
خود انضمام الحق نے بھی شاید ہی یہ سوچا ہوگا کہ ایک بھرپور بین الاقوامی کریئر کے بعد جب رخصت ہونے کا وقت آئے گا تو ان کا فیصلہ ’ باہر کی قوتوں‘ کی خواہشات کے مطابق لیکن خود ان کے لئے بادل نخواستہ قابل قبول ہوگا۔ اس کا اندازہ اس پریس کانفرنس میں انضمام الحق اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چئرمین ڈاکٹرنسیم اشرف کے متضاد خیالات سے بخوبی ہوگیا جس میں ’ بِگ مین انضی‘ نے ٹیسٹ کرکٹ کو خیرباد کہنے کا اعلان کیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چئرمین نے رسمی انداز میں انضمام الحق کی ریٹائرمنٹ کے فیصلے کو ایک نئی روایت سے تعبیر کیا لیکن ساتھ بیٹھے انضمام الحق نے اپنے اندر کے کرب کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے دل کی بات کہہ ڈالی کہ وہ مزید سال ڈیڑھ سال تک کرکٹ کھیل سکتے تھے لیکن انہیں یہ محسوس ہورہا تھا کہ شاید ان کی ڈریسنگ روم میں موجودگی نوجوان کرکٹرز پر اثرانداز نہ ہو۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ورلڈ کپ کی شکست نے سب کچھ بدل ڈالا۔‘
غور طلب بات یہ ہے کہ یہ وہی کرکٹرز ہیں جن کی قیادت کرتے ہوئے انضمام الحق نے پاکستانی ٹیم کو جیت کی راہ پر گامزن کردیا تھا لیکن شاید اب بدلتے رنگ میں نئی قیادت انضمام الحق کو خود سے دور رکھنا چاہتی ہے۔
سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو انضمام الحق کی شاندار خدمات اس وقت کیوں یاد نہیں آئیں جب انہیں ورلڈ کپ کے بعد حوصلہ دینے کی بجائے ’خود سر‘ اور ’آمر‘ جیسے القابات سے نوازا گیا۔
انضمام الحق کی ریٹائرمنٹ کے محرکات کچھ بھی ہوں لیکن جب بھی ان کے کریئر کی بات ہوگی وہ اس عہد کے ایک بڑے فنکار کی حیثیت سے یاد رہیں گے جو سولہ سال تک شاندار اننگز کی صورت میں خوبصورت فن پارے تخلیق کرتا رہا ہے۔
سچن تندولکر، برائن لارا، مارک وا اور اروندا ڈی سلوا جیسے سٹائلش بیٹسمینوں کی موجودگی میں انضمام الحق نے ہمیشہ اپنا ایک الگ مقام برقرار رکھا اور وہ عددی لحاظ سے بھاری بھرکم اور آنکھوں کو بھانے والی خوبصورت اننگز کھیلنے والے بیٹسمین کے طور پہچانے گئے۔
پاکستانی کرکٹ میں حنیف محمد اور جاوید میانداد ایسے بیٹسمینوں کے طور پر یاد رکھے جاتے ہیں جنہوں نے میچ بچائے بھی اور میچ جتوائے بھی لیکن انضمام الحق اس معاملے میں بھی ان دونوں عظیم کھلاڑیوں سے پیچھے نہیں رہے۔ پاکستان کو جب میچ بچانے کی ضرورت پڑی تو انضمام نے وکٹ پر سرجھکا کر بیٹنگ کی اور جب میچ جتوانے کا وقت آیا تو سر اٹھاکر ٹیم کو جیت سے ہمکنار کیا۔
انضمام الحق کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ کو جب چھوڑیں تو ان کے نام کے آگے دس ہزار رنز لکھے ہوں۔ حالات نے یہ خواہش تو پوری نہ کرنے دی لیکن وہ کسی بھی پاکستانی بیٹسمین کے سب سے زیادہ ٹیسٹ رنز کے ریکارڈ کو اپنے نام کرنے کے قریب ہیں۔
ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ پچیس سنچریوں کا پاکستانی ریکارڈ پہلے ہی انضمام الحق کے نام ہوچکا ہے لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان پچیس میں سے سترہ سنچریاں ان ٹیسٹ میچوں میں بنی ہیں جو پاکستان نے جیتے ہیں۔
بحیثیت کپتان انضمام الحق کا ریکارڈ متاثر کن رہا ہے۔ پاکستان ان کی کپتانی میں اکتیس میں سے گیارہ ٹیسٹ جیتا ہے جن میں ملک سے باہر بنگلور، پورٹ آف سپین اور پورٹ الزبتھ ٹیسٹ کی کامیابیوں میں ان کی اپنی بیٹنگ کا حصہ بھی نمایاں رہا۔
اپنی کپتانی کے ٹیسٹ میچوں میں انضمام الحق نے سات سنچریاں بھی بنائی ہیں۔
89 ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں قیادت کرتے ہوئے وہ ٹیم کو52 میچوں میں جیت سے ہمکنار کرچکے ہیں۔ اسطرح فیلڈ میں بظاہر سست اور ڈھیلے ڈھالے نظرآنے والے انضمام الحق نے کپتان کی حیثیت سے بھی خود کو منوایا ہے۔
انضمام الحق کا ہمیشہ یہی کہنا رہا ہے کہ فیلڈ میں وہ جارحانہ مزاج اختیار کرکے حکم چلانے کی بجائے تحمل مزاجی کے ساتھ کپتانی کرنے میں زیادہ لطف اندوز ہوتے رہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انضمام الحق نے فیلڈ میں ہر غلط فیصلے یا ردعمل کو قبول کیا۔ ٹورنٹو میں اپنے اوپرفقرے کسنے والے شائق کے پیچھے وہ بیٹ لیے بھاگتے بھی نظر آئے اور متعدد مرتبہ امپائرز سے غلط فیصلوں پر احتجاج کرتے بھی دیکھے گئے بلکہ اسی کی بنا پر وہ میچ ریفریز کے پاس سب سے زیادہ پیشیاں بھگتانے والے کرکٹر بھی بنے اور اوول ٹیسٹ نے تو ان کے کریئر کو یکسر بدل ڈالا۔
انضمام الحق لاہور ٹیسٹ کے بعد میدان میں بیٹ کے ذریعے بولرز پر اپنی دھاک بٹھاتے نظرنہیں آئیں گے اور نہ ہی میچ کے اختتام پر ’ نہیں اور جونسے‘ کے ساتھ شروع ہونے والی ان کی گفتگو سننے کو ملے گی لیکن کرکٹ ان کے تذکرے کے بغیر ادھوری رہے گی۔
ہم یقیناً خوش قسمت ہیں کہ انضی جیسے بیٹسمین کو کھیلتے دیکھ لیا]
خود انضمام الحق نے بھی شاید ہی یہ سوچا ہوگا کہ ایک بھرپور بین الاقوامی کریئر کے بعد جب رخصت ہونے کا وقت آئے گا تو ان کا فیصلہ ’ باہر کی قوتوں‘ کی خواہشات کے مطابق لیکن خود ان کے لئے بادل نخواستہ قابل قبول ہوگا۔ اس کا اندازہ اس پریس کانفرنس میں انضمام الحق اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چئرمین ڈاکٹرنسیم اشرف کے متضاد خیالات سے بخوبی ہوگیا جس میں ’ بِگ مین انضی‘ نے ٹیسٹ کرکٹ کو خیرباد کہنے کا اعلان کیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چئرمین نے رسمی انداز میں انضمام الحق کی ریٹائرمنٹ کے فیصلے کو ایک نئی روایت سے تعبیر کیا لیکن ساتھ بیٹھے انضمام الحق نے اپنے اندر کے کرب کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے دل کی بات کہہ ڈالی کہ وہ مزید سال ڈیڑھ سال تک کرکٹ کھیل سکتے تھے لیکن انہیں یہ محسوس ہورہا تھا کہ شاید ان کی ڈریسنگ روم میں موجودگی نوجوان کرکٹرز پر اثرانداز نہ ہو۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ورلڈ کپ کی شکست نے سب کچھ بدل ڈالا۔‘
غور طلب بات یہ ہے کہ یہ وہی کرکٹرز ہیں جن کی قیادت کرتے ہوئے انضمام الحق نے پاکستانی ٹیم کو جیت کی راہ پر گامزن کردیا تھا لیکن شاید اب بدلتے رنگ میں نئی قیادت انضمام الحق کو خود سے دور رکھنا چاہتی ہے۔
سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو انضمام الحق کی شاندار خدمات اس وقت کیوں یاد نہیں آئیں جب انہیں ورلڈ کپ کے بعد حوصلہ دینے کی بجائے ’خود سر‘ اور ’آمر‘ جیسے القابات سے نوازا گیا۔
انضمام الحق کی ریٹائرمنٹ کے محرکات کچھ بھی ہوں لیکن جب بھی ان کے کریئر کی بات ہوگی وہ اس عہد کے ایک بڑے فنکار کی حیثیت سے یاد رہیں گے جو سولہ سال تک شاندار اننگز کی صورت میں خوبصورت فن پارے تخلیق کرتا رہا ہے۔
سچن تندولکر، برائن لارا، مارک وا اور اروندا ڈی سلوا جیسے سٹائلش بیٹسمینوں کی موجودگی میں انضمام الحق نے ہمیشہ اپنا ایک الگ مقام برقرار رکھا اور وہ عددی لحاظ سے بھاری بھرکم اور آنکھوں کو بھانے والی خوبصورت اننگز کھیلنے والے بیٹسمین کے طور پہچانے گئے۔
پاکستانی کرکٹ میں حنیف محمد اور جاوید میانداد ایسے بیٹسمینوں کے طور پر یاد رکھے جاتے ہیں جنہوں نے میچ بچائے بھی اور میچ جتوائے بھی لیکن انضمام الحق اس معاملے میں بھی ان دونوں عظیم کھلاڑیوں سے پیچھے نہیں رہے۔ پاکستان کو جب میچ بچانے کی ضرورت پڑی تو انضمام نے وکٹ پر سرجھکا کر بیٹنگ کی اور جب میچ جتوانے کا وقت آیا تو سر اٹھاکر ٹیم کو جیت سے ہمکنار کیا۔
انضمام الحق کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ کو جب چھوڑیں تو ان کے نام کے آگے دس ہزار رنز لکھے ہوں۔ حالات نے یہ خواہش تو پوری نہ کرنے دی لیکن وہ کسی بھی پاکستانی بیٹسمین کے سب سے زیادہ ٹیسٹ رنز کے ریکارڈ کو اپنے نام کرنے کے قریب ہیں۔
ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ پچیس سنچریوں کا پاکستانی ریکارڈ پہلے ہی انضمام الحق کے نام ہوچکا ہے لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان پچیس میں سے سترہ سنچریاں ان ٹیسٹ میچوں میں بنی ہیں جو پاکستان نے جیتے ہیں۔
بحیثیت کپتان انضمام الحق کا ریکارڈ متاثر کن رہا ہے۔ پاکستان ان کی کپتانی میں اکتیس میں سے گیارہ ٹیسٹ جیتا ہے جن میں ملک سے باہر بنگلور، پورٹ آف سپین اور پورٹ الزبتھ ٹیسٹ کی کامیابیوں میں ان کی اپنی بیٹنگ کا حصہ بھی نمایاں رہا۔
اپنی کپتانی کے ٹیسٹ میچوں میں انضمام الحق نے سات سنچریاں بھی بنائی ہیں۔
89 ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں قیادت کرتے ہوئے وہ ٹیم کو52 میچوں میں جیت سے ہمکنار کرچکے ہیں۔ اسطرح فیلڈ میں بظاہر سست اور ڈھیلے ڈھالے نظرآنے والے انضمام الحق نے کپتان کی حیثیت سے بھی خود کو منوایا ہے۔
انضمام الحق کا ہمیشہ یہی کہنا رہا ہے کہ فیلڈ میں وہ جارحانہ مزاج اختیار کرکے حکم چلانے کی بجائے تحمل مزاجی کے ساتھ کپتانی کرنے میں زیادہ لطف اندوز ہوتے رہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انضمام الحق نے فیلڈ میں ہر غلط فیصلے یا ردعمل کو قبول کیا۔ ٹورنٹو میں اپنے اوپرفقرے کسنے والے شائق کے پیچھے وہ بیٹ لیے بھاگتے بھی نظر آئے اور متعدد مرتبہ امپائرز سے غلط فیصلوں پر احتجاج کرتے بھی دیکھے گئے بلکہ اسی کی بنا پر وہ میچ ریفریز کے پاس سب سے زیادہ پیشیاں بھگتانے والے کرکٹر بھی بنے اور اوول ٹیسٹ نے تو ان کے کریئر کو یکسر بدل ڈالا۔
انضمام الحق لاہور ٹیسٹ کے بعد میدان میں بیٹ کے ذریعے بولرز پر اپنی دھاک بٹھاتے نظرنہیں آئیں گے اور نہ ہی میچ کے اختتام پر ’ نہیں اور جونسے‘ کے ساتھ شروع ہونے والی ان کی گفتگو سننے کو ملے گی لیکن کرکٹ ان کے تذکرے کے بغیر ادھوری رہے گی۔
ہم یقیناً خوش قسمت ہیں کہ انضی جیسے بیٹسمین کو کھیلتے دیکھ لیا]