انقلاب‘‘ پر عوامی تحریک میں پھوٹ، سینئر نائب صدر سمیت کئی عہدیدار مستعفی

انقلاب‘‘ پر عوامی تحریک میں پھوٹ، سینئر نائب صدر سمیت کئی عہدیدار مستعفی

راولپنڈی (آئی این پی) انقلاب مارچ کے معاملے پر پاکستان عوامی تحریک میں پھوٹ پڑ گئی، سینئر نائب صدر پیر حبیب الرحمان سمیت کئی عہدیدار مستعفی ہوگئے۔ اتوار کو یہاں پریس کانفرنس میں انہوں نے کہاکہ انقلاب کے نام پر ملک میں شدت پسندی کو فروغ دیا جارہا ہے، طاہر القادری کارکنوں کو پرتشدد کارروائیوں پر اکسا رہے ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے سینئر نائب صدر پیر حبیب الرحمان، نائب صدر اخلاق احمد جلالی، ڈپٹی جنرل سیکرٹری کامران اختر صدیقی، سیکرٹری فنانس راجہ پرویز حشمت اور سیکرٹری اطلاعات علامہ حیدر علوی نے طاہرالقادری کے انقلاب سے متعلق فلسفے سے اختلاف کرتے ہوئے پارٹی عہدوں سے استعفیٰ دیدیا۔ مستعفی عہدیداروں نے کہا کہ گردنیں اڑائیں گے انقلاب لائیں گے، کے نعرے سے متفق نہیں، طاہرالقادری کارکنوں کو پْرتشدد کارروائیوں پر اکسا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انقلاب کے نام پر ملک میں شدت پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے، پارٹی اجلاس میں پولیس اہلکاروں کی وردیاں اتارنے کا کہا گیا، سر کے بدلے سر لانے کا بھی حکم دیا گیا۔
 
میں نے اپنے جاننے والے منہاج القرآن چند کارکنوں سے پوچھا کہ انقلاب کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ اور انقلاب کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اقتدار کیسے حاصل کیا جائے گا؟ تو کوئی بھی جواب نا دے سکا۔ حتی کہ یہاں محفل میں بھی ہمارے بھائی الف نظامی بھی اس سوال کا جواب نہیں دے سکے بلکہ انہوں نے بات مذاق میں ٹال دی۔
 
طاہر القادری کو شہباز شریف کی فون ریکارڈنگ کون دے رہاہے؟

اسلام آباد (احمد نورانی) اگست میں طاقت کے ذریعے نواز لیگ کی موجودہ حکومت کے خلاف انقلاب لا کر تختہ الٹنے کے دو میں سے ایک دعویدار، طاہر القادری، نے اس وقت ملک بھر میں سب کو حیران و پریشان کردیا جب انہوں نے اعلان کیا کہ ان کے پاس پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کی جانب سے کی جانے والی فون کالز کی ریکارڈنگ موجود ہے۔ جیسا کہ اس سوال پر پہلے ہی گرما گرم بحث جاری تھی کہ کینیڈا پلٹ طاہر القادری اور حال ہی میں لندن سے واپس آنے والے عمران خان کے پیچھے کون ہے جو جمہوری حکومت کے آنے کے صرف ایک سال بعد ہی اس کے خلاف انقلاب لانے کے اعلانات کر رہے ہیں لیکن اتوار کو طاہر القادری کی جانب سے شہباز شریف کی فون کالز کی ریکارڈنگ کی موجودگی کے اعلان نے ملک میں اس پوری صورتحال کے حوالے سے مزید مباحثے شروع ہوگئے ہیں کہ آخر وہ کون ہے جو ڈاکٹر قادری کو اس طرح کی ریکارڈنگ فراہم کر سکتا ہے۔ تقریباً تمام تحقیقاتی رپورٹس اور شواہد میں اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ فائرنگ پہلے منہاج القرآن کے کارکنوں نے شروع کی تھی جس کی وجہ سے یہ پورا سانحہ ہوا لیکن اس بات پر وسیع اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور نواز لیگ کے رہنما بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ پولیس کا رد عمل کچھ زیادہ ہی سخت اور ناقابل قبول تھا جس کی وجہ سے خواتین بھی جاں بحق ہوئیں۔ تمام سیاسی قوتیں اتفاق کرتی ہیں کہ اس سانحہ کے ذمہ داروں کے خلاف سخت ترین کارروائی ہونا چاہئے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات پیش نہ آسکیں۔ پنجاب پولیس اپنے وحشیانہ طرز عمل، ہراساں اور تشدد کرنے حتیٰ کہ سیاسی اشرافیہ کے احکامات پر معصوم شہریوں کو جان سے مارنے کے ساتھ جبری بھتہ خوری اور شہریوں کو قیمتی اثاثوں سے محروم کرنے کیلئے مشہور ہے۔ سب ہی اس بات پر متفق ہیں کہ اس واقعہ کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ تاہم، اس بات کا کوئی جواز نہیں ہے کہ اعلیٰ ترین عہدیداروں کی فون کالز ریکارڈ کی جائیں اور انہیں عدالت کی بجائے عام شہریوں کے حوالے کیا جائے۔ لیکن، بنیادی سوال یہ ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری کے حکومت کا تختہ الٹنے کے بیانات کے پیچھے کون ہے اور ملک میں افرا تفری پھیلانے کیلئے کون انہیں اعلیٰ عہدیداروں کے فون کی ریکارڈنگز فراہم کر رہا ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ ان فون کالز سے ثابت کیا ہوتا ہے لیکن طاہر القادری نے اتوار کو دعویٰ کیا کہ ان ریکارڈنگ سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ میں وزیراعلیٰ پنجاب ملوث ہیں۔ جوڈیشل کمیشن کو دیئے گئے بیان میں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ انہیں افسوس ناک واقعہ کے متعلق نیوز چینلز سے معلوم ہوا اور پنجاب پولیس کے ظلم کی اطلاع نہ دینے پر انہوں نے اپنے پرسنل سیکریٹری توقیر شاہ کو ہٹا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افسوس ناک واقعہ روکنے میں ناکامی پر انہوں نے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو بھی ہٹایا۔ اس بات پر بھی بحث جاری ہے کہ اگر طاہر القادری اور عمران خان کا مقصد ایک ہی ہے تو دونوں مختلف سمتوں میں کیوں سفر کر رہے ہیں۔ تاہم، پی ٹی آئی کے کچھ سیاست دانوں کے پاس اطمینان بخش جوابات ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ 2001 میں اس وقت کے صدر نے کئی رہنمائوں سے وعدہ کیا تھا کہ انہیں حکومت میں سینئر عہدے دیئے جائیں گے۔ پی ٹی آئی کے تجربہ کار سیاست دانوں کے مطابق ان رہنمائوں میں عمران خان، طاہر القادری، پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اندرون سندھ کے لیڈرز اور لاہور کے لوگ اور دیگر شخصیات شامل ہیں۔ پی ٹی آئی کے سینئر رہنمائوں کا کہنا ہے کہ کئی سیاست دان اعلیٰ عہدوں کے خواہش مند تھے اور انہیں یقین دہانیاں بھی کرائی گئی تھیں، لہٰذا جب معاملات کھلنا شروع ہوئے تو کچھ رہنمائوں کو احساس ہوا کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے لہٰذا انہوں نے سابق صدر سے اپنی راہیں علیحدہ کرلیں۔ اس وقت کے صدر کے خاص لوگوں نے ان رہنمائوں کو جو بنیادی شرط بتائی تھی وہ یہ تھی کہ معاملات کو خفیہ رکھا جائے گا لیکن بعد میں ان ہی رہنمائوں نے اپنے دوستوں اور اہل خانہ کو بتانا شروع کردیا کہ 2002 کے الیکشن کے بعد وہ پاکستان کے آئندہ لیڈر بننے والے ہیں۔ اس طرح یہ راز کھل گیا اور سب کو پتہ چل گیا کہ ان کے ساتھ جھوٹے وعدے کیے گئے تھے۔ تاہم، وزارت عظمیٰ کا عہدہ میر ظفر اللہ جمالی کو ملنے کے بعد بھی طاہر القادری آئندہ کیلئے پرامید رہے۔ پی ٹی آئی کے سینئر عہدیداروں کے مطابق 2001 اور 2002 میں کئی امیدوار موجود تھے لہٰذا اب عمران خان اور قادری اقتدار کیلئے علیحدہ علیحدہ جدوجہد کر رہے ہیں کیونکہ جس دن دونوں متحد ہوگئے تو یہ سوال پیدا ہوگا کہ انقلاب کی قیادت کون کرے گا اور اگر نام نہاد انقلاب کے بعد یعنی موجودہ حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد قائم ہونے والی حکومت میں اعلیٰ ترین منصب کس کو ملے گا
 

x boy

محفلین
جب لاد چلے گا بنجارا ،،،،، سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا۔
تصحیح کی ضرورت ہے
 
Top